انٹرویونما ’’صحافی شہ پارے‘‘ میں میاں شہباز شریف کے انکشافاف
رواں ہفتے کے دوران اس انٹرویو نما ’’صحافتی شہ پارے‘‘ کا بہت چرچا رہا جسے کالم میں ملفوف کرکے پیش کیا گیا، اور جس کے خالق خود بھی یہ بتانے سے گریز کررہے ہیں کہ یہ کالم ہے، بریکنگ نیوز ہے، انٹرویو ہے یا کچھ اور۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صحافی کا کام ہے کہ وہ اپنی بات کس طریقے سے اور کس میڈیم کے ذریعے عوام تک پہنچاتا ہے۔ تاحال اس کی ٹائمنگ پر بھی بات جاری ہے کہ اس وقت جب پوری دنیا کورونا سے، اور ملک بے پناہ مشکلات سے دوچار ہے، اس قسم کے انکشافات کرنے یا کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ کہ یہ انکشافات انٹرویو یا کالم نویس کی کوئی فنی چابک دستی ہے یا اس نام نہاد سیاست دان کی کو ئی وقتی ضرورت؟ اور کہیں اسی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر تو یہ اسٹیج نہیں سجایا گیا جو کالم کے مندرجات کے مطابق سیاہ و سفید کی مالک ہے اور کالم نگار کے بقول ایسا ساری دنیا میں ہوتا ہے۔
یہ ’’صحافتی شہ پارہ ‘‘جو کچھ بھی ہے اس کے مندرجات نے ملک کے تین طبقات کی اخلاقی حیثیت کا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس ملک میں ایسے مواقع بارہا آئے، جب ریاست کے ان تینوں ستونوں کی اصل حیثیت کھل کر سامنے آگئی۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ انکشاف بہرحال اہمیت کا حامل ہے اور راوی ایسا سیاست دان ہے جو حقیقت میں اقتدار کی غلام گردشوں کا طویل مگر عبوری مکین رہا ہے۔ گاہے اسے اقتدار کے انتظار میں مجبوراً اپوزیشن کا لبادہ بھی اوڑھنا پڑا، لیکن اس کی زندگی اور موت کا اصل مرکز و محور اقتدار ہی ہے۔ اس شہ پارے کے ذریعے ایک جانب اسٹیبلشمنٹ کا وہ چہرہ اور کردار ایک بار پھر سامنے آیا ہے جو عام آدمی کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن اشرافیہ کے لیے نیا نہیں۔ دوسری جانب سیاست کا وہ گھنائونا چہرہ سامنے آیا ہے جس میں ایک سیاسی جماعت اقتدار کے حصول کے لیے انتخابات سے بھی قبل نادیدہ قوتوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے، اور تیسری جانب وہ بے توقیر صحافی ہیں جو اپنا کام کرنے کے بجائے پیغام رسانی کا کام کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں کہ یہی کام ان کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور تین بار پنجاب کے وزیراعلیٰ رہنے والے شہبازشریف نے اس انٹرویو نما صحافتی شہ پارے میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2018ء کے انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ اُن کے ساتھ مذاکرات کررہی تھی یا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے، جن میں اُن کی ممکنہ اگلی کابینہ کے نام تک زیربحث آئے۔ اُن کے بقول انہیں ملک کا اگلا وزیراعظم بنایا جارہا تھا جس کے لیے اُن کو اعتماد میں لے کر اُن کی کابینہ کے ارکان بھی فائنل کیے جارہے تھے۔ یعنی ملاحظہ ہو کہ ابھی انتخابات ہوئے نہیں، نتائج کا کسی کو علم نہیں کہ عوام کسے اپنے اعتماد سے نوازتے ہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ یہ طے کررہی ہے کہ اقتدار فلاں شخص یا پارٹی کو دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے ساتھ مستقبل کی کابینہ تک طے کی جارہی ہے۔ یہ تو ہے اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ، یعنی اگر یہ معاملات فائنل ہوجاتے تو پھر شاید مسلم لیگ (ن) کو انتخابات میں جتوانے کا اہتمام بھی کرلیا جاتا۔ دوسری جانب صبح شام جمہوریت، جمہوریت کی مالا جپنے والوں اور عوام کے ووٹوں کی طاقت پر یقین رکھنے والوں کا رویہ دیکھیے کہ وہ انتخابات سے قبل ہی حصولِ اقتدار کے لیے مذاکرات کررہے ہیں، گویا اسٹیبلشمنٹ کی اگلی چاکری کرنے کو تیار ہیں۔ انہیں نہ اپنے بیانات اور تقاریر یاد ہیں اور نہ عوام سے کیے گئے وعدے۔ یقینی طور پر وہ مذاکرات انہی خطوط پر کررہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ ہم آپ کے اعتماد یا خواہشات پر پورا اتریں گے۔ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی خواہش بھی یقیناً رکھی گئی ہوگی کہ مہربانی کرکے ہمیں جتوانے اور کم از کم سادہ اکثریت دلانے کا بھی بندوبست فرما دیجیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لیڈر جو یقینی طور پر شیخ رشید کے بقول اسٹیبلشمنٹ ہی کے گملے میں پروان چڑھے ہیں، یہ کہتے کہ جناب انتخابات ہو لینے دیجیے، ہمیں عوام کے فیصلے کا انتظار ہے، جمہوریت کی روح اور ہمارا اعلانیہ مؤقف بھی یہ ہے کہ جسے اکثریت ملے وہ صاف شفاف انتخابات کے بعد حکومت بنا لے، اگر ہماری اکثریت ہوئی تو ہم حکومت بنا لیں گے اور اس موقع پر آپ کو اپنی کابینہ سے بھی آگاہ کردیں گے، آپ کی مدد اور تعاون کے بھی خواست گار ہوں گے اور آپ کی رائے کو بھی وزن دیں گے۔ ہمیں انتخابات سے قبل نہ تو آپ کی حمایت درکار ہے اور نہ ہم آپ کے ساتھ کابینہ تک کو ڈسکس کرکے پورے انتخابی عمل کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنا کام کیجیے، صاف شفاف انتخابات کرایئے، اور جیتنے والے کو پُرامن انداز میں اقتدار منتقل کردیجیے۔ لیکن اس اصولی مؤقف کے بجائے وہ حصولِ اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مختصر مگر تاریک گلی کا راستہ منتخب کررہے تھے کہ ہر صورت میں بس اقتدار دے دیا جائے کہ ہم آپ کے پہلے بھی وفادار تھے، آئندہ بھی اس وفاداری کا یقین دلاتے ہیں۔
یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ شہبازشریف اس راز کا انکشاف دو سال بعد کررہے ہیں، حالانکہ انہیں اوّل تو ایسے مذاکرات کرنے ہی نہیں چاہیے تھے، اور اگر کرلیے تھے تو تفصیلات فوری طور پر عوام کے سامنے رکھ دیتے۔
دوسرا سوال یہاں یہ ہے کہ کیا شہبازشریف نے یہ مذاکرات کرنے کے لیے اپنے قائد میاں نوازشریف کو اعتماد میں لیا تھا؟ اور کیا مذاکرات سے قبل انہیںآگاہ اور بعد میں تفصیلات بتائی تھیں؟ یا یہ سب کچھ اپنے قائد بلکہ سگے بڑے بھائی سے بالا بالا ہی ہورہا تھا۔ اصولی بات تو یہ تھی کہ اتنے اہم مذاکرات کے لیے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے اجازت لی جانی چاہیے تھی۔ مگر شاید ماضی کی طرح اِس بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ البتہ اب نوازشریف کا فرض ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ کیا وہ اس ڈویلپمنٹ سے آگاہ تھے؟ اور اگر ان کی اجازت سے یہ کھیل کھیلا جارہا تھا تو خود نوازشریف کی سیاست کی اخلاقی حیثیت بھی ایک بار پھرکھل کر عوام کے سامنے آجائے گی کہ وہ باہر تو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کررہے تھے اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پر انتخابی مہم چلا رہے تھے، اور اندرونِ خانہ اس اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بھائی کے ذریعے معاملات طے کررہے تھے، اور کیا اس خفیہ کارروائی کے منظرعام پر آجانے کے بعد جو کسی اور نے نہیں اس پارٹی کے موجودہ سربراہ ہی نے بتائی ہے، پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام ارکان اور پارٹی کے تمام عہدیداران کو شہبازشریف سے استعفے کا مطالبہ نہیں کر نا چاہیے؟ یا پھر انہیں خود مستعفی نہیں ہوجانا چاہیے کہ اگر اتنے بڑے معاملات ان کو بتائے بغیر طے پا رہے ہیں تو پھر ان کا اس پارٹی میں مصرف کیا ہے؟ لیکن ایسا ہوگا نہیں، کیوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے تمام ارکان کو شریف برادران نے ہی یہ مقام دیا ہے۔ وہ کسی پراسس یا پارٹی انتخاب کے ذریعے یہاں تک نہیں پہنچے، اس لیے وہ اس موروثی جماعت میں شریف برادران کی منشا و مرضی کے مطابق اپنی خدمات جاری رکھیں گے۔
