پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کا تیسرا سال شروع ہوچکا ہے، اگلے سال مارچ میں اس ایوان کے نصف ارکان فارغ ہوجائیں گے جبکہ نئے چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کا انتخاب بھی ہوگا۔ پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی بھی چند ہفتوں تک اپنے پہلے دو سال مکمل کرنے اور اپنا تیسرا پارلیمانی سال شروع کرنے والی ہے، لیکن معیشت اور گورننس میں حکومت کی ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ تحریک انصاف ابھی تک اپنی صف بندی ہی نہیں کرسکی۔ پہلے 6 ماہ میں اپنی معاشی ٹیم بدلی اور تین بار ترجمان بدل چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے ترجمان بدل کر پھر ایک بڑی تبدیلی لائی گئی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت دو سال میں ملک میں احتساب کرنے، انصاف لانے، غربت مٹانے اور روزگار پیدا کرنے میں مکمل ناکام نظر آئی ہے، لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے آگے بڑھنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی، اس کی وجہ خود اپوزیشن ہے کہ وہ حکومت کے لیے کسی قسم کی مشکل کھڑی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اُس کے پاس بھی بہتری لانے کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی امیروں کی پشت پر کھڑی ہے۔ ترقیاتی پیکیج، ایمنسٹی اسکیم، ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی جیسی رعایتیں سب اسی طبقے کے لیے ہیں، اورحکومت کے اپنے مقرر کیے جانے والے پیمانے کے مطابق غریب وہ ہے جو ہر ماہ تین ہزار روپے کی امداد کا مستحق ہے۔
ملک میں یہ صورتِ حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ہر سطح پر ایڈہاک فیصلوں کی بنیاد پر چلنے کا رواج مستحکم ہوچکا ہے، اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت ملک میں بہتری لانے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کا حقیقی احتساب کرنے کے بجائے وقت گزاری کی عادی ہوچکی ہیں، اور سیاسی جماعتوں میں بھی سماجی، معاشی اور عدل کے لیے اصطلاحات لانے کے لیے کوئی اسٹڈی فورم نہیں ہیںکہ وہ دلیل کی بنیادپر حقائق سے آگاہی دے سکیں۔ ماضی کے تجربات اور مشاہدات ہمارے سامنے ہیں کہ کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے کی صلاحیت ہم میں نہیں ہے۔
تحریک انصاف بہت جذباتی نعروں کے ساتھ سامنے آئی تھی، مگر تبدیلی کا بند باندھنے کے بجائے خود تنکوں کی مانند بہہ گئی ہے۔ یہ بات پتھر پہ لکیر سمجھیں کہ اس نے جس طرح پہلے دوسال گزارے، اگلے تین سال بھی اسی طرح گزارے گی۔
حکومت نے بجٹ کی آمد سے قبل ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر اشفاق حسن سمیت سابق سیکرٹری خزانہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے، جس میں سابق ادوار کے تمام سیکرٹری خزانہ شامل کیے گئے ہیں۔ آج ملک جس نہج پر کھڑا ہے یہ سب کچھ انہی کے فیصلوں کا نتیجہ ہے، اور پھر انہیں ہی ذمہ داری دے دی گئی۔ سب کو معلوم ہے کہ ان کے پاس موجود انگوروں میں اب رس باقی نہیں رہا، لہٰذا تبدیلی تو ایک خواب بن چکی ہے۔ ایڈہاک ازم اور تجربات پر تجربات کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی، مگر ڈگری ہولڈر نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے بجائے وہی پرانے چہرے لائے جارہے ہیں جنہیں پہلے ہی روزگار میسر ہے۔ بلاشبہ پاکستان ایک کمزور معاشی پسلی والا ملک ہے، اسے ایک ایسے نظامِ عدل کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ہر شہری کو اپنی علمی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق ملک کی خدمت کا پورا پورا موقع ملے۔ ماضی کی ہر حکومت ملک میں یہ نظام لانے میں ناکام رہی ہے۔
کمزور معیشت کے ساتھ ساتھ ہمیں اندرونی سلامتی اور سرحدوں پر گہرے مسائل درپیش ہیں۔اِس وقت جبکہ پوری دنیا کورونا جیسی موذی وبا سے دوچار ہے، بھارت نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں تیز کر دی ہیں۔ بھارت نے گزشتہ دنوں کھوئی رٹہ اور جندروٹ سیکٹرز پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی، اور خودکار ہتھیاروں اور راکٹوں سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا، جس پر بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ 2003ء میں پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر تحمل اختیار کرنے کی پالیسی کا باقاعدہ اعلان کیا تھا، لیکن اس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب بھارت کی طرف سے اس معاہدے کی دھجیاں نہ بکھیری جاتی ہوں۔ رواں برس اب تک بھارت کی طرف سے 749 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی، جس سے درجن سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سو سے زائد ہے، اور شہری املاک کو پہنچنے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ 2019ء میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پر تین ہزار سے زائد مرتبہ اپنی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا جس سے 59 شہری شہید، 281 زخمی ہوئے، جبکہ 105 گھر مکمل طور پر منہدم اور 622کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کے ہمراہ صدر عارف علوی سے اہم ملاقات ہوئی تھی، یہ ملاقات لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور بھارت کے مسلسل منفی رویّے سے متعلق تھی، اور طے یہی ہوا کہ بھارت کو مؤثر جواب دیا جائے۔ اس ذمہ داری کے لیے اب آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری ہوئی ہے، انہیں وزیراعظم کا معاون خصوصی بنایا گیا ہے، سی پیک اتھارٹی کی ذمہ داری بھی وہ ادا کرتے رہیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ ان کی تقرری سے حکومتی میڈیا ٹیم مستحکم و متحرک ہوگی اور حکومت کے خلاف چلنے والی تمام مہموں کا بھرپور طریقے سے جواب دے گی۔ اس اہم منصب پر ان کی تقرری اس بات کی بھی علامت ہے کہ حکومت بھارت کو جواب دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ایک پیج پر ہیں بلکہ باہمی اعتماد بڑھ گیا ہے۔ کورونا وبا نے حکومت اور ریاست دونوں کو یہ بات باور کرائی ہے کہ ہمارا نظام بہت کمزور ہے۔ صحت سے متعلق حکومت اور انتظامیہ کا ڈھانچہ بری طرح سے بے نقاب ہوا ہے۔ اگرچہ نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی تشکیل دی گئی ہے، لیکن کوئی لائن آف ایکشن نہیں ہے، اور نہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کبھی یکجا پر رہی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبوں میںمرکز اور صوبے الگ الگ سوچ کے ساتھ چل رہے ہیں، بلکہ آپس میں دست وگریباں بھی ہیں۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اس خلا کو پُر کیا جائے، اسی لیے اٹھارہویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے لیے مرکز اور صوبوں میں بات چیت شروع ہونے جارہی ہے۔ چھوٹی اور علاقائی جماعتوں نے مزاحمت شروع کی ہے، لیکن جو فیصلہ ہوچکا ہے اس پر عمل ہوگا۔ ان کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم پر نظرثانی ہوگی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کسی حد تک مشاورت کے عمل میں شریک بھی ہیں، تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جارہیں۔ فیصلہ بھی یہی ہوا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم سمیت این ایف سی ایوارڈ پر بھی نظرِثانی کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان بامعنی بات چیت میں زیربحث کوئی بھی نکتہ افشا نہیں کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں پُرامید ہیں کہ انہیں بہتر نتائج ملیں گے۔ اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رابطے ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن سیاسی رعایت مانگ رہی ہے۔ فی الحال تو یہ بات عجیب معلوم ہوگی لیکن حقائق یہ ہیں کہ نوازشریف کے لیے راستہ بنایا جارہا ہے تاکہ ان کی نااہلی ختم ہوجائے، تاہم اس کے بعد وہ سیاست میں متحرک نہیں رہیں گے اور اپنا جانشین نامزد کردیں گے۔ تبدیلیوں کا یہ پہلا فیز ہے، حکومت کے سربراہ عمران خان اور قومی سلامتی کے امور کی نگرانی کرنے والے چاہتے ہیں کہ حکومت اگلے تین سال عوام کی فلاح، معاشی بہتری اور عام آدمی کو براہِ راست فائدہ پہنچانے والے فیصلے کرے۔ یہ فیصلہ نہیں بلکہ تہیہ ہوچکا ہے کہ کرپشن، خواہ کسی بھی سطح پر ہو، کسی قیمت پر قابلِ معافی نہیں ہوگی، لہٰذا دیر یا بدیر حکومت آٹا، چینی اور پاور سیکٹر سمیت جہاں جہاں خرابی ہوئی ہے اسے ختم کرے گی۔ پاور سیکٹر کرپشن اسکینڈل میں جو بھی ملوث ہے اسے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ پاور سیکٹر کے حوالے سے جو رپورٹ کابینہ میں پیش کی گئی، اس کے مطابق ندیم بابر، رزاق دائود، خسروبختیار اور عمر ایوب نے اس سے استفادہ کیا۔ رعایت دینے والوں میں اسد عمر بھی بالواسطہ شامل تھے، وہ اُس وقت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سربراہ، قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ تھے، اور اِس وقت وہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکے بھی سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ کورونا کے حوالے سے پاکستان کا اعصابی مرکز ہے جہاں سے پورے ملک کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ہر روز چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور ان کے معاون سیکرٹری اسد عمر کی سربراہی میں اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ کی ہدایت پر جنرل حمود الزمان، اسد عمر کی اس جدید ترین مرکز میں معاونت کرتے ہیں۔ گویا اس وقت اگر کسی کے پاس اختیارات اور طاقت ہے تو وہ صرف اور صرف اسد عمر ہیں۔ کورونا نے جہاں اسد عمر کو بااختیار بنایا ہے وہاں کابینہ میں یہ چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں کہ 50 ارب کا کیش 12ہزار فی فرد کے حساب سے تقسیم ہوگیا، 74ارب روپے مزید تقسیم ہوجائیں گے، اور 124ارب روپے کس میں تقسیم ہوئے اس کا ڈیٹا ہی شیئر نہیں کیا جارہا۔ کئی وفاقی وزراء تقاضا کررہے ہیں کہ بارہ ہزار روپے کس کس کو دیے گئے ہیں اس ڈیٹا سے ہمیں مطلع کیا جائے۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ اس ڈیٹا کے حوالے سے مکمل پرائیویسی رکھی جائے گی۔ پنجاب کابینہ کے ارکان بھی اس حوالے سے تشویش کا شکار ہیں کہ انہیں اعتماد میں لیے بغیر رقم تقسیم کی جارہی ہے۔ اعظم سلیمان نے بیوروکریسی کو اوپر نیچے کرکے انتظامیہ کو چلا لیا تھا۔ بزدار صاحب کا انتظامیہ سے عمل دخل ختم ہوگیا تھا، کیونکہ چیف سیکرٹری وزیراعظم اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے بااعتماد تھے، طاقتور حلقے بھی ان کی کارکردگی سے خوش تھے، مگر وزیراعلیٰ بزدار نے وزیراعظم سے ملاقات میں انہیں قائل کرلیا کہ چیف سیکرٹری بدلے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اس فیصلے کے بعد سے بزدار ایک بار پھر پنجاب میں قوت پکڑ گئے ہیں۔ وفاق میں اسد عمر ہیں۔