سہ ماہی ’’معلم ‘‘لاہور

سہ ماہی ’’معلم‘‘ معروف اسکالر ڈاکٹر زیبا وقار وڑائچ، بانی ’النساء‘ انسٹی ٹیوٹ (رجسٹرڈ) کی ایک اور مفید علمی و دینی کاوش ہے جس کے مقاصد ہیں:
٭ قرآن و سنت کی اشاعت
٭ گھروں میں رہتے ہوئے دین کی تعلیم
٭ ذاتی تزکیہ و محاسبہ
٭ بچوں کی تعلیم و تربیت
٭ مستند مواد کے ذریعے درس و تدریس کی تیاری
ان کا نعرہ ہے ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو‘‘
یہ ایک نہایت مفید علمی و دینی مجلہ ہے جو پہلے دوماہی تھا، اب کچھ عرصے سے سہ ماہی شائع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر زیبا وقار وڑائچ پر اللہ پاک کا خاص فضل ہے کہ وہ النساء اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے زیرتحت خواتین اور بچیوں کے لیے دو سالہ تفسیر قرآن کورس کراتی ہیں۔ اسلام کی سچی خادمہ ہیں۔ میں بھی کچھ عرصے سے ’’معلم‘‘ کا قاری ہوں اور اس سے استفادہ کرتا ہوں۔ زیر نظر شمارے کے مضامین کی فہرست درج ذیل ہے:
اداریہ ’’میرے دیس کا حال‘‘ اُمِ حارث کی تحریر ہے، ’’درس قرآن تفسیر سورہ البقرہ 104‘‘ ڈاکٹر زیبا وقار صاحبہ، ’’درس حدیث شرح اربعین نووی‘‘ (حدیث نمبر 5) ڈاکٹر زیبا وقار، ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الروم کی پیش گوئی‘‘ ڈاکٹر ثوبیہ الطاف، خصوصی مضمون ’’معراج کی رات اور سفر‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ’’سیرۃ صحابہ رضی اللہ عنہم۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ‘‘ عائشہ جاوید، قصص الانبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ڈاکٹر زیبا وقار صاحبہ کا 65 صفحات پر طویل مقالہ ہے۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع ہوا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے اداریہ یہاں درج کردیا جائے۔ محترمہ اُم حارث ’’میرے دیس کا حال‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتی ہیں:
’’23 مارچ ایک ایسا عظیم دن، جس دن ہم مسلمانوں نے اپنے دین اور اپنی شناخت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندوئوں نے جب اپنے انتہا پسندانہ، متعصبانہ اور مسلمانوں کے دین سے نفرت کے اظہار میں آریہ سماج تحریک (ہندوئوں کو اپنے ہندو عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارنے والی تحریک)، گئورکھشا تحریک (گائے کو ماں کا درجہ دینے والی ہندو تحریک)، شدھی تحریک (مسلمانوں اور دیگر غیرہندوئوں کو زبردستی ہندو بنانے کی تحریک)، ہندی تحریک (آر ایس ایس) (بظاہر سماجی لیکن ایک متعصب، متشدد اور مسلح تنظیم جو ہندو جوانوں کو لاٹھی چلانے کی تربیت دیتی تھی۔ اسی تحریک نے آزادی مانگنے والے مسلمانوں پر حملے کیے تھے) جیسی تحریکیں چلائیں تو انہوں نے مسلمانوں کو اس سوچ پر ابھارا کہ اب ہمیں اپنی شناخت کو قائم رکھنے کے لیے علحیدہ ہوجانا چاہیے۔
23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک میں ’’قراردادِ لاہور‘‘ پیش کی گئی، جو بعد میں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس قرارداد کے ذریعے ہندوئوں تک یہ پیغام پہنچایا گیا کہ اب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوئوں کا ایک ساتھ رہنا، چلنا، گزارا کرنا مشکل بھی ہے اور ناممکن بھی۔ اس قرارداد کے منظور ہونے کے بعد مسلمانوں نے سات سال اپنی تمام کوششیں، صلاحیتیں اس زمین کے ٹکڑے کو حاصل کرنے میں کھپا دیں، اور 1947ء میں وہ ملک بنا لیا جسے آج ہم ’’پاکستان‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ملک بہت قربانیاں دے کر ایک بہت بڑے عہد پر حاصل کیا گیا تھا۔ اسے بناتے ہوئے ’’پاکستان کا مطلب کیا… لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ یعنی وہ پاکستان جہاں لاالٰہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں) کے عقیدے کی عملی تفسیر پیش کی جائے گی۔ ہمارا مرنا جینا ہماری شادیاں، ہماری غمیاں، ہمارے رسوم و رواج اس دین کے مطابق ہوں گے، اور اس دین پر چلنے والوں کو رواداری، انصاف، ہمدردی اور ایثار کے ساتھ اپنے ہم مذہب اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہو گا۔
لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اپنے دیس کا کیا حال سنائوں! انصاف یہاں بک جاتا ہے۔ دو ماہ کی بچی، معصوم بچے چچا، ماموں، نانا، کزن کے ہاتھوں ریپ ہو کر قتل ہو رہے ہیں۔ مال کا لالچ یہاں بڑھ گیا ہے۔ دکھاوا ہے کہ دن بدن بڑھتا چلا جارہا ہے۔ قتل یہاں روز ہو رہے ہیں۔ شادیوں پر لاکھوںاڑائے جارہے ہیں۔ نہ ذہنی، نہ روحانی اور نہ ہی محلے کی گلیوں میں کوئی پاکیزگی، کوئی صفائی ستھرائی نظر آتی ہے۔ ملک میں ہر طرح کی بداخلاقی نظر آرہی ہے۔ دل دکھ رہا ہے۔ ہر سطح پر عدم برداشت بڑھ گیا ہے۔ ذرا سی کوئی بات مزاج کے مطابق نہیں تو ہم بھڑک اٹھتے ہیں۔ قتل کر دینے سے نہیں چوکتے۔ بد اخلاقی کی یہ تیزرفتاری مجھے خوف میں مبتلا کر رہی ہے۔ چلتے پھرتے یہی فکر ہے کہ ہمارا کیا بنے گا؟ نمازیں، روزے خوب ہو رہے ہیں۔ پر ہم انہیں اپنے اوپر لاگو کرکے معاشرے کو بہتر نہیں کررہے۔ میرا دل کرتا ہے کہ میرے ملک میں اب ایک ہنگامی سائرن بجا کر سوئے ہوئے لوگوں کو جگایا جائے کہ بہت سو لیا، ابھی بھی وقت ہے جاگ جائو۔ اس ملک کی، اس ملک کے رہنے والوں کی، اپنے جیسے انسانوں کی قدر کرو۔ ایک دوسرے کو گرانا بند کرو۔ ایک دوسرے کا مال نہ کھائو۔ اس ملک کے وسائل نہ لوٹو۔
دنیا میں کئی ایسے ملک ہیں جو مسلمان نہیں لیکن ایک قانون، ایک سسٹم کے تحت چل کر کامیاب ہو رہے ہیں۔ اور دنیا میں کئی ایسے مسلمان ملک بھی ہیں جہاں اسلام بھی نظر آتا ہے اور سخت قانون بھی۔ ہمیں نہ اسلام کے قانون کا خوف رہا ہے اور نہ ہی ملک کے بنائے ہوئے قانون کا خوف۔ جب جہاں جس کا دل کرتا ہے قانون کو یا تو توڑ دیتا ہے یا اپنے لیے نیا قانون بنا لیتا ہے۔ اس ملک کے مسائل اب تعداد میں بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور صورتِ حال میں گمبھیر بھی۔
ہم کہتے ہیں پاکستان ایک اسلامی ملک ہے۔ لیکن یہ کیسا ملک ہے جہاں جب جس کو موقع ملتا ہے وہ عزت بھی لوٹ لیتا ہے، مال بھی ہڑپ کرلیتا ہے، اور جان بھی لے لیتا ہے؟ اور سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عزت لوٹنے والے کو، مال ہڑپ کرنے والے کو، اور جان لینے والے کو سزا بھی نہیں دی جاتی۔ لوگ برائی کو برائی ماننے پر تیار نہیں۔ لوگ اپنا قصورماننے کو تیار نہیں۔ لوگ مل بیٹھ کر حل نکالنے کو بھی تیار نہیں۔ دریا اس ملک کے سوکھ گئے ہیں۔ کھیت، فصلیں اس کی بھس بن رہی ہیں۔ فیکٹریاں اس کی بند ہورہی ہیں۔ ہنرمند اس کے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ادارے اس کے تباہ ہورہے ہیں۔ ہر طرف نفسا نفسی اور بے حسی کی آگ ہے۔ یہ آگ ہمارے گھروں تک پہنچنے والی ہے، لیکن ہمیں احساس تک نہیں۔
مغرب میں معاشرے کی ہر تبدیلی پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ہمیں کسی ملک نے کیا تباہ کرنا ہے، وہ کیوں اپنا اسلحہ ہم پر ضائع کرے؟ ہم خود ہی کافی ہیں اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے۔ اور سچ کہوں تو مجھے اب اپنے اردگرد زندہ انسان نہیں، زندہ لاشیں نظر آتی ہیں، جو اپنی زندگی کے لیے دوسروں کا خون پی رہی ہیں۔ ہم اپنے بچوں، اپنی نسلوں کو انہی زندہ لاشوں کے حوالے کرکے اس دنیا سے چلے جائیں گے اور پھر ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب یہ سب تمہارے اردگرد ہورہا تھا تو اُس وقت کیا کررہے تھے؟ تب سب کو یاد آجائے گا کہ جب ملک میں بداخلاقی کی آگ بھڑکی ہوئی تھی میں آرام سے بانسری بجا رہا تھا۔ اللہ میری، آپ کی، ہم سب کی آنکھیں کھولے اور ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی آگاہی دے، تاکہ ہم اپنے آپ کو سدھار سکیں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین‘‘
مجلہ اس قابل ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