مبارک ستون اور جدائی کا صدمہ

ابوسعدی
منبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بننے سے پہلے حضور پُرنورؐ خشک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
جب پختہ منبرِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیار ہوگیا اور آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو خشک کھجور کے تنے سے یہ صدمہ جدائی برداشت نہ ہوا۔ اُس نے اس طرح رونا شروع کیا جس طرح چھوٹا بچہ ماں کی جدائی سے روتے ہوئے سسکیاں لیتا ہے۔
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں: خشک کھجور کا تنا جس کا نام استونِ حنانہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا نالہ کررہا تھا۔ مثل اربابِ عقول کے یعنی جیسے کہ وہ کوئی انسان ہو۔ اس آوازِ گریہ سے اصحابِ رسولؐ تعجب میں پڑ گئے کہ یہ ستون اپنے پورے حجم طول و عرض سے کس طرح رو رہا ہے۔
آپؐ نے دریافت کیا: ’’اے ستون تجھے کیا ہوا؟‘‘
اس نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی علیہ وسلم آپؐ کی جدائی کا صدمہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ آپؐ کی جدائی سے میری جان اندر ہی اندر جل رہی ہے۔ اس آتشِ غم کے ہوتے ہوئے آپؐ کے فراق میں کیوں نہ آہ و فغاں کروں؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ ہی تو جانِ کائنات ہیں۔ آپؐ پہلے مجھ سے ٹیک لگاتے تھے، اب مجھ سے الگ ہوگئے ہیں اور میری جگہ دوسرا منبر پسند فرمالیا ہے‘‘۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے مبارک ستون اگر تُو چاہتا ہے تو تیرے لیے دعا کروں کہ تُو سرسبز اور ثمرآور درخت ہوجائے اور تیرے پھلوں سے ہر شرقی و غربی مستفید ہو، اور کیا تُو ہمیشہ کے لیے تروتازہ ہونا چاہتا ہے، یا تُو عالم آخرت میں کچھ چاہتا ہے‘‘۔
استونِ حنانہ نے کہا: ’’یارسول اللہ صلی علیہ وسلم! میں تو دائمی اور ابدی نعمت چاہتا ہوں‘‘۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں: ’’اے غافل! تمہیں اس لکڑی سے سبق لینا چاہیے کہ تم انسان ہوکر دنیائے فانی پر گرویدہ اور آخرت سے روگرداں ہورہے ہو، جبکہ استونِ حنانہ نہ نعمت ِ دائمی کو نعمت ِ فانی پر ترجیح دے رہا ہے۔

آں ستون را دفن کرد اندر زمین
تا چُو مردم حشر گرد و یوم دیں

(پھر اس ستونِ حنانہ کو زمین میں دفن کردیا گیا تاکہ مثل انسانوں کے روزِ جزا اس کا حشر ہو۔)
درسِ حیات: اگر کسی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت و محبت نہیں تو اس کی زندگی بھی بے معانی ہوگی، وہ بدنصیب عالم برزخ اور آخرت میں بھی رحمت ِ الٰہی سے محروم رہے گا۔
(مولانا جلال الدین رومیؒ۔ حکایاتِ رومیؒ)

حدیث مبارک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں۔
(سنن ابن ماجہ، 4019)

سلطان فتح علی ٹیپو

ان کا نام آرکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو مستان ولی کے نام پر رکھا گیا، جن کے مزار پر ان کے والد حیدر علی نے بیٹے کے لیے دعا مانگی تھی۔ علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان سے انتہائی عقیدت تھی۔ آپ نے اپنی شاعری میں ٹیپو کی شخصیت اور بہادری کو اُجاگر کیا۔ ٹیپو سلطان شہید اقبال کے نزدیک ایک ایسی شخصیت ہے جس کے اعلیٰ کردار سے ملّی تشخص کا اظہار ہوا، کیونکہ اس نے نہ صرف یہ کہ مصلحتِ وقت کو عمل کا معیار نہ بنایا بلکہ اسلام کی سربلندی کے لیے متعدد باطل طاقتوں کے خلاف زندگی بھر لڑتا رہا۔ اقبال کے مطابق ٹیپو کی شہادت کے بعد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان اپنی ساکھ قائم نہ رکھ سکے۔ جنوبی ہند کے دورے کے دوران آپ نے ٹیپو سلطان شہید کی قبر پر بھی حاضری دی۔ جب ٹیپو کے مزار سے باہر آئے تو آپ نے یہ شعر پڑھا:۔

در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو
مرداں جاں سپردن زندگیست

ٹیپو سلطان نے 4 مئی 1799 ءکو شہادت پائی۔
(تحریر و تحقیق: میاں ساجد علیٍ علامہ اقبال اسٹمپ سوسائٹی)

زمحشری

ابوالقاسم جار اللہ محمود بن عمر الزمحشری (467۶ھ۔ 538ھ) خوارزم میں پیدا ہوئے۔ طالب علم کی حیثیت سے مکہ پہنچے، اسی نسبت سے جاراللہ (اللہ کا ہمسایہ) کہلائے۔ عربی ادب میں ممتاز تھے۔ علم کلام میں معتزلہ کی پیروی کی۔ ایرانی الاصل تھے، مگر عربی ادب میں مہارت ِ تامہ تھی۔ زمحشری کی اہم ترین تصنیف قرآن مجید کی تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل ہے، جو 528ھ میں مکمل ہوئی۔ یہ معتزلی نقطہ نظر کی تفسیر ہے، لیکن پھر بھی راسخ العقیدہ مسلمانوں میں مقبول ہے۔ عقائد کی فلسفیانہ تفسیر، نحوی تشریحات، قرآن کے ادبی محاسن، زبان و بیان اور لغوی بحثیں اور حدیث سے کم تر استفادہ اس تفسیر کی امتیازی صفات ہیں۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)