کشمیر کے تین صحافیوں مسرت زہرہ، گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق کے خلاف بغاوت کے مقدمات
مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد حالات وواقعات کو جبر اور بے خبری کے پردوں کے پیچھے چھپانے کی جو رسم شروع ہوئی ہے، کشمیر کا صاف گو اور جرأتِ اظہار کا حامل میڈیا اس منظر میں قطعی ناقابلِ قبول ہوتا جارہا ہے۔ پانچ اگست کے بعد کسی بھی کشمیری صحافی کی خبر یا تصویر سے ناراض ہوکر فوجی کیمپوں میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنا اب معمول بن کر رہ گیا ہے۔ کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے صحافت کو پہلے ہی تنی ہوئی رسّی پر سفر جیسے حالات کا سامنا رہا ہے، مگر پانچ اگست کے بعد صحافت کی رہی سہی آزادی بھی دائو پر لگ چکی ہے۔1990ء میں جب کشمیر میں مسلح تحریک تیزی سے اُبھر رہی تھی، تو کشمیر کے ایک معتبر صحافی اور روزنامہ ’الصفاء‘ کے ایڈیٹر شعبان وکیل کو قتل کرکے صحافت کا گلا گھونٹنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، یہ قلم کے کئی سپاہیوں کو چاٹتا ہوا دوبرس قبل ایک معروف اخبار نویس اور ایڈیٹر ’رائرنگ کشمیر‘ شجاعت بخاری کے قتل تک جا پہنچا۔ اب یونین ٹیریٹری کے نام پر جبر کا جو ماحول قائم کیا گیا ہے، اس میں خبر سے زیادہ بے خبری کے کلچر کی ضرورت ہے۔ یوں اس نئے نظام میں آزاد ضمیر صحافی اور صحافت ’’مس فٹ‘‘ ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر تو کشمیر کے دروازے عرصۂ دراز سے بند ہیں، اب بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے کشمیری صحافیوں کا وجود اور سرگرمیاں بھی ناگوار ہوتی جارہی ہیں، جس کا ثبوت کشمیر کے تین فعال صحافیوں مسرت زہرہ، گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق کے خلاف بغاوت کے مقدمات ہیں۔ ان مقدمات نے کشمیری صحافت کے اوپر منڈلانے والی نادیدہ تلوار کو عیاں کردیا ہے۔ چھبیس سالہ مسرت زہرہ سری نگر کے ایک محنت کش کی بیٹی ہیں، اور کشمیر کے آشوب زدہ حالات نے مسرت کو فوٹو جرنلزم کی طرف راغب کیا۔ دو سال سے مسرت زہرہ خاک وخون میں لتھڑے ہوئے لاشوں، بین کرتی عورتوں، اور پُرنم آنکھوں کے حامل بچوں کی تصویریں بناکر عالمی ذرائع ابلاغ کو بھیجتی ہیں۔ آج کے کشمیر کی اوّل وآخر کہانی چونکہ یہی حالات اور مناظر ہیں، اس لیے ایک پروفیشنل فوٹو گرافر کی طرح مسرت کے پاس یہی کچھ فلم بند کرنے اور رپورٹ کرنے کو ہوتا ہے۔ کئی ایسی ویڈیوز میں مسرت گولیوں کے دوران کیمرہ اُٹھائے دوڑتی نظر آتی ہیں۔ کشمیر جیسے روایتی معاشرے میں ایک خاتون کی اس انداز کی صحافت جان جوکھوں کا کام ہے۔ مسرت زہرہ کی تصویریں ’الجزیرہ‘ اور ’نیویارک ٹائمز‘ میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
عاشق پیرزادہ بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے شجاعت بخاری مرحوم بھی دی ہندو سے وابستہ تھے۔ دی ہندو جنوبی بھارت کا اخبار ہے، اور یہ مزاج اور پالیسی کے اعتبار سے معتدل ہے۔ اس اخبار میں سہاسنی حیدر جیسی خواتین کی کشمیر کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹیں چھپتی ہیں۔ عاشق پیرزادہ اپنے پیش رو شجاعت بخاری کی طرح اپنی رپورٹوں میںکشمیر کے حالات کی عکاسی کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، اور یہ بات بھارتی حکام کو گوارا نہیں۔ اس فہرست میں تیسرا نام گوہر گیلانی کا ہے جو ایک متحرک صحافی ہیں، اور اپنی رپورٹوں میں کشمیر میں چاروں طرف بکھرے واقعات کو دیانت داری سے رپورٹ کرتے ہیں۔
