انسان اور اس کی کمزوریاں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’جو شخص رمضان کا ایک روزہ بھی بلاعذرِ شرعی (سفر اور مرض کے بغیر) چھوڑ دے، پھر مدت العمر اس کی تلافی کے لیے روزے رکھے، تب بھی ایک روزے کی کمی پوری نہ ہوگی۔ (ترمذی، ابودائود)۔
سید طاہر رسول قادری
ترجمہ:”انسان تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے۔ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، اور جب اسے خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ مگر وہ لوگ (اس عیب سے بچے ہوئے ہیں) جو نماز پڑھنے والے ہیں۔ جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔ جو روزِ جزا کو برحق مانتے ہیں۔ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بے خوف ہو۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، بجز اپنی بیویوں یا مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ البتہ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔ جو اپنی گواہیوں میں راست بازی پر قائم رہتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں، یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے۔(المعارج:19 تا 35)۔
انسانوں کا جو خالق ہے وہی جانتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو کن کن کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور کن کن خوبیوں سے نوازا ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے علم میں یہ بات ہے کہ انسان کی فطری کمزوریاں کیا ہیں، اور ان کا اصل علاج کہاں اور کس چیز میں ہے۔ جس طرح اس نے ہر ذی حیات کو پیاس کی حاجت دے کر پانی فراہم کردیا ہے، پیٹ کی بھوک دے کر خوراک کا سامان کردیا ہے، اور سانس کی آمدورفت کے لیے ہوا سے فضا کو بھر دیا ہے، اسی طرح اگر اس نے انسان میں تھڑدلاپن، جلدبازی، تنگ دلی، حیل و حجت، حقیقت کے اعتراف میں بخل کی عادت، مال و جائداد سے شدید محبت، مال و اولاد کی محبت میں ڈوب جانے کی وجہ سے اللہ کی یاد سے غفلت، اپنی عاقبت برباد کرکے دوسروں کی دنیا بنانے کی حماقت، کثرت کی خواہش اور خدا کی ناشکر گزاری جیسی نفسیاتی کمزوریاں رکھی ہیں تو ان کا واضح علاج بھی تجویز فرمادیا ہے۔ اور قرآن کریم میں ایک نہیں متعدد مقامات پر ان پر توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ زیر مطالعہ آیات کی پہلی تین آیتوں میں انسان کی تین نفسیاتی کمزوریوں کی نشاندہی کرکے اگلی آیات میں ان کا علاج تجویز فرمادیا ہے۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ حقیقت خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابلِ تغیر و تبدل نہیں ہیں، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرکے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے عملاً کوشش کرے تو ان کو دور کرسکتا ہے۔ اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اس کے اندر راسخ ہوجاتی ہیں۔
آیات 22 تا 23 میں ان کا علاج تجویز فرمایا گیا ہے۔ جو شخص بھی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرکے اپنی اصلاح کے لیے ان امور کو پابندی سے شعور کے ساتھ اور مخلصانہ طور پر انجام دینے کی کوشش کرے گا وہ ان کمزوریوں سے مکمل طور پر شفایاب ہوجائے گا۔ اور اس کی یہ شفایابی نہ صرف یہ کہ دنیا میں کام آئے گی بلکہ آخرت میں اسے کامیاب اور بامراد بنائے گی۔
(1) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی کتاب قرآن حکیم اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد علاج کے سلسلے میں پہلی کوشش و تدبیر نماز کی پابندی کرنا ہے۔ اس میں کسی قسم کی سستی اور آرام طلبی یا مصروفیت یا دلچسپی نماز کی پابندی میں مانع نہیں ہونی چاہیے۔ جب نماز کا وقت آجائے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کی عبادت کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے اور پورے سکون کے ساتھ ارکانِ نماز کو ادا کرنا چاہیے۔
(2)دوسری کوشش و تدبیر یہ ہونی چاہیے کہ اپنے مال و متاع میں سے جو کچھ اللہ نے دیا ہے معاشرے کے دوسرے غریب اور بدحال، حاجت مند اور بے روزگار اور اپنی روزی کمانے سے معذور لوگوں کی حاجت روائی اور کفالت پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ اس بارے میں جس قدر بھی ایثار و قربانی سے کام لیا جائے گا، علاج اتنا ہی مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔ ان اعمال سے صرف اصلاح ہی نہیں ہوگی بلکہ مزید نیکی کی توفیق ملے گی۔ دنیا بنے گی اور آخرت سنورے گی اور یہ سارے نیک اعمال روزِ جزا کو برحق مانتے ہوئے اور خدا کی گرفت کے خوف سے کرتے رہنے چاہئیں۔ جن کے ساتھ یہ سلوک کیا جارہا ہے اُن سے نہ تو کسی قسم کے بدلے کی امید رکھی جائے اور نہ کسی کو احسان مند بنانے کا کوئی جذبہ و خیال ہونا چاہیے۔
(3) تیسری کوشش حرام سے اجتناب کی ہے، جس میں سرفہرست زنا کاری، فحاشی اور عریانی ہے۔ پہلی دو کوششیں ایجابی ہیں۔ یعنی نماز باجماعت کی پابندی اور حاجت مندوں کی امداد، اور تیسری کوشش سلبی ہے، یعنی ان برائیوں سے اجتناب۔ بیویوں کے سوا اِدھر اُدھر کے تعلقات سے قطعی اجتناب۔ یہ بری عادتیں ہیں، ان سے انسانی خصائل میں رذالت پیدا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو یہ مہلک ہیں۔ جو شخص روزِ جزا کو برحق مانتا ہو اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتا ہو، اور اپنی اصلاح کے لیے کمربستہ ہو، اس کے لیے تو یہ اعمال اکارت کردینے والے ہیں۔ لہٰذا اس کو زنا کے محرکات، اس کی ترغیبات اور اس کے حوصلہ مند ماحول تک سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
(4) چوتھی کوشش یہ کرنی چاہیے کہ امانتوں میں کسی قسم کی خیانت نہ ہونے پائے، یعنی ان کی پوری حفاظت کی جائے، خواہ امانت اللہ کی طرف سے بندے کو دی ہوئی ہو جیسے مال، اولاد، قوت، توانائیاں، صلاحیتیں وغیرہ۔۔۔ ان کا صحیح استعمال امانت داری ہے، اور غلط استعمال خیانت ہے۔ یا ایک انسان نے دوسرے انسان پر اعتماد کرکے اس کے سپرد کی ہو، خواہ وہ مال و دولت، خواہ عہدے اور راز ہوں۔
(5)پانچویں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ عہد کی پاسداری کی جائے۔ اس عہد میں وہ عہد بھی شامل ہے جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے۔ اور وہ عہد بھی شامل ہے جو بندے ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔
(6) چھٹی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اگر شہادت کا موقع آئے تو ٹھیک ٹھیک اور صحیح شہادت دی جائے۔ پولیس کے خوف سے یا کسی اور کے ڈر کی وجہ سے گواہی نہ چھپائی جائے، اور نہ اس میں کوئی کمی بیشی کی جائے۔
(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب حصہ دوئم)