رمضان المبارک :افغان حکومت کی طالبان سے جنگ بندی کی اپیل

اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان کی سنسنی خیز رپورٹ

اطلاعات کے مطابق طالبان نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران جنگ بندی کی اپیل یہ کہہ کر مسترد کردی ہے کہ جب تک افغان حکومت دوحہ معاہدے کے تحت طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی، تب تک افغان سیکورٹی فورسز اور سرکاری حکام کے خلاف حملے جاری رہیں گے۔ افغان طالبان نے حکومت کی جانب سے رمضان المبارک میں جنگ بندی کی اپیل ایک ایسے موقع پر مسترد کی ہے جب ایک جانب افغانستان میں جہاں طالبان کی طرف سے افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے، وہیں افغان فورسز نیز اتحادی افواج کی جانب سے بھی طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں پر بمباری کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اس حوالے سے موصولہ تازہ اطلاعات میں ملک کے شمال مشرقی صوبوں قندوز، فاریاب، بادغیس، تخاراور لوگر میں مختلف واقعات کے دوران جہاں درجنوں افغان سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی طالبان حملوں کے نتیجے میں ہلاکتیں سامنے آئی ہیں، وہیں ان جھڑپوں میں حکومتی اداروں کی طرف سے طالبان کے بھاری جانی نقصان کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ ان واقعات میں جنگی جہازوں کے استعمال کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں جن کا استعمال لوگر میں کیا گیا ہے۔افغان حکام کی جانب سے ان حملوں میں اٹھارہ طالبان جنگجوئوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیاگیا ہے۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے امن مشن کی جانب سے اِس سال کی پہلی سہ ماہی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ عام افغانوں کی توقع کے برعکس طالبان امریکہ معاہدے کے بعد افغانستان میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ اس عرصے میں مذاکرات کے دوران جنگ بندی پر کافی حد تک عمل درآمد ہوتا رہا ہے، لیکن پھر بھی اس پہلی سہ ماہی میں پانچ سو سے زائد سویلین افراد کی ہلاکتوں اور تقریباً سات سو کے قریب زخمی ہونے کی اطلاعات رپورٹ ہوئی ہیں، جو اسی عرصے میں گزشتہ سال کی نسبت 29 فیصد زیادہ جانی نقصان ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان کی اس سنسنی خیز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال کے پہلے تین ماہ میں 533 شہری فائرنگ اور بم دھماکوں سے جاں بحق اور 760 زخمی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق 282 افراد مسلح گروہوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنے، 198 افراد افغان افواج اور اتحادیوں کی گولیوں سے مارے گئے۔ مرنے والوں میں 152 بچے اور 60خواتین بھی شامل ہیں۔
اسی اثنا افغان طالبان نے کابل میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ شہری ہلاکتوں کو صفر کی شرح پر لانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اس کے برعکس امریکی اور افغان افواج کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جسے اس رپورٹ میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے معاون مشن کے دفتر نے شہری ہلاکتوں کے بارے میں رواں سال کی اپنی پہلی سہ ماہی شہری رپورٹ میں غلط اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔ طالبان ترجمان کے مطابق اس رپورٹ میں مجاہدین کو 39 فیصد شہری ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر امریکی افواج اور کابل انتظامیہ کی فوجی، انٹیلی جنس، پولیس اور ملیشیا کی طرف سے شہریوں کے خلاف روزانہ ہونے والے جرائم کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان شائع کردہ اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امارتِ اسلامیہ نے شہریوں کی ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا ہے جو شہریوں کی ہلاکتوں کو صفر کے قریب کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے معاون مشن کی رپورٹ میں امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین سے کچھ واقعات منسوب کیے گئے ہیں جو یا تو پرانی بارودی سرنگوں کی وجہ سے ہوئے ہیں، یا ذاتی جھگڑوں کی وجہ سے۔ اگر امارتِ اسلامیہ کا کوئی فرد، شہری ہلاکتوں کا سبب بن جاتا ہے تو پھر انہیں شہری ہلاکتوں کی روک تھام کے لیے کمیشن کی جانب سے سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجرموں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔ ہمارے ہم وطن اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکتیں بمباری، دیہات اور شہروں پر توپ خانے کے حملوں اور اپوزیشن کی طرف سے گھروں پر رات کے چھاپوں کے نتیجے میں ہوتی ہیں جن کا اس رپورٹ میں صرف مبہم انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں طے پانے والے امن معاہدے کے تناظر میں کہا جارہا تھا کہ اس معاہدے کے طفیل افغان ملّت کو پچھلے بیس برسوں کے برعکس اِس سال پہلی دفعہ رمضان المبارک اور عیدالفطر نسبتاً پُرامن ماحول میں گزارنے کا موقع ملے گا، لیکن یہ امیدیں اگر ایک طرف اس متذکرہ معاہدے پر عمل درآمد میں افغان حکومت کی جانب سے تاخیر کے باعث دم توڑ رہی ہیں، تو دوسری جانب افغانستان میں جاری سیاسی