ان تینوں صحافیوں کے خلاف مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں تھانوں میں پیشیوں پر مجبور کیا جانے لگا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز مسرت زہرہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے سے ہوا۔ مقدمہ درج ہوتے ہی انہیں تھانوں میں پیشی کے لیے مجبورکرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ مسرت زہرہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون (Un lawful Activities Prevention Act) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس نے مسرت زہرہ کو ایک عام فیس بک یوزر قرار دے کر ایسی پوسٹس لگانے کا الزام عائد کیا جن سے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ کئی حلقوں نے شکایت کی تھی کہ مسرت زہرہ ایسا مواد پوسٹ کرتی ہیں جس سے نوجوان مشتعل ہوکر تشدد پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب مسرت زہرہ نے کہا ہے کہ انہوں نے ذہنی تنائو کا شکار ایک ایسی خاتون کا انٹرویو کیا ہے جس کے خاوند کو دس سال قبل جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اس انٹرویو اور تصاویر کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیرزادہ عاشق کو بھی ایک دوردراز تھانے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔ پیرزادہ عاشق کو ایک ایسے خاندان کی کہانی لکھنے کی بنا پر طلب کیا گیا تھا جن کا بیٹا فوج کے ہاتھوں شہید ہوگیا تھا۔ کچھ ایسا ہی’’جرم‘‘ گوہر گیلانی سے بھی سرزد ہوا، جس کی بنا پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ان صحافیوں کے خلاف فوج نے جو فردِ جرم تیار کی اُس کے مطابق ان کی صحافتی سرگرمیاں دہشت گردوں کو تعظیم و تکریم دے کر ہیرو بناکر پیش کرتی ہیں۔ عوام میں خوف پھیلاتی ہیں۔ قومی مفاد کے خلاف ہوتی ہیں۔ دہشت گردوں کو تعظیم دینے کے نکتے کا ماخذ اکثر حریت پسندوں کے جنازے ہوتے ہیں۔ اگر کسی حریت پسند کے جنازے میں ہزاروں افراد اُمنڈ پڑتے ہیں تو اخبار نویس اسے کیا لکھے؟ اس طرح فردِ جرم کے باقی نکات بھی مضحکہ خیز ہیں۔
تیس سال سے صحافت کشمیر میں شدید دبائو کا سامنا کرتی رہی ہے۔ اب یہ دبائو ایک نئی اور فسطائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ تین صحافیوں کے خلاف بھارتی ریاست کے معاندانہ اقدامات اس فسطائیت کی نئی اور بھیانک شکل ہے۔ ان اخبار نویسوں کے کیمرے اور قلم سے خوف حقیقت میں بھارت کے اعمال وافعال کا فطری نتیجہ ہے۔
بھارتی صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹر کلڈ آف انڈیا نے بھی صحافیوں کے خلاف مقدمات کی مذمت کرتے ہوئے اسے طاقت کا ناجائز استعمال قرار دیا ہے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارتی حکومت کو صحافت کے خلاف ان اقدامات سے باز رہنے کو کہا ہے۔
بھارت نے گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ بھارت اس ظلم کو چھپانے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے۔کشمیر کے سب سے معتبر صحافی شجاعت بخاری کو کس جرم کی سزا دی گئی؟ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اپنی تحریروں اور تقریروں میں سامنے لاتے تھے، اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کی کشمیر پر رپورٹ کی تیاری میں شجاعت بخاری کا کردار اُن کے قتل کی وجہ بنا تھا۔ اب مسرت زہرہ کی تصویروں میں بھارت کو اپنا چہرہ سیاہ اور داغ دار نظر آتا ہے تو وہ اس کا انتقام مسرت زہرہ سے لینے پر تُل گیا ہے۔ مسرت زہرہ کے خلاف اقدامات حقیقت میں کشمیر میں آزادیِ صحافت کا بدترین قتل ہے۔ حکومتِ پاکستان، عالمی اداروں اور دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں کو بھارت کے اس رویّے کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ مسرت زہرہ کی تحریر وتصویر ایک آئینہ ہے، اوربھارت کو آئینہ توڑنے کے بجائے اپنے چیچک زدہ جمہوری چہرے کی پلاسٹک سرجری کرنی چاہیے۔ صحافت کا گلا گھونٹنے کے بجائے اپنے کردار اور رویّے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ قلم کو زنجیر پہنانا کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا۔