بعض سیاسی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات نوازشریف کی آشیرباد ہی سے ہوئے ہوں گے، کہ اس کے بغیر ان مذاکرات کی اہمیت ہی بہت کم ہوجاتی ہے۔ دوسرے، نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کو جتنی چاہے آنکھیں دکھائیں، وہ اسی کا لگایا ہوا پودا ہیں اور کسی وقت بھی اپنے اصل کی جانب لوٹ سکتے ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر وہ اس خیرسگالی کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔
اس انٹرویو میں موصوف نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ انہیں 2018ء کے بعد کے سیٹ اپ میں ملک کا وزیراعظم بنایا جارہا تھا، اور انہیں وزیراعظم بنانے کا پیغام دو نامور صحافی لے کر آئے تھے۔
لیجیے اس ملک کے صحافی خبریں دینے، تجزیہ کرنے اور سچ لکھنے کے ساتھ یہ نازک ذمہ داریاں بھی ادا کررہے ہیں۔ بے چارے کس قدر جان جوکھوں کا کام کرتے ہیں، مقتدر طبقات کے درمیان پیغام رسانی خاصا نازک کام ہے کہ
ان میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں
ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں حضرات بنیادی طور پر یہی کام کرتے ہوں اور اس کے صلے میں انہیں اپنے میڈیا ہائوسز سے بھاری تنخواہیں، اور یہ کام لینے والوں کی جانب سے بڑی خبریں اور اطلاعات کے علاوہ مستقبل کے امکانات و خدشات پر مبنی تجزیے فراہم کردیے جاتے ہوں، جس کے نتیجے میں ان کا صحافتی قد مزید بڑھ جاتا ہو۔ انٹرویو نگار کو ان دونوں صحافیوں کے نام بھی شہبازشریف نے بتائے تھے، تاہم انہوں نے یہ نام اخفا نہیں کیے، کیوں؟ اس کا کسی کو علم نہیں۔ شاید شہبازشریف نے ایسا کرنے سے آف دی ریکارڈ کہہ کر روک دیا ہو۔ کیا کوئی صحافتی تنظیم ان دونوں معتبر اخبار نویسوں سے پوچھ سکتی ہے کہ وہ یہ پیغام رسانی کیوں کرتے ہیں؟ جب کہ دنیا بھر کا آزاد میڈیا اس طرح کے لوگوںکو اپنی صفوں ہی سے باہر نکال دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ صحافی صرف اپنا کام کرے، تمام ڈویلپمنٹ کو رپورٹ کرے مگر خود اس کا کسی بھی مرحلے پر حصہ نہ بنے۔ تو قارئین کرام اندازہ لگایئے اس جمہوریت کا، جس میں انتخابات سے قبل ہی اسٹیبلشمنٹ بیٹھ کر حکومت اور وزیراعظم بنوا رہی ہو۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اس غیر جمہوری کھیل میں اپنے تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ شریک ہوں اور صحافی پیغام رسانی کا کام کررہے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ ملک میں جمہوریت کی اس بے توقیری پر ایک سیاست دان نے ایک بار لاہور پریس کلب میں کہا تھا کہ پاکستان میں تمام حکومتیں یا تو اسٹیبلشمنٹ کی براہِ راست ہوتی ہیں یا اُن کی مؤثر شرکت کے ساتھ بنتی ہیں۔ ایسے میں بے چارے عوام کہاں جائیں گے! ان کے قائدین اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فضا بناکر عوام کو سڑکوں پر لاتے ہیں، وہ اس جمہوریت کے نام پر مرتے ہیں اور سیاست دان اندرونِ خانہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سودے بازی کررہے ہوتے ہیں۔ اور خیال رہے کہ یہ سودے بازی عوام کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے لیے ہوتی ہے