نثار احمد
کہتے ہیں: کسی ناپسندیدہ صورتِ حال کو بدل نہیں سکتے تو اُس کی طرف دیکھنے کا زاویہ بدل لو، فرق محسوس ہوگا۔ چلیے، آج کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔
اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر مارشل برکی کے مطابق کورونا وائرس نے پچھلے دو ماہ میں چین میں 74 ہزار زندگیاں بچائیں۔ جی ہاں، کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوا میں چھوڑی جانے والی آلودگی میں نمایاں کمی آئی، اور نتیجے میں سانس لینے کے لیے صاف ہوا میسر آنے سے 74ہزار انسان مرنے سے بچ گئے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق آلودہ ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے دنیا میں سالانہ 70 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
’گلوبل الائنس آن ہیلتھ اینڈ پلوشن‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کے حساب سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، جہاں سالانہ 128,005افراد یعنی روزانہ 350افراد آلودہ ہوا میں سانس لینے کی وجہ سے مرتے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک ماہ سے فضائی آلودگی کے حوالے سے پاکستان کے بڑے شہروں یعنی کراچی، لاہور اور فیصل آباد کی ہوا کا معیار (Air Quality Index) چترال کے برابر یعنی معتدل درجے میں آگیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو زندگی میں پہلی مرتبہ نیلا آسمان دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں بھی آلودہ ہوا کی وجہ سے موت کے خطرے سے دوچار ہزاروں زندگیاں بچ گئی ہیں۔ یہ تو تھا صرف ہوا کے معیار میں بہتری کی بدولت بچ جانے والی زندگیوں کا تذکرہ۔
اب آتے ہیں ٹریفک حادثات کی طرف۔ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس کے مطابق پاکستان میں رونما ہونے والے ٹریفک حادثات میں سالانہ 15ہزار افراد یعنی روزانہ 41 افراد اپنی جانیں گنواتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین ہفتوں سے ویران پڑی شاہراہوں پر حادثات کی خبریں سامنے نہیں آرہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کوئی خبر نہ ہونا اچھی خبر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے سینکڑوں اور زندگیاں بچ گئیں۔ اس کے علاوہ بھیڑ والی جگہیں بند ہونے کی وجہ سے دیگر ناخوشگوار واقعات میں کمی آنے سے بھی انسانی زندگیوں کے ضیاع کا سلسلہ رک گیا ہے۔ کورونا سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا جو رجحان پیدا ہوگیا ہے اُس سے ہمیں اپنی صحت کو اللہ کی نعمت سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی نہ صرف یاددہانی ہوگئی، بلکہ مستقل صفائی اور حفاظتی تدابیر کی وجہ سے لوگ دیگر کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ ہوگئے۔ ایک مشاہدے کے مطابق کورونا سے ہٹ کر صحتِ عامہ کے دیگر مسائل میں خاطرخواہ کمی آگئی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں کورونا کی وجہ سے اموات اتنی نہیں ہوئیں جتنی زندگیاں بچ گئی ہیں۔ البتہ جن کے عزیزو اقارب اس وبا میں فوت ہوگئے ہیں اُن کے لیے مقامِ اطمینان ہے کہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ اور جو اس بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں اُن کے لیے بھی ایک خوش خبری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ہے۔ حدیثِ پاک کا مفہوم ہے کہ مسلمان کو جب بھی کوئی پریشانی، غم، رنج، تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے، حتیٰ کہ اسے کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ تو گویا یہ بیماری اور مصیبت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا ایک بہانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک نادیدہ مخلوق کے ذریعے اپنے بھٹکے ہوئے بندوں کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے، اور ایسی مصیبت جو بندوں کو اپنے رب کے قریب کردے کسی نعمت سے کم ہوسکتی ہے بھلا؟