بحران جس میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان پہلے صدارتی نتائج اور بعد ازاں مشترکہ اتحادی حکومت کے قیام پر امریکی خواہش اور دبائو کے باوجود عمل درآمد نہ ہونے کے نتیجے میں یہ بحران دن بدن مزید گہرا ہوتا جارہا ہے، جب کہ تیسری جانب دنیا بھر کی طرح افغانستان میں بھی کورونا وبا اپنے منحوس پنجے مضبوطی سے گاڑتی ہوئی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں اب تک دوسو سے زائد افراد جاں بحق اور ڈھائی ہزار سے زائد متاثر ہوچکے ہیں جن میں ناکافی طبی سہولیات،جاری خانہ جنگی اور ملک کی جغرافیائی ساخت کے باعث مسلسل اضافے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کے دوحہ میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے صدر اشرف غنی کی جانب سے رمضان المبارک میں جنگ بندی کی اپیل ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے یہ کہہ کر مسترد کی ہے کہ امریکہ طالبان امن معاہدے پر عدم عمل درآمد، اور خاص کر اس معاہدے کے تحت دس ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر، نیز کورونا وبا سے افغان جیلوں میں قید طالبان قیدیوں کی جانوں کو لاحق خطرات کے تناظر میں طالبان کے لیے افغان سیکورٹی فورسز پر حملے بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ سہیل شاہین کاکہنا تھا کہ افغان حکومت طے شدہ معاہدے کے تحت طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے ذریعے ان کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لہٰذا ان حالات میں جنگ بندی کی اپیل پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق اب تک نہ صرف تمام طالبان قیدیوں کو رہا ہوجانا چاہیے تھا، بلکہ بین الافغان ڈائیلاگ کے تحت طالبان کو حکومتی سیٹ اپ میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز بھی ہوجانا چاہیے تھا، جس کے آثار جہاں افغان صدر کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تاحال دوردور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں، وہیں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے غیر لچک دار رویّے اور صدر اشرف غنی حکومت کے خلاف ایک متوازی حکومت کے اعلان کے باعث افغانستان کا سیاسی منظرنامہ انتہائی مایوس کن منظرکشی کررہا ہے۔
یہاں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ اس دوران اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور افغانستان کے لیے حال ہی میں مقرر کیے جانے والے نیٹو نمائندے نے اپنے الگ الگ پیغامات میں بھی کورونا صورتِ حال اور طے شدہ امن معاہدے کی روشنی میں جنگ بندی کی اپیل کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے ڈائیلاگ اور اور ایک مشترکہ قومی حکومت کے قیام پر زور دیا ہے، البتہ اس حوالے سے خود افغان دھڑوں میں تمام تر بین الاقوامی کوششوں کے باوجود اتفاقِ رائے تو کجا ایک دوسرے کا نقطہ نظر سننے کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ان دھڑوں کے سربراہان کی جانب سے سامنے آنے والے تند وتیز بیانات کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جہاں صدر اشرف غنی کی طرف سے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کسی مفاہمت کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں، وہیں خود مستقبل کی صورت گری کے حوالے سے شمالی اتحاد کے مختلف دھڑوں جن میں جمعیت اسلامی، جنرل رشید دوستم کی جنبش ملّی اور استاد محقق کی حزب وحدت قابل ذکر ہیں، کے درمیان بھی واضح اختلافات پائے جاتے ہیں۔ جب کہ گزشتہ روز خود جمعیت اسلامی جو شمالی اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے اور جسے پختونوں کے بعد افغانستان کی دوسری بڑی لسانی اکائی تاجکوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، کے درمیان بھی اختلافات کی مصدقہ خبریں سامنے آچکی ہیں۔
دریں اثناء سابق جہادی راہنما اور گزشتہ صدارتی انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار سمجھے جانے والے حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار کی جانب سے گزشتہ دنوں جاری کیے جانے والے ایک اعلامیے میں جہاں ایک مشترکہ افغان حکومت بنانے کی امریکی کوششوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے، وہیں انہوں نے ان کوششوں کو افغان عوام اور افغان رائے دہندگان سے خیانت پر بھی محمول کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے افغانستان کے سیاسی بحران بشمول تمام مسائل کی جڑ غیر ملکی قوتوں کی افغان امور میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت، نیز امریکی افواج کی افغانستان میں مسلسل موجودگی کو قرار دیتے ہوئے نہ صرف غیر ملکی افواج کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا ہے، بلکہ انہوں نے تمام سیاسی قوتوں بشمول طالبان کو مل بیٹھ کر تمام مسائل بات چیت کے ذریعے پُرامن طور پر حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ لہٰذااگر دیکھا جائے تو اس مرحلے پر یہی ایک ایسی مناسب تجویز معلوم ہوتی ہے جس پر عمل درآمد کے ذریعے افغانستان کے مخدوش حالات سے نکلنے اور اس کے پُرامن اور خوشحال مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے، بصورتِ دیگر جاری بدامنی اور خانہ جنگی کے مزید طول پکڑنے کے خدشات کورد نہیں کیاجاسکتا ۔