حوثیوں کے خلاف جنگ کے معاملے میں یہ دونوں ملک ایک جان دو قالب ہیں، لیکن زمین پر امارات کی ترجیحات سعودیوں سے متصادم ہیں
یمن خانہ جنگی کا ایک نیا باب کھلنے کو ہے۔25 اپریل کو مجلس الانتقالی الجنوبی المعروف Southern Transitional Council (STC) نے جنوبی یمن کے پانچ صوبوں یعنی حضرموت، ابین، شبوہ، المہرہ اور جزائر سقطریٰ پر مشتمل خودمختار حکومت کے قیام کا اعلان کردیا۔ عدن سے جاری ہونے والے ایک بیان میں STC نے سعودی نواز یمنی حکومت کو کرپٹ و غیر مؤثر قرار دیا جو ان کے خیال میں حقِ حاکمیت کھوچکی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ 25 اپریل کو نصب شب سے آزاد و خودمختار جنوبی یمن کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اعلانِ آزادی کی وضاحت کرتے ہوئے STCکے امریکہ میں مقیم ترجمان جناب الخضر سلیمان نے کہا کہ ہمیں علیحدگی پر کوئی خوشی نہیں، اور یہ فیصلہ بہت بوجھل دل کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بدترین کرپشن اور نااہلی کی بنا پر حکومت عام لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ ہیضے کے موذی مرض سے ایک چوتھائی آبادی متاثر ہے۔ غذائی قلت سے جنم لینے والی بیماریوں کے نتیجے میں ہزاروں بچوں کے معذور ہونے کا خطرہ ہے۔ باربار کی یقین دہانی کے باوجود بھی صدر منصور کی حکومت اپنا رویہ بدلنے کو تیار نہیں، چنانچہ اپنے عوام کو مکمل تباہی سے بچانے اور ممکنہ انسانی المیے کا راستہ روکنے کے لیے خودمختاری ضروری ہے۔
یمن کے جنوب اور شمال کی چپقلش بہت پرانی ہے۔ اس موضوع پر اس سے پہلے ایک نشست میں تفصیلی گفتگو ہوچکی۔ ان میں سے چند نکات کے اعادے سے علاقائی سیاست کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پہلی جنگِ عظیم اور عثمانی خلافت کے خاتمے پر یمن کے جنوبی حصے پر متوکلی شہنشاہیت قائم ہوئی جس کے بانی فرقہ زیدیہ کے روحانی و عسکری پیشوا امام یحییٰ محمد تھے۔ جبکہ شمالی یمن سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آلِِ سعود کے زیراثر رہا۔ گزشتہ صدی کے نصف میں صدر جمال ناصر نے عرب قومیت کا نعرہ لگایا اور جلد ہی جنوبی یمن کے نوجوان بھی اس تحریک سے متاثر ہوگئے۔ صدر ناصر کی نظریں بحر احمر پر تھیں۔ نہر سوئز کی شکل میں اس سمندر کے شمال پر ان کا مکمل کنٹرول تھا۔ صدر ناصر کا خیال تھا کہ اگر آبنائے باب المندب کو قابو کرلیا جائے تو بحر احمر مکمل طور پر ان کے زیراثر آجائے گا۔ دوسری طرف وہ شام میں اپنا رسوخ بڑھاکر بحر روم تک رسائی چاہتے تھے۔ چنانچہ شام و مصر کا الحاق کرکے عرب متحدہ جمہوریہ کی بنیاد رکھی گئی، اور 1958ء میں جنوبی یمن کی متوکلی سلطنت بھی اس الحاق کا حصہ بن گئی۔ سعودی عرب کے لیے یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن تھی کہ جدہ اور ینبوع سمیت مملکت کی تمام بڑی بندرگاہیں اور آبی راستے غیر محفوظ ہوگئے۔ تاہم 1961ء میں شام نے مصر سے الحاق ختم کردیا اور جلد ہی یمن بھی اس اتحاد سے نکل گیا۔ یمن پر کنٹرول کے لیے خونریزی جاری رہی۔ 22 مئی 1990ء کو جنوبی و شمالی یمن نے باہم الحاق کرکے یمن عرب ری پبلک کے نام سے ایک آزاد و خودمختار ریاست قائم کرلی۔ علی عبداللہ صالح متحدہ ریاست کے پہلے صدر، اور جنوبی یمن کے کمیونسٹ رہنما علی سالم البیض نائب صدر مقرر ہوئے۔
