کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے افغانستان کا اہم مسئلہ پسِ پشت چلا گیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا اور انخلا کا طریق کار طے کیا جارہا تھا، امریکہ خاموشی سے دو ہزار کے قریب فوجی نکال چکا تھا۔ اب اُس کے 12 ہزار فوجی رہ گئے ہیں۔ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات میں طے کیا تھا کہ تعداد مزید کم کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ اس بات سے قبل افغانستان میں طالبان کے ساتھ مختلف معاہدے کرنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ امریکہ میں انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ اگر جنگ نے طول پکڑا تو صدر ٹرمپ کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی، اور امریکی فوجیوں کی ہلاکتیں زیادہ ہوئیں تو ان کا جیتنا مشکل ہوگا۔ اب امریکہ نے طالبان کی قوت کو تسلیم کرلیا ہے۔ معاہدے میں یہ طے ہوگیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنے کم و بیش ساڑھے سات ہزار فوجی نکال لے گا اور طالبان تشدد ترک کریں گے۔ اس معاہدے میں امریکہ نے افغان حکمران قوت کو نظرانداز کردیا تھا اور اس کی کوشش تھی کہ افغان حکومت اپنا بوجھ خود اٹھائے۔ 12،2011ء میں جب افغانستان میں جنگ اپنے عروج پر تھی تو امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ دسمبر 2019ء میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنے سات ہزار فوجی واپس بلائے گا۔ ان تمام معاملات میں پاکستان مسلسل رابطے میں تھا اور زلمے خلیل زاد حالات سے پاکستان کو باخبر رکھ رہے تھے، اور معاہدے میں یہ طے تھا کہ افغان حکومت طالبان قیدیوں کو، اور طالبان افغان فوجیوں کو رہا کردیں گے۔ یہ معاہدہ آگے بڑھ رہا تھا کہ کورونا وائرس نے افغان مسئلے کو پس پشت ڈال دیا۔ گو کہ اس مسئلے پر امریکہ کی توجہ مبذول ہے لیکن کورونا نے الجھا دیا ہے، پاکستان بھی اس کی زد میں آگیا ہے۔
اب پاکستان میں کورونا مسلسل پھیل رہا ہے، صوبہ بلوچستان بھی اس کی زد میں ہے، گو کہ ہلاکتیں اتنی زیادہ نہیں ہوئی ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں 27 اپریل تک 11 ہلاکتیں ہوئیں اور کورونا سے متاثرین کی کُل تعداد 781 ہے۔ ڈاکٹر جو کورونا سے متاثر ہوئے ہیں ان کی تعداد 31 ہے۔ اس لحاظ سے بلوچستان زیادہ محفوظ نظر آرہا ہے۔ بلوچستان کے ینگ ڈاکٹر صاحبان نے پریس کانفرنس کے ذریعے حکومتِ بلوچستان سے14 دن کے کرفیو کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈاکٹر اس سے متاثر ہورہے ہیں، ہمارا طبی نظام کورونا کا دبائو برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں رہیں اور اسپتال کے آکسیجن یونٹ فعال کیے جائیں۔
بلوچستان میں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے ممتاز رہنما اور سابق وزیر بلدیات سردار مصطفیٰ ترین کورونا کی زد میں آکر جان کی بازی ہار گئے۔ وہ پھیپھڑوں کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ ان کے خاندان کے 5 افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے لیے یہ بڑا صدمہ ہے۔ جس دن مصطفیٰ ترین اسپتال میں داخل ہوئے اُس دن 51 کیس سامنے آئے، جن میں 31 افراد کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ اس وقت صوبے کے 33 اضلاع میں سے 12 کورونا کی زد میں ہیں۔ مصطفیٰ ترین کا تعلق ترین قبیلے سے ہے، ان کے دادا نذر محمد ترین تھے، جنرل ایوب خان جب بلوچستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے ترین قبیلے کی طرف سے ایوب خان کو ترین قبیلے کا سردار نامزد کیا، انہیں تاریخی تلوار دی اور ان کے سر پر کلاہ باندھا۔ یوں ایوب خان پاکستان کے پورے قبیلے کے سردار بن گئے۔ ایوب خان کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا، ان کے آباو اجداد بلوچستان سے صوبہ سرحد منتقل ہوگئے تھے۔ اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کا تعلق ژوب سے تھا، ان کے آباو اجداد بھی نقل مکانی کرکے چلے گئے تھے۔ جنرل عبدالوحید کاکڑ کا قریبی تعلق عبدالرب نشتر سے تھا۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کا تعلق بھی نشتر خاندان سے ہے۔ بلوچستان کے ترین قبیلے کے سردار نذر محمد ترین قتل ہوگئے تو ان کے بعد ان کے بیٹے سردار خیر محمد ترین کو سردار بنایا گیا۔ انہیں ایوب خان کے دور حکومت میں مشیر کا درجہ حاصل تھا۔ ان کی وفات کے بعد سرداری نظام کی پگڑی مصطفیٰ ترین کے سر باندھی گئی۔ اب دیکھنا ہے کہ ان کے بعد یہ پگڑی کس کے سر باندھی جائے گی۔
مصطفیٰ ترین ایک خوش مزاج انسان تھے، وہ لوگوں میں جلدی گھل مل جاتے تھے۔ میرے اُن سے بڑے خوشگوار تعلقات تھے۔ ان کی وفات پر پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اپنے بیان میں کہا کہ مصطفیٰ ترین نے قوم اور وطن کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اُن کی موت سے پارٹی کو بہت بڑا صدمہ ہوا ہے، انہیں تاریخی جدوجہد میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔ قبائلی تنازعات اور رنجشوں کے خاتمے میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پارٹی امید کرتی ہے کہ ان کے پسماندگان ان کی شاندار روایات کو برقرار رکھیں گے اور ان کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ بلوچستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے عمائدین نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور اہلِ خاندان سے تعزیت کی۔