انسانی حقوق کا بین الاقوامی منشور اور اسلامی تعلیمات

تحریر: مولانا سید جلال الدین عمری
ہر سال دنیا بھر میں 10 دسمبر کو یوم حقوقِ انسانی منایا جاتا ہے۔ 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کے رکن ملکوں نے مشہورِ عالم دستاویز ’’منشور حقوقِ انسانی‘‘ کی منظوری دی تھی، جس میں دفعات کی شکل میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی صراحت کی گئی ہے اور رکن ملکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کوشش کریں کہ یہ حقوق یقینی طور پر حاصل ہوں، اور ایسے قوانین بنائیں جو ان کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہوں، اور ان کی پامالی کی صورت میں ان سے رجوع کیا جاسکتا ہو۔

عوام میں انسانی حقوق کے شعور کی بیداری

منشور حقوقِ انسانی، اس کشمکش اور جدوجہد کا نقطۂ عروج ہے جو گزشتہ تین صدیوں میں مغربی ممالک میں حکمرانوں اور عوام کے درمیان برپا رہی ہے۔ پہلے حکمرانوں کو آمرانہ اختیارات حاصل تھے اور عوام اُن کے رحم و کرم پر زندگی گزارتے تھے۔ آہستہ آہستہ عوام میں سیاسی شعور پیدا ہوا، بنیادی انسانی حقوق کے سلسلے میں بیداری آئی۔ عوام نے ان کے حصول کے لیے تحریکیں برپا کیں، اس کے نتیجے میں عوام طاقتور ہوتے گئے اور بالآخر انہیں اقتدار میں شریک کرلیا گیا، اور جمہوری ممالک نے اپنے اپنے دستور میں ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی۔ بعد میں مشرقی ممالک نے بھی انہیں تسلیم کرلیا، لیکن یہ بنیادی حقوق اہلِ مغرب کے نزدیک اُن کے قومی مفادات کے تابع رہے ہیں۔ جو حقوق وہ اپنی قوم کے لیے تسلیم کرتے ہیں وہ بسا اوقات دوسری قوموں کو دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ مشرقی ممالک کے شہریوں کو ان حقوق کے لیے سخت جدوجہد کرنے کے باوجود ان حقوق کا حصول دشوار رہا ہے۔ بیشتر حالات میں وہ ان سے محروم ہی رہے ہیں۔

حکمرانوں کا احتساب

انسانی حقوق کے سلسلے میں اسلام کو متعدد پہلوئوں سے امتیاز حاصل ہے۔ جو حقوق آج انسانوں کو طویل جدوجہد اور کشمکش کے بعد حاصل ہیں، اسلام نے آج سے چودہ سو سال قبل بغیر کسی کش مکش کے خود سے ان کا اعلان کیا تھا، اور ریاست کو ان کی ادائیگی کا پابند بنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’امام، جو لوگوں پر حکمرانی کررہا ہے وہ ان کا نگراں ہے، اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔
ملک و قوم کے حکمراں کو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ مطلق العنان اور ہر بندش سے آزاد ہے اور اس سے کوئی بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہے کہ اس نے رعایا کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جمہوریت میں عوام کو احتساب کا حق ہے، لیکن ذمہ دار اس سے بچ نکلتے ہیں۔ اسلام روزِ آخرت کی بازپرس کا تصور دیتا ہے جس سے بچنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔
اسلام کے عطا کردہ حقوق اس زمین پر بسنے والے ہر فرد کے لیے ہیں۔ نہ تو ان کو سلب کیا جاسکتا ہے اور نہ کبھی منسوخ، حتیٰ کہ دشمنوں اور جنگی قیدیوں کو بھی ان سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
اسلام میں تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، خواہ وہ کسی نسل سے ہوں، کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور کسی خطے کے باشندے ہوں۔ کیونکہ سب کا خدا ایک ہے، اور سب ایک آدم کی اولاد ہیں۔ ’’عربی کو عجمی پر فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر سوائے تقویٰ کے‘‘۔ (مسند احمد)۔

کمزوروں کے حقوق کی حفاظت

کمزور ہمیشہ بنیادی حقوق سے محروم رکھے گئے ہیں، خواہ وہ کمزور حکومتیں ہوں یا کمزور قومیں، سماج کے کمزور طبقات ہوں یا کمزور افراد۔ جن کے ہاتھ میں طاقت رہی ہے انہوں نے اپنی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر ہمیشہ انہیں اپنے قدموں کے نیچے دبایا اور کچلا ہے۔ اقبال نے اسی کی تصویرکشی کی ہے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اسلام کمزوروں کے حقوق کا محافظ ہے۔ وہ تفصیل سے ان کے حقوق بیان کرتا اور انہیں ادا کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ حقوق اللہ تعالیٰ نے عطا کیے ہیں، اس لیے اگر کسی نے ان کی ادائیگی میں کوتاہی کی یا انہیں پامال کیا تو اللہ اس کی سخت بازپرس کرے گا۔

