کمیشن برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ اور دہرے امریکی معیار
مذہبی آزادیوں سے متعلق امریکی کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2019ء شائع کردی ہے۔ کمیشن کے سربراہ ٹونی پارکنز کی نگرانی میں تیار کی گئی یہ رپورٹ 104 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں دنیا کے 29 ممالک میں مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے کے حوالے سے اس رپورٹ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بار بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال بھارت میں مسلسل تنزلی کا شکار ہے، اور مذہبی آزادیوں کو لاحق شدید خطرات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، بھارتی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف تشدد کی عام اجازت دے رکھی ہے، نفرت انگیز تقاریر کے نتیجے میں تشدد کو فروغ دیا گیا ہے، بھارتی حکومت نے گزشتہ برس مذہبی امتیاز پر مبنی جو شہریت قانون بنایا اُس سے مذہبی آزادی کو شدید دھچکا لگا ہے، اور یہ قانون خاص طور پر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے صریحاً خلاف ہے۔ امریکی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2019ء میں بھارت میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے گزشتہ برس سنائے گئے بابری مسجد کی شہادت کے بارے میں فیصلے کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اسے انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ کمیشن نے گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارت کی مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، اور رائے دی ہے کہ مجموعی طور پر بھارت مذہبی آزادی کے نقشے میں نہایت تیزی سے نیچے آیا ہے۔
امریکی کمیشن نے مذہبی آزادیوں کے حوالے سے پاکستان کی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا ہے، اور کئی شعبوں میں مثبت پیش رفت کا اعتراف بھی کیا ہے اور اطمینان کا اظہار بھی۔ اس ضمن میں پاکستان کی جانب سے کرتارپور راہداری کھولے جانے، ننکانہ صاحب میں گورونانک یونیورسٹی کے قیام، ہندو مندروں کو دوبارہ کھولنے، تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں اور توہینِ رسالت میں ملوث آسیہ بی بی کی رہائی اور بیرونِ ملک بھجوائے جانے جیسے پاکستانی حکومت کے اقدامات کا امریکی کمیشن نے خاص طور پر خیرمقدم کیا ہے۔
دیگر ممالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں دو ممالک سوڈان اور ازبکستان کے بارے میں کمیشن نے رائے دی ہے کہ ان ممالک کی قیادت کے اقدامات کے باعث یہاں مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال میں نمایاں بہتری آئی ہے، جب کہ دیگر ممالک میں یہ آزادیاں تنزلی کا شکار ہوئی ہیں، خاص طور پر بھارت میں یہ آزادی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر مجموعی طور پر مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال مایوس کن ہے۔ رپورٹ میں 14 ممالک میں مذہبی آزادی سے متعلق شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، کیونکہ ان ممالک کی حکومتوں نے مسلسل، منظم اور تکلیف دہ بدنظمیوں کو برداشت کیا یا ان میں ملوث پائی گئیں۔ ان میں سے 9 ملک برما، چین، اریٹیریا، ایران، شمالی کوریا، سعودی عرب، پاکستان، تاجکستان اور ترکمانستان ہیں، جب کہ مزید 5 ممالک جہاں مذہبی آزادیاں تنزلی سے دوچار ہیں، ان میں بھارت، نائیجیریا، روس، شام اور ویت نام کا ذکر ہے۔ رپورٹ میں کیوبا، نکاراگوا، سوڈان اور ازبکستان کو خاص طور پر، جب کہ گیارہ دوسرے ممالک افغانستان، نائیجیریا، آذربائیجان، بحرین، وسطی جمہوریہ افریقہ، مصر، انڈونیشیا، عراق، قازقستان، ملائشیا اور ترکی کو عمومی طور پر واچ لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں پانچ تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کی سرگرمیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جن میں صومالیہ میں ’الشباب‘، نائیجیریا میں ’بوکوحرام‘، یمن میں ’حوثی‘، افغانستان میں ’داعش‘ اور’ طالبان‘،اور شام میں ’حیات التحریرالشام‘ شامل ہیں۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی یہ رپورٹ بظاہر بہت خوش کن اور اطمینان بخش محسوس ہوتی ہے، شاید اسی لیے پاکستانی ذرائع ابلاغ اور دفتر خارجہ نے اس کی اشاعت پر بہت بغلیں بجائی ہیں، لیکن اس کا ذرا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کمیشن حسبِ سابق اس رپورٹ کی تیاری اور اشاعت میں بھی اپنے خبثِ باطن کے اظہار یا دوسرے الفاظ میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں رہ سکا۔ کورونا وائرس کے بعد جس طرح اس عالمگیر وبا کو بھارت میں مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے اور انتہا پسند ہندوئوں نے جس طرح بے بس مسلمانوں کو ظلم، تشدد اور جبر کا نشانہ بنایا ہے، اس کا ذکر تو رپورٹ میں شاید اس لیے نہ کیا گیا ہو کہ رپورٹ 2019ء کی صورتِ حال کا احاطہ کرتی ہے، جب کہ ’کورونا جہاد‘ کے طعنوں اور اس کے حوالے سے بیہمانہ تشدد کے واقعات کا زیادہ تر تعلق 2020ء کے مہینوں سے ہے، تاہم بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019ء سے اپنے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل نو ماہ سے کرفیو، لاک ڈائون اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعوں کو بند کرکے جو اذیت ناک صورتِ حال کشمیر کے مسلمانوں کے لیے پیدا کررکھی ہے اُس سے رپورٹ میں چشم پوشی کا جواز کیا پیش کیا جا سکتا ہے؟ تاہم 2019ء کے جس سال کی یہ رپورٹ ہے جس کے دوران کمیشن نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہے، کیا اس سال کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر گجرات کے قسائی، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ نے ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر محبت کی پینگیں بڑھانے کے عزم کا اعلان نہیں کیا! اور پھر اسی سال کے دوران خود صدر ٹرمپ نے بھارت کا دورہ کرکے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مسلمان اور اقلیت دشمن پالیسیوں کی تائید و حمایت کا اظہار نہیں کیا ! امریکہ اور اس کے صدر کی اس دو عملی کو آخر کیا نام دیا جائے؟
ذرا آگے آیئے، رپورٹ میں اگرچہ پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے مثبت پیش رفت کا اعتراف کیا گیا ہے اور اس ضمن میں پاکستانی حکومت کے متعدد اقدامات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، مگر چند سطر آگے جا کر مذہبی آزادی کے منافی مسلسل، منظم اور تکلیف دہ بدنظمیوں کو برداشت کرنے یا ان میں ملوث ہونے والے جن ملکوں کی حکومتوں کا نام دیا گیا ہے اس فہرست میں پاکستان کا نام بھارت سے بہت پہلے درج کیا گیا ہے۔ پھر اس رپورٹ میں سوڈان اور ازبکستان کی حکومتوں کی کارکردگی کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے، مگر چند سطر بعد ہی جن ملکوں کوخاص طور پر ’واچ لسٹ‘ میں شامل کرنے کی سفارش کمیشن نے کی ہے ان میں سوڈان اور ازبکستان دونوں شامل ہیں، جب کہ بھارت، جہاں کی مذہبی آزادیوں کی صورتِ حال کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ترین اور تیزی سے مائل بہ تنزل قرار دیا گیا ہے اس بھارت کا نام اِس ’واچ لسٹ‘ سے گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب کر دیا گیا ہے، حتیٰ کہ گیارہ دوسرے ممالک پر مشتمل جو عمومی واچ لسٹ مرتب کی گئی ہے اس میں ترکی اور ملائشیا جیسے ممالک کے نام تو شامل ہیں، مگر مذہبی آزادی کے حوالے سے انتہائی دگرگوں حالات سے دوچار بھارت کا نام اس فہرست میں بھی شامل نہیں۔ اسی کو کہتے ہیں کہ ’’جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ رپورٹ میں جن پانچ تنظیموں کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ان کا جائزہ لیں تو یہ راز کھلتا ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں، کوئی غیر مسلم تنظیم اس دنیا میں دہشت گردی میں ملوث نہیں، حتیٰ کہ بھارت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف کھلے عام دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والی راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھی نہیں۔ تھوڑا سا مزید غور کیجیے تو سامنے کی حقیقت یہ بھی ہے کہ خودساختہ الزامات کے تحت ایران کو تو سخت سے سخت تر معاشی اور سماجی پابندیوں سے دوچار کیا جا سکتا ہے، پاکستان کو بھی جرمِ بے گناہی میں ایف اے ٹی ایف اور نہ جانے کن کن جکڑ بندیوں کا شکار کیا جا سکتا ہے، مگر بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک ریاستی دہشت گردی، انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی تنگ نظری کے باوجود ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں!