جدید سائنس کی حدیں…

پروفیسرہسٹن اسمتھ/ترجمہ:ناصر فاروق

پروفیسرہسٹن اسمتھ مطالعاتِ مذاہب میں امریکہ کے چوٹی کے عالم ہیں۔ وہ دنیا بھرمیں مطالعاتِ مذاہب پر بہت بااثرشخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ عالمی مذاہب اور فلسفہ پر 13 کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ مضمون اُن کی کتاب Forgotten Truthکے پہلے باب کا اردو قالب ہے۔
……٭٭٭……

آج دنیا کہاں ہے، اور کیا کچھ یہاں ہورہا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے بہترین نکتۂ آغاز جدید سائنس ہوگا۔ نکتۂ انجام بھی اس سے بدتر کوئی نہ ہوگا! تاہم فی الحال ہم آغاز کا جائزہ لیتے ہیں، نکتۂ انجام کو بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ جدید سائنس ہمارے حال کی دنیا کو سمجھنے کا مناسب ترین موضوع ہے۔ اس کی وجہ وہ کامیابیاں ہیں، جنھیں جدید سائنس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ہربرٹ بٹر فیلڈ کے مطابق جدید سائنس نے عیسائیت سے اب تک کی تاریخ کی ہر شے کو ماند کردیا ہے۔ دیگر بہت سے لوگ یہی دعویٰ زبان کی ایجاد سے آج تک کے لیے کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ معقولیت سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید سائنس جدید انسانی ذہن پر حکمران ہے۔ ہر اعتبار سے، تمہید اور متعلقات سے نتائج تک، عصرِ حاضرکا دماغ سائنس زدہ ہے۔ کیونکہ ہم جدید سائنس کی وسعت اور حدود سے ناواقف ہیں، اس لیے یہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ سائنسی تصور اشیاء کا خلاصہ بیان کرنے کا اس سے بہتر شاید کوئی راستہ نہ ہو، کہ یہ حقیقت کا رفیع الشان مکانی نظام ہے، یہ حجم کے اعتبار سے اشیاء کا باقاعدہ ترتیبی نظام ہے۔ اس کی وسطی دنیا میں، جہاں ہماری روزمرہ کی زندگی بسر ہورہی ہے، ہمارا سامنا اشیاء کے ایسے اجسام سے ہوتا ہے، جو انچ، فیٹ اور میل کی سی جسامت اور وسعت ظاہر کرتے ہیں۔ چھوٹی دنیا میں ایک انچ پر ہزاروں خلیے ایک ترتیب سے آجاتے ہیں، لاکھوں ایٹم اسی ایک انچ میں یکجا ہوجاتے ہیں، اور اُن کے مرکزے اسی ایک انچ میں اربوں تک سمٹ آتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم باریکی اور گہرائی میں اترتے چلے جائیں، مرکزوں سے نیوٹران، پروٹان تک چلے جائیں، اور اُن کے بھی جزیاتی ذرات (particles)تک چلے جائیں، اشیاء کی جسامت معکوس توضیح کرتی چلی جائے گی۔
اب اسی ترتیب کو الٹ دیں۔ ہم کائنات میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہماری کہکشاں میں ہمارا سورج ایک سو ساٹھ میل فی سیکنڈ کی رفتار سے گردش کرتا ہے، یہ اُس راکٹ کی رفتار سے تیئس گنا زیادہ ہے، جسے زمین کی فضا سے باہر نکلنے کے لیے بھرپور قوت درکار ہوتی ہے۔ اس رفتار کے ساتھ سورج کو ایک گردش مکمل کرنے میں چوبیس کروڑ سال لگتے ہیں۔ یہ مدار بڑا محسوس ہورہا ہے، جبکہ درحقیقت یہ کہکشاں بہت تنگ ہے، کیونکہ یہ ہماری کہکشاں تک محدود ہے، یہ اربوں کہکشاؤں میں سے محض ایک ہے۔ اینڈرومیڈا، جوہماری قریب ترین پڑوسی کہکشاں ہے، بائیس لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہے، اور اس سے بھی آگے خلا لامتناہی ہے، نیبولا کے بعد نیبولا کا سلسلہ ہے، ایک جزیرہ نما کائنات کے بعد ایک اور جزیرہ نما کائنات ہے، یہاں تک کہ محدود ہوتے ہوتے بات ہماری کائنات پر پہنچتی ہے، جو چھبیس ارب نوری سال پر پھیلی ہوئی لگتی ہے۔
اب اُس حقیقت کا نکتہ نظر سامنے آتا ہے، جو قدیم اور روایتی (مذہبی) کہلاتی ہے، اور جو جدید سائنس ہی کی مانند مدارج پر مبنی ہے۔ یہ انسان دوست، انسان شناس، اور انسان مرکز ہے۔ یہ روایتی نظریۂ علم کائنات یا علم العالم ہے۔ یہاں آسمانی جنت، دنیا، اور دوزخ کی درجہ بندی ہے۔
یہ دونوں نظریات، نکتہ نظر یا تصور کائنات درجہ بندی میں ایک سا خاکہ پیش کرتے ہیں، لیکن دونوں کے مدارج مختلف نوعیت کے ہیں۔ اشیاء کی پیمائش کا سائنسی پیمانہ ’’مقدار‘‘ہے، جیسے خلاء، حجم، اور قوت کے وہ مظاہر جنھیں شمار کیا جاسکے۔ جبکہ روایتی (مذہبی) درجہ بندی میں مقدار کے بجائے اشیاء اور تمام مظاہر کی پیمائش کا پیمانہ ’’معیار‘‘ہے۔
ایک ہزاریے سے مذہبی طبقات کے دو مختلف طریقہ ہائے تفہیم قائم ہیں۔ رائج خام خیالی زیادہ خوشی کو پسندیدہ اور کم خوشی کو ناپسندیدہ سمجھتی رہی ہے۔ جبکہ فکرمند ذہن کے خیال میں خوشی معیارِ زندگی کا محض ایک پہلو ہے، یہ اس کا مکمل فہم فراہم نہیں کرتی۔ ’’معنویت‘‘ کی اصطلاح تفہیم میں مددگار ہوسکتی ہے، جسے یہ فکرمند ذہن بنیادی سمجھتا ہے۔ تاہم یہ ’’معنویت‘‘ بھی ماخوذ شدہ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ معنویت اور اہمیت وغیرہ عالم بالا کی باتیں ہیں، جبکہ درحقیقت یہ ’’وجود‘‘ سے وابستہ ہیں، اور اس طرح زیادہ بڑی حقیقت بن کر سامنے آتی ہیں۔ وجود، آگاہی، اور مسرت… یہ ناقابلِ انکار حقیقتیں ہیں۔ مگر وجود، بنیادی ’’وجود‘‘ کی حقیقت سب سے بڑی ہے۔ پیچھے، مذہبی دنیاؤں کی وجودیاتی (ontological)درجہ بندی کی گئی ہے، جو اس بنیادی ’’وجود‘‘ یا ہستی کی تفہیم میں معاون ہے۔
کسی ایک چیز کا کسی دوسری چیزکی نسبت زیادہ بڑی حقیقت ہونا کیا معنی رکھتا ہے، یہی اس مضمون کا مدعا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جدیدسائنس کی آمد تک انسان کا تصور ’’حقیقت‘ ‘ روایتی (مذہبی) رہا ہے۔ اب اس تصورِ حقیقت کی دستاویزاتی وضاحت کرتے ہیں۔ قدیم انسان کی ذہنی حالت اور کیفیت پر آج Mircea Eliadeسے بڑا ماہر کوئی نہیں۔ مابعدالبطبیعاتی درجوں کو کم سے کم سطح پرگھٹانے کے بعد، وہ قدیم مذہبی انسانوں کی بابت لکھتا ہے:’’قدیم معاشروں کا آدمی ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ مذہبی زندگی گزارتا تھا…کیونکہ ان قدیم لوگوں کے لیے مذہب کا مطلب ’’اصل طاقت‘‘ اور ’’حقیقت تک رسائی‘‘ تھا۔ ’’وجود‘‘ یا ’’ہستی‘‘ کا تصور انتہائی مذہبی نوعیت کا ہے۔‘‘
یہ ’’تصورِ مذہب‘‘ قبائل کی دنیا سے تہذیبوں کی دنیا تک رائج رہا ہے: انھوں نے یہ تصور زیادہ سے زیادہ واضح اور قابلِ فہم بنایا ہے، تاہم درجہ بندی کا بنیادی ڈھانچہ قائم رکھا ہے۔ دانشورArthur Lovejoyکتاب The Great Chain of Being میں لکھتا ہے: ’’اس ’مذہب‘ نے بہرصورت مہذب انسانی تاریخ کے غالب حصے پر رائج فلسفے کی حیثیت میں حکمرانی کی ہے، اس کے لیے مختلف انداز، مختلف مراتب، پُرزور اور جامع طور پر قیاس آراء اذہان، اور عظیم مذہبی علماء کے ذریعے یہ سلسلہ قائم رکھا گیا ہے۔‘‘
قبائلی اور تہذیبی سطح پر درجہ بند کائناتی تصورِ حقیقت کا جائزہ لینے پر ہم خود کو اُس تہذیب سے قریب تر محسوس کرتے ہیں جو ہماری اپنی ہے۔ اس کا نقشہ افلاطون کے فلسفے نے کھینچا ہے۔ یہاں وجود کی درجہ بندی میں سب سے بالاتر ’’اچھائی‘‘ ہے۔ ساری حقیقتوں سے بڑی حقیقت خود ’’اچھائی‘‘ ہے۔ یہ اچھائی ہماری روزمرہ کی زندگی کے افعال سے یکسر مختلف نوعیت کی ہے۔ اسے ہم شاعرانہ تشبیہات اور تصورات میں بیان کرسکتے ہیں، باوجود اس کے کہ یہ ’’خالص کاملیت‘‘ ہے، یہی کائناتی طور پر مطلوب ہے۔ یہی ساری ذیلی اشیاء کا بنیادی سبب بھی ہے۔ ایسی معاون اور جزوی اکائیاں منطقی طور پر ناگزیر ہیں۔ یہیLovejoy کے مطابق ’’کثرت کا اصول‘‘ ہے، یہ ممکن ہیں، اور اگر یہ امکان حقیقت نہیں بنتا، تو وجود کی کاملیت پر سوال بنتا ہے، اور اس کی لامتناہی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔ ارسطو اس فلسفے میں متناہی حصے کی خصوصیات کی تفصیلی درجہ بندی کرتا ہے، وہ فطرت میں حیاتیات کے تسلسل کی تعریف بیان کرتا ہے۔ Lovejoy کے الفاظ میں اس کا خلاصہ یہ ہے: ’’ایک ایسے عالم کا سانچہ اور تصور نتیجے کے طور پر سامنے آیا قرون وسطیٰ سے اٹھارہویں صدی کے اواخر تک، جسے انتہائی پڑھے لکھے لوگوں نے بلا چوں چرا تسلیم کیا، یہ تصور ’’ہستی کے عظیم تسلسل‘‘ پر مبنی تھا، جوایک مہیب ، لامتناہی، اور بے شمار باہم رابطوں کا لامحدود سلسلہ، جو معمولی سے معمولی شے سے عظیم سے عظیم تر شے کے نظام میں درجہ بند مربوط ہو۔ یہاں تک کہ خالص کاملیت کا نمونہ نظرآئے۔‘‘
اٹھارہویں صدی تک قائم یہ درجہ بند نظام کیوں ڈھے گیا؟ Lovejoy ہمیں بتاتا ہے کہ جس تصورِ کائنات کا غلبہ اٹھارہویں صدی تک قائم تھا، اور اب تک انسانوں کا جس پر اتفاقِ رائے تھا، اسے جس قوت نے زمین بوس کیا وہ یقیناً بہت زیادہ زورآورتھی۔ یہ کام جدید سائنس کا تھا، وہ اس کی مضبوط ترین امیدوار تھی۔ مناسب ترین وقت تھا۔ بیکن، ہابس، اور نیوٹن سترہویں صدی میں ہی نوشتۂ دیوار پڑھ رہے تھے، تاہم اسے جڑیں پکڑنے میں ایک صدی اور لگ گئی۔ سائنسی امکانات نے میدان مارلیا۔ اور منطق بہت بے رحم ہوتی ہے۔ دونوں تصورات کا سانچہ ہی ایسا تھا کہ تصادم ناگزیر تھا۔ جدید سائنس کو بس ایک ہی وجودیاتی درجہ درکار تھا: طبیعات۔
اس درجے میں اس کا آغاز مادّے سے ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ کیا جاسکے، جسے محسوس کیا جاسکے۔ اور یہ قابلِ مشاہدہ مادہ ہی اس کا نکتہ اختتام بھی ہے۔ اس کا مفروضہ اور تحقیق بھی مشاہدے کی حد تک ہے۔ اس کی ابتدا اور انتہا کے مابین مفروضات سمندر پار کرجاتے ہیں، اور یہی ان کی رسائی ہے۔ مادہ اور توانائی مفروضات کے سارے سفر میں اپنی حالت نہیں بدلتے، تاہم موضوعی طور پر زمان ومکاں کے قالب کی مادّے کے تناظر میں دوسری تعریف سامنے آتی ہے: خم کھاتا ہوا خلاء عجیب ہے، مگر وہ پھر بھی خلاء ہے۔ عدد عدد ہے، اورعدد سائنس کی زبان ہے، اور جو شے بھی شمار کی جاسکے، سائنس کی زبان میں واضح ہوجاتی ہے، خواہ وہ زمان ومکاں کے پیچیدہ تر سانچے ہی کیوں نہ ہوں۔ اجرام فلکی بڑے بھی ہوسکتے ہیں اور چھوٹے بھی، خلائی طاقتیں زورآور بھی ہوسکتی ہیں اور کمزور بھی۔ دورانیے طویل اور مختصر ہوسکتے ہیں۔ یہ سب حسی طور پر قابلِ شمار ہیں۔ تاہم سائنس میں کسی بھی مختلف اور بہتر وجودیاتی مرتبے کا ذکر، یا زیادہ بڑی حقیقت پر بات سراسر حماقت کہلاتی ہے۔
جدید سائنس کا فلسفہQuine کے تصور جہاں کی زبان میں کہتا ہے کہ دنیا میں بنیادی طور پر ایک ہی قسم کا ’’وجود‘‘ پایا جاتا ہے، یہ طبیعاتی اجزاء ہیں، اور دنیا میں ایک ہی قسم کا علم ہے، اور وہ صرف جدید سائنس دانوں کا ہے۔ ولارڈ کوائن بہت بااثر امریکی فلسفی ہے۔ کارل بیکر کی زبان میں سائنسی نظریے نے جدید ذہن کو مکمل طور پر قابو میں کرلیا ہے، اور یہ بات قابلِ فہم ہے۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے سائنس نے معجزے برپا کیے ہیں: فلک بوس عمارتیں، چاند پر انسان کی چہل قدمی اور بہت کچھ۔ مزید یہ کہ اس کے ابتدائی مرحلوں میں ان معجزات کا رخ انسانی خواہشات کی طرف تھا: تعیشات اور آسائشات کی بھرمار تھی، بیماریوں اور مشقت میں قدرے کمی واقع ہوچکی تھی۔
جدید سائنس کی اٹھائی ہوئی عمارت بڑی پُرشکوہ تھی، اور اس سے بھی بڑھ کر وہ طریقہ کار تھا جس پر وہ اٹھائی گئی تھی۔ لوگوں کو اس طریقے پر قائل کرلیا گیا، کیونکہ یہ عملاً واضح کیا جاسکتا تھا۔ اس طریقے نے ایک ایسے علم کی بنا ڈالی، جو بتدریج بڑھنے والا، ترقی کرنے والا تھا۔ کوئی تعجب نہیں کہ آدمی اس کا اسیر ہوگیا۔ یہ جبری اسیری نہ تھی۔ یہ اس لیے نہیں ہوا کہ سائنس دان استعمار تھے، بلکہ اُن کی کامیابیاں واقعتاً متاثر کن تھیں، اُن کی پیش رفت اس قدر خوش کن تھی کہ مفکرین اور دانشور بے اختیار ہوکر پیچھے چل پڑے تھے۔
ہم بھی کبھی ان بے اختیار لوگوں میں شامل تھے، اور آج بھی شامل ہوتے اگر وہ حقیقت نہ جان لیتے کہ جس سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ قدرے پُرزور انداز میں کہا جائے تو سائنسی تصور جہاں ناممکن ہے، یہ متضاد اصولوں پر مبنی ہے۔سادہ سی وجہ یہ ہے کہ سائنس کے دائرۂ علم میں سارا جہاں نہیں سماتا، بلکہ اس کا موضوع محض اس کا ایک حصہ ہے۔ یہ ظاہر ہے پورے علم کا احاطہ نہیں کرتا۔
اس مقام پرمعاملات بے ڈھب نظر آتے ہیں، ہم یہاں پوری ہوش مندی سے قدیم نفسِ مضمون کی جانب بڑھتے ہیں، اور قاری کی بھرپور توجہ چاہتے ہیں: اگرچہ انسان کی جدید سائنس کے ہاتھوں اسیری نفسیاتی طور پر قابلِ فہم ہے، مگر منطقی طور پر یہاں واضح غلطی سرزد ہوئی ہے۔ جب ہمارے ذہن سائنسی ’’عقل پرستی‘‘کے پیچھے بلا چوں چرا چل پڑتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسی تصور ’’حقیقت‘‘ کے تحت زندگی گزارنا اس طرح ہے جیسے پھانسی گھر میں حیات بسر کرنا ہو، اور اس سے محبت کرنا اس طرح ہے کہ جیسے شریکِ حیات کے ڈھانچے کو بانہوں میں لینا ہو۔
سائنسی طریقے کی تفہیم میں ہم جوں جوں آگے بڑھتے ہیں، یہی مایوس کن نتیجہ ناگزیر طور پر سامنے آتا ہے۔ درحقیقت اس راہ میں ہر نئی دلیل محض سائنس دانوں اور سائنسی فلسفیوں میں اتفاقِ رائے ہوتی ہے، جسے شہادت کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔ جب اشیاء کے رجحانات پر، کہ جیسے وہ درحقیقت ہیں، تحقیق کی جائے توسائنس طاقتور مگر بہت محدود ذریعۂ علم ثابت ہوتی ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ اندھیری رات میں سرچ لائٹ آسمان پرڈالی جائے تاکہ گزرتے ہوئے طیاروں کو دیکھا جاسکے۔ کسی طیارے کو دیکھنے کے لیے دو چیزیں لازم ہیں: وہ موجود ہو، اور وہیں موجود ہو جہاں شعاع پڑرہی ہو۔ یعنی طیارہ لازماً موجود ہو، اور لازماً وہیں موجود ہو جہاں روشنی پڑرہی ہو۔
اس منظرکشی سے مراد اطلاقی سائنسی تحقیق کی فطری حدود واضح کرنا ہے۔ یہ پورے آسمان پرروشنی ڈالنے سے قاصر ہے۔ یہ صرف ایک حصے پر روشنی ڈالتی ہے۔ Norbert Wiener اس نکتے کو یوں بیان کرتا ہے: ’’کائنات سے ملنے والے پیغامات کے مخاطب صرف وہ لوگ ہوسکتے ہیں، جنھیں ان پیغامات سے دلچسپی ہو۔ یعنی سائنس دان صرف وہ کائناتی پیغامات سمجھنا چاہتے ہیں جن سے انھیں مطلب ہے۔‘‘ یوں کائناتی اسرار کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی۔ منتخب کائناتی مظاہر عمومی نکتہ سامنے لاتے ہیں مگر تفصیلات اور جزئیات اوجھل ہی رہ جاتی ہیں۔
درحقیقت اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ جدید اطلاقی سائنس کتنی محدود ہے؟ وہ کون سے رستے ہیں، جو خالص سائنسی مفادات کو محدود کردیتے ہیں؟ سائنس کسی ایک چیز کا نام نہیں ہے۔ یہ کسی فرد کی انفرادی زندگی نہیں ہے۔ اس کی ایک گاؤں سے مثال دی جاسکتی ہے جہاں بہت سے لوگ آباد ہوتے ہیں، یہ دیہات ہرے بھرے ہوتے ہیں، اور عموماً شہری مراکز سے قریب ہوتے ہیں۔ اس تمثیل کے سہارے ہم آگے بڑھتے ہیں، اور دائروں کی صورت معاملے کی تہ تک پہنچتے ہیں۔
سب سے بیرونی دائرے کا عنوان ’’معروضیت‘‘ ہے۔ کوئی بھی علم جو سائنسی ہونے کا دعوے دارہو، معروضیت کے بغیر بے وزن ہے۔ جب تک یہ بین موضوعی طور پر مطابقتِ استنباط نہیں کرتا، مدلل نہیں ہوسکتا۔ ہم اگلے دائرے میں داخل ہوتے ہیں جوسائنس کا قلب ہے، یہ پیش گوئی کا مرحلہ ہے۔ اصولِ صنف بندی (Taxonomy)ایک لحاظ سے سائنس ہے، مگر ہم اسے وہ اہمیت نہیں دیتے جو پیش گویانہ (predictive) سائنسز کو دیتے ہیں۔ جب کوئی ماہرِ فلکیات ہمیں بتاتا ہے کہ اتنے سال میں، اس رات اور اُس گھنٹے میں چاند گرہن ہوگا، اور ہم یہ جان کر خاصے متاثر ہوتے ہیں۔ اس وضاحت کے بغیر کہ فطرت میں یہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے، ماہرِ فلکیات صرف آپریٹرز سامنے لے آتا ہے۔ فطرت میں یہ کارگزاری کس سبب سے پیش آتی ہے؟ اسے وہ چھوڑ دیتا ہے۔ جوں جوں ہم جدید سائنس کے قلب کی جانب بڑھتے ہیں، دائرۂ اختیار سامنے آتا ہے۔ پیش گوئی اور اختیارکے درمیان بظاہر معمولی سا فرق دکھائی دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ بہت اہم ہے۔ اسے ’’خالص سائنس‘‘ اور ’’اطلاقی سائنس‘‘ کے فرق میں سمجھا جاسکتا ہے۔ خالص سائنس کے تجربات اصل کی طرف مراجعت کی خاطر ہوتے ہیں، جبکہ اطلاقی سائنس کے تجربات وہاں ہوتے ہیں جہاں پیسہ ہو۔
دائروں کے اس سلسلے میں چوتھا رہنما اصول وہ تیر ہے جو دائروں کے عین قلب میں جاتا ہے۔ یہ آخری رہنما اصول ہندسہ ہے۔ ہندسہ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا کہ سائنس کی زبان ہے۔ زیادہ علم کا اظہار عددی طور پر کیا جاسکتا ہے، ممکنہ مساوات میں مزید سائنسی بناکر پیش بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سوشل سائنسزکو بھی ’’سچی سائنس‘‘ کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟
آج سائنس کے طریقۂ تحقیق میں وسعت پر بہت زیادہ بات ہورہی ہے، کہ آیا اسے زیادہ سے زیادہ ’’انسان مرکز‘‘بنایا جائے۔ نئے انسانی مسائل حل کرنے کے لیے سائنسی طریقۂ کار کام میں لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سائنسی طریقۂ تحقیق محدود ہے، یہ اپنی حدود سے آگے جاکر مسائل حل نہیں کرسکتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کسی دندان ساز کو دل کی سرجری پر لگادیا جائے۔ یقیناً ہمیں الفاظ کے استعمال میں پوری آزادی ہے، اور اس معاملے میں سائنس کو کوئی استثنا حاصل نہیں۔ یہاں تک کہ ہم اس کی عالمانہ تعریف ازسرِنو یوں کرسکتے ہیں کہ ’’علم الٰہیات‘‘ ہی سائنس کی ’’ملکہ‘‘ ہے۔ کیا جدیدسائنسی طریقۂ کار کی انسانی زندگی میں وسعت پر مائل حضرات سائنس کی اس تعریف پر قائل ہوسکتے ہیں؟ امید صرف وہی ہے جس کا اظہار کنفیوشس نے کیا تھا کہ اگراُسے اختیار ملے تو ’’اصطلاحوں اور ناموں کی تصحیح‘‘ کردے۔ اُس کا مقدمہ یہ تھا کہ جب ہم الفاظ استعمال کرتے ہیں، ہم خوب سمجھتے ہیں کہ ہم اُن کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ درحقیقت سائنسی طریقۂ کار میں وسعت کی خواہش اور آواز گھٹی ہوئی ہے: ’’برائے مہربانی، سائنس کے اس دور میں مجھ پربھی یقین کیجیے، کہ جس طرح سائنس دانوں پر یقین کیا جاتا ہے‘‘، یا ’’برائے مہربانی، میرے ریسرچ پروپوزل کے لیے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی فنڈنگ منظور کرلیجیے،جس کا بجٹ نیشنل آرٹس اینڈ یومینٹیز سے کئی گنا زیادہ ہے‘‘۔ ہم سب ہی جانتے ہیں، سائنسی طریقۂ کار کی انسانی معاملات تک وسعت کی تحریک خود کی خدمت نہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس کا مثالی عنصر یہ خواہش ہے کہ ’’انسان‘‘کا فہم اُسی طرح حاصل کیا جائے کہ جس طرح ’’مادّے‘‘ کی معلومات حاصل کی گئی ہے۔ اس محرک کی غلطی یہ ہے کہ جن سائنسی آلات سے مادی اشیاء کی تحقیق کی جاتی ہے، اُن ہی سے انسان کی تفہیم حاصل کی جائے۔ مگر سائنسی آلات انسانی تفہیم کے لیے انتہائی ناکافی ہیں۔ اس قسم کی کوئی بھی کوشش ہولناک نتائج سامنے لاسکتی ہے، بلکہ لارہی ہے۔ انسان کو بطور’’شے‘‘ دیکھنا، اور اُس کی ’’خصوصیات‘‘ کو نہ دیکھنا ہی سائنسی آلات کی اہلیت ہے، یعنی اس معاملے میں سراسر نااہل ہیں۔ لیکن اگر یہ پوچھا جائے ’’غیر سائنسی طریقۂ علم نے ہمیں انسان اور دنیا کے بارے میں کیا علم مہیا کیا ہے؟‘‘، جواب یہ ہے: ’’معنی، مقصد، اور دوررس نگاہ جس میں ہر شے ہم آہنگ ہوجاتی ہے‘‘۔
ہم آگے بڑھتے ہیں، بات ہورہی تھی ہندسوںکی، جیسا کہ پیچھے کہہ چکے ہیں کہ عدد سائنس کی زبان ہے۔ اعداد، جیسے کہ وہ ہیں، کس طرح فطرت میں اس طرح کام کرتے ہیں؟ یا یوں کہہ لیجیے کہ فطرت کیوں اس قدر ریاضیاتی نوعیت کی ہے؟ کوئی بھی یہ بات پوری طرح نہیں سمجھتا! Eugene Wigner کہتا ہے ’’ریاضی کی اثر پذیری خلافِ عقل ہے‘‘۔ یہ ایک اسرار ہے، اور اتنا زبردست اسرار ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد میں فیثا غورث کو بیدار کردے۔ تاہم ریاضی کی اثرپذیری کی ایک عقلی وجہ ہمارے سامنے ہے، ہم خوب جانتے ہیں۔ ہندسے اور اُن کے منطقی آپریٹرز واحد علامتیں ہیں، جو مکمل طور پر واضح ہیں: 4 ۔۔4 ہے۔ اور یہیں معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔
یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے، جس کی بو کوئی بھی پاسکتا ہے کہ اگر عدد ’’کامل سچائی‘‘ تک جانے کا رستہ ہے جبکہ روایتی (مذہبی) طور پر یہ پیمائش کی اکائی نہیں، جس کی بنیادی پیمائش مقدار پر نہیں معیار پر کی جاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشگی کا اصول لیے ہوئے ہے، اور اس طرح کیا یہ مبہم نہیں ہوجاتی؟ یقیناً جواب ہاں میں ہوگا۔ یہ درست استدلال ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ مذہبی تناظر کی تفہیم ممکن نہیں رہتی، ہمیں فوری طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’کامل سچائی‘‘ تک رسائی کے لیے روایت (مذہب) کی حدود بامعنی ہیں، یعنی بے سبب نہیں۔ الفاظ اعداد کا متبادل ہیں۔ ہندسے اشارے ہیں جبکہ الفاظ علامات ہیں، اور یوں اپنی فطرت ہی میں مبہم ہیں۔ ان الفاظ کے ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا۔ انھیں مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکتا، لیکن الفاظ کی ممکنہ تفہیم بھی وہ آگاہی فراہم کردیتی ہے جو اعداد کے بس میں نہیں۔ استعاروں اور معنوں کے جہان متواتر کھلتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ منطق داں الل ٹپ قیاس آرائیوں میں پیچ وخم کھاتے رہ جاتے ہیں، اور پھر اپنی اشاراتی تصویروں میں گم ہوجاتے ہیں۔ منظق دانوں کی مایوسی ’’انسان شناس‘‘ فکر کی مسرت ہے۔ الفاظ کے ابہام میں جوآزمائش ہے، وہ جامع فہم کا موقع فراہم کرتی ہے۔ زبان میں کثرتِ معانی انسانی نفس کی کثیرالجہتی سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے، انسان کی ارفع صفات کے بیان میں معاون ہوتی ہے، یہ کام ہندسے کبھی نہیں کرسکتے۔ عددی مساوات خوش وضع ہوسکتی ہیں، مگر کوئی نظم ہندسوں میں نہ کہی جاسکتی ہے، نہ لکھی جاسکتی ہے۔
