دل اور آنکھوں کی طلب

ابوسعدی

کوہِ طور کی تجلی الٰہیہ کی زیارت کے بعد حضرت موسیٰؑ کے چہرۂ مبارک پر ایسی قوی چمک رہتی تھی کہ چہرے پر نقاب کے باوجود جو بھی آپؑ کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتا، اُس کی بینائی ختم ہوجاتی۔
آپؑ نے حق تعالیٰ سے عرض کیا کہ مجھے ایسا نقاب عطا فرمائیے جو اس قوی نور کا ستر بن جائے، اور آپ کی مخلوق کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچے۔ حکم ہوا اپنے اس کمبل کا نقاب بنالو جو کوہِ طور پر آپؑ کے جسم پر تھا، جس نے طور کی تجلی کا تحمل کیا ہوا ہے۔
اس کمبل کے سوا اے موسیٰؑ اگر کوہِ قاف بھی آپؑ کے چہرے کی تجلی بند کرنے کو آجائے وہ بھی مثل کوہ طور پھٹ جائے گا۔ الغرض حضرت موسیٰؑ نے بغیر نقاب کے خلائق کو اپنا چہرہ دیکھنے سے منع فرمادیا۔
آپؑ کی اہلیہ حضرت صفوراؑ آپؑ کے حسنِ نبوت پر عاشق تھیں۔ نقاب جو نظروں کے درمیان حائل ہوگیا تھا وہ اس سے بے چین ہوگئیں۔ جب صبر کے مقام پر عشق نے آگ رکھ دی تو آپؑ نے اسی شوق اور بے تابی سے پہلے ایک آنکھ سے موسیٰؑ کے چہرے کے نور کو دیکھا، اس سے ان کی آنکھ کی بینائی سلب ہوگئی۔ اس کے بعد بھی ان کو صبر نہ آیا، دل اور آنکھوں کی طلب اور بڑھ گئی۔ نظارہ تجلیاتِ طور کا حضرت موسیٰؑ کے چہرے پر دیکھنے کے لیے دوسری آنکھ بھی کھول دی، وہ بھی بے نور ہوگئی۔
عاشقہ صادقہ حضرت صفوراؑ سے ایک عورت نے پوچھا ’’کیا تمہیں اپنی آنکھوں کے بے نور ہوجانے پر کچھ حسرت و غم ہوا ہے؟‘‘
آپؑ نے فرمایا ’’مجھے تو یہ حسرت ہے کہ ایسی سو ہزار آنکھیں اور بھی عطا ہوجائیں تو میں ان سب کو محبوب… کے چہرۂ تاباں کے دیکھنے میں قربان کردوں۔ میری آنکھوں سے نور تو چلا گیا، مگر آنکھوں کے حلقے کے ویرانے میں حضرت موسیٰؑ کے چہرے کا نور سما گیا ہے۔“
حضرت صفوراؑ کی یہ سچی چاہت اور تڑپ، یہ کلام،یہ عشق کا مقام، یہ دل اور آنکھوں کی طلب پسند آگئی۔ خزانہ غیب سے پھر ان کی آنکھوں کو ایسی بینائی کا نور اور تحمل بخش دیا گیا جس سے وہ حضرت موسیٰؑ کے چہرۂ تاباں کو دیکھا کرتی تھیں۔
درسِ حیات: طلب صادق ہو تو خدا کی مدد پہنچ جایا کرتی ہے۔
۔(مولانا جلال الدین رومیؒ،حکایات رومیؒ)۔

حضرت جنید بغدادی ؒ۔

جنید بغدادی: کنیت ابوالقاسم اور لقب قواریری اور زجاج و خراز ہے۔ انہیں قواریری اور زجاج اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے والد محمد بن جنید آبگینہ فروشی اور شیشے کی تجارت کرتے تھے۔ وہ خود موزہ دوزی کا کام کرتے تھے، اس لیے انہیں خراز کہا جاتا ہے۔ ان کا آبائی وطن نہاوند تھا، لیکن وہ بغداد میں پیدا ہوئے۔ وہ حضرت سری سقطی کے خواہر زادہ، مرید اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے روحانی تربیت سری سقطی، حارث محاسبی اور محمد قصاب سے حاصل کی۔ مولانا جامی نے نفحات الانس، فرید الدین عطار نے تذکرۃ الاولیا اور شیخ علی ہجویری نے کشف المحجوب میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے 297ھ میں وفات پائی۔ ذوالنون مصری کے صوفیانہ خیالات کو آپ نے مرتب کیا اور اسی میں تصوف کے اصل نظریے کو پہلی مرتبہ پیش کیا۔
۔(پروفیسر عبدالجبار شاکر)۔

تکلف میں ریل چل دی

حد سے زیادہ تکلف پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کوئی شخص بہت زیادہ شائستگی اور انکسار کا مظاہرہ کرے، یا تکلف کے سبب کوئی چیز خود نہ لے بلکہ دوسرے کو پیش کرے تو یہ مثل کہی جاتی ہے۔ اس مثل کے وجود میں آنے کا ایک دلچسپ چھوٹا سا واقعہ اس طرح مشہور ہے:
تکلف کے قائل دو دوست سفر کرنے کے لیے الگ الگ اپنے گھروں سے نکلے، اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ان کی ملاقات ہوئی۔ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی آداب بجالانے کے لیے دونوں ہی تقریباً ایک ساتھ جھکے اور اپنے اپنے ہاتھ پیشانی تک لے گئے۔ خیر و عافیت کے بعد ابھی یہ خلوص و شائستگی کا مظاہرہ کرہی رہے تھے کہ پلیٹ فارم پر ریل آپہنچی۔ جن کا سفر ختم ہوگیا تھا وہ ٹرین سے اتر رہے تھے، اور سفر کرنے والے ٹرین پر چڑھ رہے تھے، مگر ان میں سے ایک نے دوسرے دوست سے کہا:’’قبلہ تشریف لے چلیے‘‘۔
دوسرے نے کہا: ’’اجی حضرت پہلے آپ‘‘۔
پہلے دوست نے جواب کہا:’’حضور کیسی بات کرتے ہیں، پہلے آپ قدم رنجہ فرمائیں‘‘۔
دوسرے دوست نے کہا: ’’حضور والا! پہلے آپ، بندۂ کمترین اس لائق کہاں کہ آپ سے آگے قدم بڑھائے‘‘۔
غرض کہ دونوں اسی طرح پہلے آپ، پہلے آپ کرتے رہے اور ریل اسٹیشن سے بے تکلف روانہ ہوگئی۔ وہ دونوں تکلف کے پلیٹ فارم پر تکلف کا مظاہرہ کرتے رہ گئے۔
۔(ماہنامہ چشم بیدار، اپریل2018ء)۔