ایک اور پہلو جو اس ساری صورتِ حال میں سب سے خوش کن اور حوصلہ افزا ہے وہ پاکستانی قوم کا جذبۂ ایثار ہے، جس نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ ہم میں بحیثیتِ قوم سو برائیاں سہی، لیکن مصیبت میں ہم نے ایک دوسرے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ لوگوں نے انفرادی طور پر اور تنظیموں کی صورت میں اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی خدمت میں فَاستَبِقُو اِلَی الخَیرَات کی عملی مثالیں قائم کیں۔ اور بات خدمت کی ہو تو الخدمت والے کہاں پیچھے رہ سکتے ہیں! جیسے ہی صورتِ حال کی خرابی اور ضرورت مند عوام کی مشکلات کا اندازہ ہوا، الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے خودکار نظام کے تحت میدانِ عمل میں کود پڑے، اور بغیر کسی چندے اور حکومتی امداد کا انتظار کیے عوام کی ہر ممکن مدد شروع کی۔ گلگت اور چترال کے پہاڑوں سے لے کر بلوچستان اور سندھ کے صحراؤں تک الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکنان اپنے ضرورت مند بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں یہ پیغام دیا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ’’تم اکیلے نہیں‘‘، بلکہ الخدمت کے ہزاروں کارکنان تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماسک، سینی ٹائزر اور خوراک سے لے کر ایمبولینس اور جدید سہولیات سے لیس ہسپتال تک اپنے ضرورت مند پاکستانی بھائیوں کی خدمت میں پیش کیے۔ الخدمت کے کارکنان نے مسجد، مندر اور گرجا والوں کی بلاتفریق خدمت کرکے پاکستان میں رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کی جو تصویر پیش کی اس پر دنیا داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ انسان تو انسان، اللہ کے ان نیک بندوں نے مشکل وقت میں بے زبان جانوروں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا، اور خدمتِ انسانیت سے کہیں آگے بڑھ کر مخلوقِ خدا سے محبت کا استعارہ پیش کیا۔ 21 اپریل2020ء کو الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری کیے گئے امدادی سرگرمیوں کے اعداد و شمار کے مطابق الخدمت فائونڈیشن اپنے 22 ہزار سے زائد رضاکاروں کے ذریعے ملک بھر میں 2523738 افراد کو راشن، اور441886 افرادکو پکا پکایا کھانا فراہم کرچکی ہے۔ 776583 کی تعداد میں فیس ماسک اور گلوز، اور 383955کی تعداد میں ہینڈ سینی ٹائزر اور صابن تقسیم کیے گئے۔ مختلف ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو 17,834کی تعداد میں ذاتی حفاظتی سازوسامان (PPEs)فراہم کیا گیا، جبکہ 18489مساجد، مندروں اورگرجا گھروں میں جراثیم کُش اسپرے کروایا گیا۔ ایسے وقت میں جب ناکافی طبی سہولیات نے عوام کو تشویش میں مبتلا کررکھا تھا، الخدمت فاؤنڈیشن نے ملک کے مختلف حصوں میں تمام ضروری سہولیات سے لیس اپنے ہسپتال کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے حکومت کو پیش کردیے، اور ملک کے مختلف علاقوں میں اپنے ادارے قرنطینہ مراکز کے طور پر استعمال کرنے کے لیے حکومت کے حوالے کیے، جہاں سینکڑوں مشتبہ مریض ہر طرح کی سہولیات کے ساتھ آئسولیشن میں رہ رہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے کورونا وائرس کے خلاف 18مارچ سے شروع اس جنگ پر اب تک ایک ارب 6کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی ہے، جس سے 62 لاکھ سے زیادہ افراد مستفید ہوچکے ہیں، جبکہ خدمات کا دائرہ دن بدن پھیلتا جارہا ہے۔
کمال در کمال یہ ہے کہ اتنا بڑا کام ایسے منظم انداز میں سرانجام دیا گیا کہ نہ کہیں لمبی قطاریں نظر آئیں اور نہ ہی امداد کے لیے ترستے ہجوم کی دھکم پیل۔ دیانت اور شفافیت کا یہ عالم ہے کہ امداد کے لیے لیے گئے اور دیے گئے ایک ایک روپے کا حساب کتاب موجود ہے۔ یہ کمال بلاشبہ الخدمت فاؤنڈیشن کے ملک گیر نیٹ ورک، ہنگامی امدادی سرگرمیوں کے وسیع تجربے اور تربیت یافتہ رضاکاروں کی بے لوث خدمت، اور منتظمین کی پیشہ ورانہ مہارت کی مرہونِ منت ہے۔ ایسے ہنگامی حالات میں اتنے مؤثر انداز میں اصل مستحقین تک امداد پہنچانے کی الخدمت فاؤنڈیشن کی حکمت عملی قابلِ تحسین، اور دیگر اداروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے جو چند مثبت اور خوش کُن پہلو ہیں ان میں سے ایک الخدمت فاؤنڈیشن ہے جو کہ پاکستانی قوم کے جذبۂ ایثار کی ایک خوبصورت تصویر ہے۔