اب ہم اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں سے سائنس کی محدودیت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ علم جس حقیقت کا نام ہے وہ معروضیت (واقعیت) سے عبارت ہے۔ اسے لازماً بین موضوعی طور پر قابلِ تصدیق ہونا چاہیے۔ علم چاہتا ہے کہ سائنس اسے کسی درجے میں انسانی احساسات کی سوجھ بوجھ کا اہل بنائے۔ مادہ اور توانائی سائنس کا معروض ہے، اور ان ہی کے دائرے میں جدید سائنس کامل حقیقت سے آگاہی کی دعوے دارہے۔ اس کا مطلب ایسا علم جو خود کو ریاضیاتی طور پر ہی واضح کرسکے۔ یعنی وہ علم جو کسی حد تک پیشگوئی کرسکے اور اشیاء پر قابو پاسکے۔ لیکن اس انتہائی محدود دائرے سے باہرکیا ہے؟ کون بتائے گا؟

1۔ اقدار

حتمی اور مناسب معنوں میں کیا ہیں؟ برٹرینڈ رسل نے تسلیم کیا ہے کہ ’’اقدار کا دائرہ سائنس کی حدوں سے باہر ہے‘‘ ۔ یہ سچ ہے کہ جدیداطلاقی سائنس کسی حد تک آلاتی اقدار سے معاملات کرسکتی ہے مگرانسانی، داخلی، باطنی، اورفطری اقداراُس کے دائرۂ کار میں نہیں آتیں۔ اطلاقی سائنس ’’بیانیہ کے طور پر‘‘ اقدار کا استعمال کرسکتی ہے لیکن وہ انھیں ’’اخلاقی طورپر‘‘ لاگو نہیں کرسکتی۔ وہ بتاسکتی ہے کہ آدمی کیا کرے کہ اسے انعام یا صلہ ملے، مگر وہ یہ نہیں بتاسکتی کہ انسان کو بہتر صلہ یا انعام کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ معیاری اقدار ہمیشہ اطلاقی سائنس کی پہنچ سے باہرلگتی ہیں۔

2۔ مقاصد

سائنس نے اپنی کارگزاری کی خاطر، ارسطو کے بنیادی اسباب (علت نمائی) کودیس نکالا دیا، اورعلت فاعلی میں وضاحتوں کے لیے میدان صاف کردیا۔خواہ معاملہ گیلیلیوکا ہو، گرتے ہوئے پتھروں کا، یا کیپلر اور روشنی کا ہو، ’’قدیم میکانیات کی جدید میکانیات میں منتقلی ابتدائی اور ثانوی معیارات میں تفاوت… فطرت کے عددی اور جذباتی پہلوؤں… قوتِ ارادی اور مقصودِ اعلیٰ (علت غائی) کے بیانیہ کی معزولی، اورغیرشخصی خیال کی ترویج ہے۔‘‘ غرض اطلاقی سائنسی طریقہ کار کا لب لباب یہ ہے کہ… منظم انداز میں اس بات سے ہی انکار کردیا جائے کہ ’’سچا‘‘ علم، معروضیت، یا مقصد حاصل کیا بھی جاسکتا ہے۔ جدید سائنس اس بات کی ہی منکر ہے کہ علت العلل کی کوئی صورت درپیش بھی ہے، گویا سب الل ٹپ چل رہا ہے۔

3۔ زندگی کے معانی

جدید سائنس شروع سے آخر تک بامعانی ہے، لیکن یہ معانی مادی اور عددی ہیں۔ ہمارے شب وروز کے کیا معانی ہیں؟ زندگی کے کیا مفاہیم ہیں؟ یہ کائناتی نظام کس سبب قائم ہے، کیا مقصد ہے اس کا؟ بطور انسان ایک سائنس دان ان سوالوں پر غوروفکر کرسکتا ہے، لیکن اس معاملے میں اُس کی سائنس اُسے کوئی جواب فراہم نہیں کرتی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ سائنس دان ایک غبارے کے اندر ہے کہ جہاں روشنی مارنے پر چمک دمک نظرآئے، مگراس سے باہر وہ نہیں دیکھ سکتاکہ کیسا کائناتی پس منظر ہے۔

4۔ معیار

یہ بڑا اہم بنیادی نکتہ ہے، کیونکہ یہ اقدار کی قدر کا معیار پر تعین کرتا ہے، یہ معانی اور مقاصد کی اصل طاقت واضح کرتا ہے۔ یہ ناقابلِ پیمائش ہے۔ اگر کوئی اس کا درک براہِ راست حاصل نہیں کرتا، توکوئی دوسرا اُس تک اسے منتقل نہیں کرسکتا، یہی معیار فہمی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی یہ کرسکتا ہے کہ معیاری چیزوں کے موازنے اور مثالوں سے سمجھا سکتا ہے، وہ بھی اُن لوگوں کو جو تجربے سے معیار کے سوال تک خود پہنچے ہوں۔ کائنات کی معیاری پیمائش سے معذوری نے جدید اطلاقی سائنس کو وہاں پہنچا دیا ہے جہاں لوئس ممفورڈ کوکہنا پڑا کہ یہ سائنسی کائنات ’’ناموزوں‘‘ ہے۔