تاہم صرف چار سال بعد ہی علی سالم نائب صدارت سے استعفیٰ دے کر عدن واپس چلے گئے، جہاں انھوں نے جنوبی علاقوں کے استحصال کا الزام لگاکر جنوبی یمن کو خودمختار ریاست بنانے کا مطالبہ کیا، اور ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ صدر علی عبداللہ نے طاقت کے بے دریغ استعمال سے بغاوت کی تحریک کچل دی۔ 2011ء کے آغاز میں عرب اسپرنگ کی لہر یمن پہنچی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہر یمنی کے دل کی آواز بن گئی۔ شام اور لیبیا کی طرح یمن میں بھی فرقہ پرستوں نے شہری آزادیوں، حاکمیتِ عوام اور شورائیت کی اس مقدس تحریک کو یرغمال بنا لیا، جس کے نتیجے میں یمن کے عوام گزشتہ 9 سال سے خانہ جنگی کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ عوامی امنگوں کا خون کردینے والی اس سیاہ رات کا اختتام دور دور تک نظر نہیں آتا۔
جنوبی علیحدگی کی حالیہ تحریک کا آغاز اُس وقت ہوا جب اپریل 2017ء میں صدر عبدالرب منصور ہادی نے عدن کے گورنر عیدروس الزبیدی کو متحدہ عرب امارات سے سازباز کے الزام میں برطرف کردیا۔ متحدہ عرب امارات کو خلیج عدن کی بندرگاہ عدن اور بحر عرب کے یمنی جزیرے سقطریٰ سے دلچسپی ہے۔ 3800 مربع کلومیٹر رقبے پر واقع اس جزیرے کی آبادی 60 ہزار کے قریب ہے۔ سقطریٰ ایک انتہائی مصروف آبی شاہراہ پر واقع ہے۔ خلیج فارس اور بحر احمر سے آنے والے جہاز سقطریٰ کے ساحلوں کو تقریباً چھوتے ہوئے بحر عرب اور بحرہند کی راہ لیتے ہیں۔ سقطریٰ کے گورنر استاذ رمزی محروس السقطری اخوانی فکر سے متاثر ہیں۔ فقیر منش استاذ محروس کے وفاقی حکومت کے ساتھ حوثیوں سے بھی اچھے مراسم ہیں۔ ان کی صوبائی کابینہ میں شیعہ بھی ہیں۔ اسی بنا پر اب تک یہ جزیرہ خانہ جنگی کی ہولناکیوں سے بڑی حد تک محفوظ رہا ہے اور ایران نواز حوثیوں نے بھی سقطریٰ میں مداخلت سے گریز کیا ہے۔
لیکن متحدہ عرب امارات پر علاقائی طاقت بننے کا خبط سوار ہے۔ اسی بنا پر کچھ عرصہ پہلے ابوظہبی نے صومالیہ پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی، اور یہ اقدامات اتنے بھونڈے تھے کہ اب دونوں ملکوں کی بات چیت تک بند ہے۔ جنوبی یمن اور سقطرہ پر قبضے کے لیے امارات نے جناب زبیدی کو اکسانا شروع کردیا۔ موصوف اپنی معزولی پر ناراض تو تھے ہی، ابوظہبی کی آشیرواد سے انھوں نے برطرفی کے ایک ہفتے بعد جنوبی یمن کو صدر ہادی کی ’’کرپٹ حکومت‘‘ کے چنگل سے نکالنے کے لیے STCکے قیام کا اعلان کردیا۔ علاقے پر برتری کے ہونکے میں متحدہ عرب امارات نے STCکے لیے اپنے خزانے کے منہ کھول دیے۔ انھیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا گیا اور بھاری تنخواہوں کی لالچ میں وفاقی سپاہ کے بہت سے افسران اور سپاہی سرکاری نوکری چھوڑ کر STC سے آملے۔ ان افسروں نے جنوری 2018ء میں عدن کے فوجی ہیڈکوارٹر اور اس سے ملحق علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ تاہم قبضہ صرف چھائونی تک محدود رہا، اور سرکاری فوج نے ان کی پیش قدمی روک دی۔ STCکی عسکری صلاحیتوں سے مایوس ہوکر متحدہ عرب امارات نے سیکورٹی بیلٹ فورس (SBF)کے نام سے ایک متوازی ملیشیا کھڑی کرلی۔ BSF قبائلیوں پر مشتمل تھی جس کا بنیادی مقصد سعودیوں کے اثر رسوخ کو کم کرنا تھا۔ BSF نے عدن کے دوسرے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔
مزے کی بات کہ سعودی عرب اور امارات یمن میں اتحادی ہیں، اور مارچ 2015ء میں جب خوفناک بمباری کے ساتھ یمن آپریشن کا آغاز ہوا اُس وقت سے یہ دونوں ملک خود کو ایک دوسرے کا مخلص اتحادی کہتے ہیں۔ حوثیوں کے خلاف جنگ کے معاملے میں یہ دونوں ملک ایک جان دو قالب ہیں، لیکن زمین پر امارات کی ترجیحات سعودیوں سے متصادم ہیں۔ ابوظہبی یمن کو جنوب اور شمال میں تقسیم کرکے عدن، زنجبار اور المکلا کی بندرگاہوں کے علاوہ اومان سے متصل حضر موت اور المہرہ صوبوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو اومان پر نظر رکھنے میں مدد ملے گی، دوسری طرف وسطی یمن سے مشرق میں اومان کی سرحد تک تیل و گیس کے کئی ذخائر موجود ہیں۔ کئی سال سے تلاش و ترقی کا کام معطل ہے لیکن ارضیاتی مطالعوں کے مطابق المہرہ صوبے میں اومان کی سرحد کے قریب جو چند کنویں کھودے گئے ہیں ان کے ابتدائی نتائج بہت امید افزا نظر آرہے ہں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، جنوبی یمن کے ساتھ ابوظہبی کو جزیرہ سقطریٰ پر قبضے کا شوق بھی ہے۔ چنانچہ گزشتہ سال جون میں امارات نے اپنے سینکڑوں فوجی جزیرے پر اتار دیے۔ ابتدا میں کہا گیا کہ امارات کا سقطرہ پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں، اور وہ سقطرہ کے لوگوں کو طبی سہولت دینے یہاں آئے ہیں جہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی تھی۔ اسی کے ساتھ ایک سفید جھوٹ یہ پھیلادیا گیا کہ امارات نے فوج بھیجنے سے پہلے گورنر رمزی سے اجازت لی تھی۔ اس افواہ سے گورنر صاحب آزمائش میںپڑ گئے کہ اگر وہ اس بات کو مان لیں تو جواب میں حوثی جزیرے پر اترنے کی کوشش کریں گے، اور تردید کی صورت میں امارات کا مزاجِِ شاہی برہم ہونے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ گورنر صاحب نے اعلان کیا کہ غیر ملکی فوجی ان کی اجازت سے جزیرے پر نہیں اترے، اور انھیں توقع ہے کہ امارات کے سپاہی صوبائی حکومت کی زیرنگرانی کام کریں گے۔ گورنر کے اس مفاہمانہ رویّے کے برخلاف امارات نے گورنر اور اخوان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا۔ اماراتی حکومت نے الزام لگایا کہ صدر منصور کی حکومت اخوان کی الاصلاح پارٹی کی مدد کررہی ہے اور وفاق کی چشم پوشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الاصلاح نے سقطریٰ میں دہشت گردوں کی تربیت کے مراکز قائم کردیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ عوامی سطح پر الاصلاح کو شیعوں اور حزب اللہ کا ہمدرد قرار دیا گیا۔ جولائی 2019ء میں اماراتی فوج کے حامیوں نے جزیرے پر ایک بڑا جلوس نکالا جس میں الاصلاح کے خلاف زبردست نعرے لگائے گئے۔ مقررین نے کہا کہ اماراتی فوج کے آنے سے امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہوئی ہے۔ یہ فوجی مقامی لوگوں میں خوراک، دوا اور نقد رقوم تقسیم کررہے ہیں۔ لیکن اخوانی، حوثیوں کی ایما پر اماراتی فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جلوس کے دوران اخوان کی لائبریری اور ایک شفاخانے پر حملہ بھی کیا گیا۔