عورت کے حقوق

سماج کا سب سے کمزور طبقہ عورت ہر دور میں اپنے بیشتر حقوق سے محروم رہا ہے، اور آج بھی استحصال کا شکار ہے۔ پہلے عورت کو مرد کا ضمیمہ سمجھا جاتا تھا اور آج نصف بہتر (Half Better) کہہ کر تسلی دی جاتی ہے۔ اسلام نے اسے بااختیار بنایا۔ لڑکی کی پیدائش کو نحوست خیال کیا جاتا تھا اور اس کی خبر پورے خاندان کو سوگوار کردیتی تھی، اور آج بھی جدید ترین فنی ہنر (Technology) کے ذریعے اس کی پیدائش روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ عورت کی اپنی ایک مستقل شخصیت ہے۔ اسلام نے اسے مردوں کے مساوی حیثیت دی ہے، اس نے میراث میں عورتوں کا حصہ متعین کیا ہے، اسے معاشی استقلال فراہم کیا ہے۔
’’مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘ (النساء:7)۔
ازدواجی تعلق بڑا ہی نازک اور اہم تعلق ہے۔ یہ نکاح سے قائم ہوتا ہے، اس کے لیے اسلام نے عورت کی مرضی اور اجازت کو ضروری قرار دیا۔ ’’شوہر دیدہ (بیوہ یا مطلقہ) عورت کا نکاح اُس وقت تک جائز نہیں ہوگا جب تک کہ اُس کی رائے معلوم نہ کرلی جائے، اور باکرہ (دوشیزہ) کا نکاح نہیں کیا جائے گا جب تک کہ اُس سے اجازت نہ لے لی جائے۔‘‘ (بخاری و مسلم) ۔
اسلام نے مہر کو عورت کا حق قرار دیا، اور مرد پر اس کی ادائیگی کو لازم کیا: ’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔‘‘ (النساء:4)۔
اس نے عورتوں سے حُسنِ سلوک اور اچھے برتائو کا حکم دیا: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔‘‘ (النساء: 19)
اس نے عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کو مرد کی عظمت اور اخلاقی برتری کی دلیل قرار دیا: ’’اہلِ ایمان میں سب سے کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں، تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔‘‘ (ترمذی)۔
لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے کا ذہن آج بھی کارفرما ہے۔ اس کی پیدائش کو نحوست تصور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے لڑکیوں کی پیدائش کو بابرکت قرار دیا اور ان کی پرورش پر جنت کی بشارت دی: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوئیں، قیامت کے دن میں اور وہ اس طرح ہوں گے، یہ کہہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔‘‘ (مسلم)۔

یتیموں اور بیواؤں کے حقوق

جس بچے کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو اور جس عورت کا سہاگ لٹ گیا ہو، سماج میں ان کو عموماً حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، عام طور پر کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا، دونوں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بیوہ کو منحوس خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی زندگی موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔ اسلام نے یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حُسنِ سلوک، ان کی خبرگیری اور ان کے حقوق ادا کرنے کی سخت تاکید کی ہے، اور اس معاملے میں کوتاہی یا ان کی حق تلفی کرنے والوں کو مجرم قرار دیا ہے۔ قرآن یتیموں کا مال ہڑپ کرنے سے منع کرتا ہے (النساء:2، الانعام:152، بنی اسرائیل 34)۔ جو اس کا ارتکاب کریں ان کو جہنم کی وعید سناتا ہے (النساء: 10)۔ انہیں حقیر سمجھنے، دھتکارنے اور جھڑکنے سے روکتا ہے (الفجر: 17، الضحیٰ9، الماعون:2)۔ یتیموں کے ساتھ اچھا برتائو کرنے، انہیں کھلانے پلانے اور ان پر اپنا مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے (البقرہ:83، 177، 215، النساء:8، 36، الدہر:8، البلد:15)۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بیوہ اور مسکین کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے، اور اُس شخص کی طرح ہے جو مسلسل نماز پڑھے اور مسلسل روزے رکھے۔‘‘ (بخاری و مسلم)۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے (یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اپنی درمیانی اور شہادت کی انگلیوں سے اشارہ فرمایا)۔‘‘ (بخاری)۔
ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! جو شخص ان دو کمزوروں یتیم اور عورت کا حق ضائع کرے میں اسے خطاکار اور مجرم ٹھیراتا ہوں۔‘‘ (ابن ماجہ، احمد، نسائی، حاکم)۔

غلاموں اور محکوموں کے حقوق

عرب کے معاشرے میں غلام تمام انسانی حقوق سے محروم تھے۔ ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا۔ وہ بے زبان مخلوق کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ سماج میں ان کا کوئی مقام نہ تھا۔ یہی حیثیت آج ہمارے سماج میں بندھوا (ایسا مزدور یا غلام جو معاہدے کے تحت کسی مدت تک کام کرنے کا پابند ہو) مزدوروں کی ہے۔ اسلام نے غلاموں کو انسانی تعلق سے بھائی قرار دیا اور مالکوں کو حکم دیا کہ ان کا پورا خیال رکھیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر کام نہ لیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کردیا ہے۔ پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، وہ اسے بھی وہی کھلائے جو خود کھائے، اور وہی پہنائے جو خود پہنے۔ تم ان سے ایسے کام نہ لو جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔ اگر ان سے ایسے کام لو تو ان کی مدد کرو۔‘‘ (بخاری)۔