اقدار، زندگی کے معانی، مقاصد، اور معیارات سائنس کے ہاتھوں سے یوں نکلتے ہیں جیسے مچھیرے کے جال سے پانی۔ آدمی اسی کائناتی سمندر میں تیرتا ہے، چنانچہ اسے پوری طرح اپنی دلچسپی یا توجہ سے خارج نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ جدید سائنسی تصورِ جہاں اصولی طور پر ناممکن ہے۔ عالم کو پوری طرح سمجھنا ہے تو یہ محض اطلاقی سائنس نہیں ہے، بلکہ یہ فلسفہ بھی ہے، یہ مذہب بھی ہے، یہ فنونِ لطیفہ بھی ہے، اور روزمرہ کی زندگی بھی ہے۔ محض اطلاقی سائنس نہیں، بلکہ آدمی کے سارے علامتی نظام نظر و فکر میں رکھنے ہوں گے، تب تصویر کا مکمل فہم حاصل ہوسکے گا۔ سائنس اس سارے نظام کا فقط ایک حصہ ہے جو مادی اشیاء کی پیمائش کرتی ہے۔
ظاہر ہے جدید سائنس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ تاہم سائنٹزم کا معاملہ الگ ہے۔ سائنس مثبت ہے جب تک وہ ہر نئی دریافت پر مطمئن ومحقق ہو، مگر سائنٹزم کا رویہ منفی ہے۔ سائنٹزم اصل حاصلات سے بڑھ کر مبالغہ آرائی میں وہاں پہنچتی ہے جہاں دیگر علوم کا جوازمعدوم نظرآتا ہے۔ اس طرح یہ سائنس کو مابعدالطبیعاتی علوم کے فیض سے محروم کردیتی ہے، اور باور کرواتی ہے کہ جدید سائنس کے سوا کہیں کوئی سچائی نہیں ہے، اور یوں ایک سائنسی سچائی سے ہی نظرچراتی ہے، اور اس طرح تضاد کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ خود ایک مذہب بن جاتی ہے… سیکولر مذہب، جو نتیجہ ہے جدید سائنس کی اہلیت میں مبالغہ آرائی کا، اور جوعظیم سائنس دانوں میں سے چند ایک کو ہی مائل کرپایا ہے۔ سائنس کو اُن چیزوں سے معاملہ کرنے میں بڑی دشواری ہے جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ عظیم سائنس دان ڈیوڈ بوم کہتا ہے ’’ساری حقیقت بنیادی طور پرناقابلِ پیمائش ہی ہے… پیمائش اس حقیقت کے ایک پہلو کوجاننے کا ثانوی ذریعہ ہے‘‘۔
اب ہم کہاں ہیں؟
اس تحقیق میں کہ چیزیں جیسی کہ وہ ہیں اور کیوں ہیں، ہمیں یہ معلوم ہوا کہ جدیداطلاقی سائنس ’’حقیقت‘‘کو ایک ہی وجودیاتی درجہ ’’طبیعات‘‘ تک محصور کرنے کا سب ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ہمیں مزید یہ درک حاصل ہوا کہ یہ جدید سائنس کا نفسیاتی (منطقی نہیں) نتیجہ ہے۔ سائنسی طریقۂ کار کی تفہیم میں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ کئی ایسی چیزیں ہیں جدید سائنس جن سے متبادل رستے پر نکل گئی، کیونکہ یہ دستیاب سائنسی ڈیٹا سے اختلاف رکھتی تھیں۔ جدید دنیا جس نکتہ نظرکی اسیر ہے، وہ سائنسی نہیں بلکہ ’’سائنٹسٹک ‘‘(سائنس دانوں کا) ہے۔
تاہم ہم اس غلط تصورِ حقیقت سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اب جب کہ ہم یہ جان چکے ہیں کہ اصل حقیقت بہت بڑی ہے، تو ہمیں یہ لازماً دیکھنا ہوگا کہ دیگر ذرائع علم کیا ہیں جو اطلاقی سائنس کی گرفت میں نہیں آسکے ہیں۔ یہ دیگر ذرائع علوم کہاں ہیں؟ آرتھرلو جوائے اس بابت کہتا ہے ’’عظیم مفکرین اورعظیم مذہبی معلمین‘‘ جنھوں نے تہذیبیں تشکیل دیں، اورجنھوں نے ابتدائی معاشرے مستحکم کیے۔ یہی انسانوں کی دنیا کا فطری نظریۂ زندگی ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جو انسان کی تمام معقولیات سے مطابقت ممکن بناتا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کاخواب فلسفیوں نے دیکھا، صوفیوں نے مشاہدہ کیا، اور انبیاء نے ابلاغ کیا۔