دوسری طرف صدر منصور کی فوج نے عدن کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ اس خوفناک جنگ میں دونوں طرف کے درجنوں فوجیوں کے ساتھ سینکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ ایمبولینس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مجروح افراد گلیوں میں ایڑیاں رگڑنے پر مجبور تھے۔ اگر تنومند رشتے دار زخمیوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے ہسپتال لے جانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو اندر داخل ہونا ناممکن تھا، کہ ہیضے کے مریض باہر تک لیٹے ہوئے تھے۔ سرکاری فوجوں نے امارات نواز BSF کو بھاری نقصان پہنچا کر انھیں پیچھے دھکیل دیا اور عدن کا بڑا حصہ دوبارہ وفاق کے زیرانتظام آگیا۔ لیکن دو دن بعد ہی پانسہ پلٹ گیا۔ BSFکی کھلی شکست پر متحدہ عرب امارات نے ایک بار پھر STCکو گود لے لیا۔ عدن کے قریب اماراتی طیاروں کی شدید بمباری کے نتیجے میں ان ہونہاروں نے سرکاری فوج کی پیش قدمی روک دی اور سارا عدن STCکے زیر نگیں آگیا۔ شہر کی سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر آسمانی رنگ کے تکون والے STCکے پرچموں کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے جھنڈے لہرا دیے گئے۔ پے در پے دو بڑی لڑائیوں نے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنادیا اور سینکڑوں افراد نے طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں پر تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔
اس جنگ کے فوراً بعد امارات اور سعودی عرب کی سرپرستی میں وفاقی حکومت اور STCکے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ سعودیوں کو خوف تھا کہ حوثی اس اختلاف سے فائدہ اٹھاکر ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ریاض سمیت سعودی عرب کے محتلف شہروں پر حوثیوں کے ایران ساختہ ڈرون حملوں سے ریاض خاصا پریشان تھا۔ ستمبر میں ابقیق اور غوار پر حملے سے آرامکو کی تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچا تھا، چنانچہ حوثیوں پر دبائو برقرار رکھنا ریاض کی اوّلین ترجیح تھی۔ دوسری طرف صدر منصور کی فوج کو دھول چٹاکر امارات بھی اپنی قوت کا مظاہرہ کرچکا تھا، چنانچہ STC اور یمنی حکومت باہمی لڑائی ختم کرکے حوثیوں کے خلاف جنگ تیز کرنے پر رضامند ہوگئے۔ اس معاہدے کو اعلانِ ریاض کا عنوان دیا گیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یمنی حکومت اور STC سمیت ساری دنیا کو معلوم تھا کہ کوئی بھی فریق امن کے لیے مخلص نہیں، لیکن اس کے نتیجے میں عدن کے شہریوں کو امن و امان کے چند ماہ میسر آگئے جو ان بدنصیبوں کے لیے ایک عظیم نعمت تھی۔
STCکی جانب سے 25 اپریل کے اعلانِ آزادی کو یمن کی حکومت نے ترنت مسترد کردیا۔ یمنی وزیرخارجہ محمد الحضرمی نے علیحدگی کے اس فیصلے کو نومبر میں ہونے والے معاہدۂ ریاض سے علیحدگی کے مترادف قرار دیا۔ دارالحکومت صنعا سے جاری ہونے والے بیان میں جناب الحضرمی نے کہا کہ STCکی طرف سے خودمختار انتظامیہ کا اعلان، بغاوت ہے جسے جلد ہی کچل دیا جائے گا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ STCکو اس کے سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔
اس اعلان پر سعودی عرب کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ 27 اپریل کو ریاض سے جاری ہونے والے بیان میں STC پر زور دیا گیاکہ تمام اختلافات معاہدۂ ریاض کے مطابق بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں، اور دونوں فریق فوری طور پر شہر سے بھاری اسلحہ ہٹا لیں۔ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ عادل الجبیر نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات معاہدۂ ریاض کو اپنے یمنی بھائیوں کے لیے امن کی ضمانت سمجھتے ہیں، اور اس معاہدے کو ہر قیمت پر برقرار رکھا جائے گا۔ STC کے اعلان پر اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف جنوبی یمن کے پانچوں صوبوں نے STCکے اعلان سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ علاقے کے سب سے بڑے صوبے حضرموت حکومت کے ترجمان نے STCکے اعلان کو معاہدۂ ریاض کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ ابین اور سقطریٰ کے صوبائی گورنروں نے اپنے مشترکہ بیان میں صدر منصور سے مکمل وفاداری کا اعادہ کرتے ہوئے کہاکہ یمن کی سالمیت کی ہرقیمت پر حفاظت کی جائے گی۔
کچھ ایسے ہی بیانات شبوہ اور المہرہ صوبوں سے بھی جاری ہوئے ہیں۔ عسکری مبصرین کا خیال ہے کہ متحدہ عرب امارات کی فوری ترجیح عدن اور السقطریٰ ہیں۔ جنوبی یمن کا شوشا موت کا خوف دلاکر یمنی حکومت کے لیے بخار کی اذیت کو قابلِ قبول بنانا ہے۔ یعنی مذاکرات کی میز پر عدن و السقطریٰ کے عوض STC جنوبی یمن کے دعوے سے دست بردار ہوجائے گی۔
علیحدگی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چند دن پہلے آنے والے طوفانِ بادوباراں سے عدن میں درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور شہر کا بڑا علاقہ اب بھی زیرآب ہے۔ گزشتہ ہفتے کورونا وائرس کا ایک مریض بھی سامنے آیا ہے۔ WHOنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یمن اس وبا سے بری طرح متاثر ہے لیکن ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے مرض کی تشخیص درست انداز میں نہیں ہورہی۔
جنوبی یمن پر اثر رسوخ بڑھانے کی اماراتی مہم سعودیوں کو پسند نہیں، لیکن حوثیوں کی جانب سے شدید دبائو کی بنا پر ریاض کے لیے ابوظہبی کو للکارنا بھی مشکل ہے۔ عدن اور آبنائے باب المندب پر امارات کے متوقع کنٹرول سے شہزادہ محمد بن سلمان سخت پریشان ہیں۔ جدہ اور ینبوع سمیت مملکت کی تمام بڑی بندرگاہیں بحر احمر میں ہیں۔ آبنائے ہرمز میں کشیدگی نے سعودی تیل کے لیے خلیج عرب کا راستہ مخدوش بنادیا ہے۔ چنانچہ سعودی عرب آبنائے باب المندب کو اپنی اقتصادی شہ رگ سمجھتا ہے جس پر امارات کی بالادستی ریاض کو کسی طور گوارا نہیں۔ گہری دوستی کے باوجود بحرعرب، باب المندب، خلیج عدن اور خلیج فارس پر بالادستی کے حوالے سے ریاض اور ابوظہبی ایک دوسرے پر اعتماد کے لیے تیار نہیں۔ تیل کی ترسیل اور مالِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے کھلے سمندروں تک رسائی کی خواہش فطری ہے، لیکن کیا یہ ہدف مہذب انداز میں بات چیت اور سب کے لیے قابلِ قبول معاہدوں کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاسکتا؟ آبی راستوں اور تنصیبات پر بالادستی کی شیطانی خواہش نے یمن کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اس کے لاکھوں شہری مارے گئے، اور زندہ بچ جانے والوں کا بھوک و بیماری نے یہ حال کردیا ہے کہ یہ مظلوم باآوازِ بلند اپنی موت کی دعائیں کررہے ہیں۔ انسانوں کو ان مظلوموں کے نہ آنسو دکھائی دیتے ہیں اور نہ دل دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں، کہ دنیاکی آنکھوں پر مفاد کی پٹیاں اور کانوں میں بے حسی کی روئی ٹھنسی ہوئی ہے۔
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