مزدوروں کے حقوق

مزدور پیشہ افراد بھی ہر سماج میں کمزور اور بے بس انسان ہوتے ہیں۔ اپنی روزی حاصل کرنے اور بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انہیں سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ایک دن کی مزدوری نہ ملے تو ان کے گھر فاقے کی نوبت آجاتی ہے۔ عموماً مالدار اور صاحبِ حیثیت طبقے کو ان کے درد کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ ان سے بیگار لیتے ہیں، پوری مزدوری نہیں دیتے، یا اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں سخت تنبیہ فرمائی۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’تین آدمی ایسے ہیں جن کا میں قیامت میں حریف اور مدمقابل ہوں گا … ایک وہ شخص جس نے کسی کو مزدور رکھا، اس سے پورا کام لیا لیکن اس کی مزدوری نہیں دی۔‘‘ (بخاری)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مزدور کو اُس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل اُس کی مزدوری دے دو۔‘‘ (ابن ماجہ)۔

اقلیتوں کے حقوق

سماج کے کمزور طبقات میں اقلیتوں کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ وہ عموماً اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی گزارتی ہیں۔ انہیں دستوری طور پر مساوی حقوق حاصل ہوں تو بھی عملاً وہ اکثریت کے ظلم و تعدی کا شکار رہتی ہیں۔ آئے دن ان کی جان، مال اور عزت و آبرو پر حملے ہوتے ہیں اور وہ اپنا دفاع نہیں کرپاتیں۔ اگر اکثریت کو انتظامیہ کی بھی پشت پناہی حاصل ہو تو اقلیتوں کی دشواریاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ عدالتوں سے انصاف کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ اسلام اپنی ریاست میں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بن کر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو سخت تنبیہ کرتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر دست درازی سے احتراز کریں، ان پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہونے دیں، ان کی عزت و آبرو سے نہ کھیلیں اور ان کا مال غصب نہ کریں، ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں، ورنہ قیامت میں وہ سخت سزا سے دوچار ہوں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خبردار! جس نے معاہد (غیرمسلم جو معاہدے کے تحت اسلامی ریاست میں رہ رہا ہو) پر ظلم کیا، اس کی توہین کی، اس کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام لیا، یا بغیر اس کی مرضی کے اس کی کوئی چیز لے لی تو قیامت کے روز میں اس مظلوم کی طرف سے اس کا مقدمہ پیش کروں گا۔‘‘ (ابو دائود)۔

ماحول ظلم کے خلاف ہو

اسلام ایسا ماحول قائم کرنا چاہتا ہے کہ اگر سماج میں کوئی شخص کسی پر ظلم کررہا ہو تو دوسرے لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ ظالم کا ہاتھ پکڑلیں اور اسے ظلم سے روک دیں۔ ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام کردیا ہے۔ اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ (مسلم)۔
ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس معاملے میں غفلت نہ برتنے کی تلقین کرتے ہوئے متنبہ کیا: ’’لوگ اگر کسی کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو اندیشہ ہے کہ اللہ سب کو سزا دے گا۔‘‘ (ابو دائود، ترمذی)۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘۔ صحابہ کو اس ارشادِ نبوی پر حیرت ہوئی۔ انہوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کا کیا مطلب ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کا ہاتھ پکڑلو، یہی اس کی مدد ہے۔‘‘ (بخاری)۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی سماج انسانی حقوق کے سلسلے میں اس قدر بیدار ہوجائے کہ وہ ظالم کو ظلم نہ کرنے دے اور مظلوم کی مدافعت کے لیے کمربستہ ہوجائے، تو وہ بہترین اور اعلیٰ قدروں کا حامل سماج بن جائے گا۔
کمزور طبقات کے جن حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے اُن کی حیثیت محض خوشنما نظریات اور اصولوں کی نہیں ہے، بلکہ اُن پر اسلامی مملکتوں میں صدیوں تک عمل ہوتا رہا ہے اور یہ طبقات اُن سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں۔ اگر کبھی ان حقوق کی پامالی ہوئی تو ان کی حفاظت کرنے اور ان کے سلسلے میں بیداری لانے کی کوشش بھی ہوتی رہی ہے۔
دورِ حاضر میں دیگر مذاہب اور غیرمسلم افراد اسلام کو جبر و تشدد اور خوں ریزی کا مذہب گردانتے ہیں یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ اسلام انسانی حقوق کا پاسباں اور علَم بردار ہے۔ کمزور طبقات کے حقوق کی حفاظت میں اسے دوسرے قوانین پر سبقت حاصل ہے۔ اس نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