نذیر احمد دہلوی
ایک غریب اور مفلس کو خدا نے تھوڑے دنوں میں امیر کبیر بنادیا۔ جس کام میں ہاتھ ڈالتا، نفع ہوتا… جو تجارت کرتا، فائدہ ملتا۔ تو وہ شخص لوگوں میں اپنی دانش مندی اور تدبیر کی تعریف کرتا کہ: ’’یہ دولت میں نے اپنی عقل کے زور سے پیدا کی ہے۔ فلانے سال یہ سوچ سمجھ کر میں نے روئی خریدی کہ ملک امریکہ میں لڑائی شروع ہونے کو ہے۔ لڑائی چھڑی اور روئی گراں ہوئی۔ چنانچہ جیسا میں نے سوچا تھا ویسا ہی ہوا۔ فلاں گائوں جب میں نے مول لیا تو اس میں ہر سال خسارہ ہوتا تھا۔ میں نے ایسا انتظام کیا کہ اب ہزاروں روپے کی بچت ہوتی ہے۔ بٹیسر کے میلے میں دس بچھڑے میں نے مول لیے اور لوگ ان کو گراں آنکتے تھے۔ میں نے رجواڑے میں چوگنے داموں پر فروخت کیے‘‘۔
غرض اسی طرح ہزاروں مثالیں لوگوں کے روبرو بیان کرتا تھا۔ چند روز بعد زمانے کی گردش اور بداقبالی نے اس کو گھیرا۔ دو برس میں خالی ہاتھ رہ گیا۔ مکان گرنے شروع ہوئے۔ کرایہ داروں نے کرائے کی ایک کوڑی نہ دی۔ گائوں میں پانی نہ برسا اور کچھ اناج پیدا نہ ہوا۔ گائے، بھینس، گھوڑا، اونٹ سب کے سب، ایسی وبا آئی کہ فنا ہوگئے۔ گھر میں آگ لگی، تمام اسباب جل کر خاک ہوگیا۔ نقد جو کچھ تھا چوری ہوگیا، تو وہ شخص قسمت کو برا کہتا۔ قسمت نے اپنی برائی سن کر کہا: ’’او ناشکرے، بدذات جتنی بہتری تھی وہ تو اپنی عقل اور تدبیر کی طرف منسوب کرتا تھا اور جس قدر برائی ہے مجھ کو لگاتا ہے‘‘۔
محبت کی آزمائش
دو شخص شریک ِ سفر تھے اور آپس میں یہ عہد تھا کہ جب کوئی آفت پیش آئے تو ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اتفاقاً جنگل میں ایک ریچھ سامنے آیا۔ ایک مسافر تو جھٹ ایک درخت پر چڑھ گیا۔ دوسرے سے اور کچھ نہ بن پڑا تو دم بخود ہوکر زمین میں مُردہ بن کر لیٹ گیا۔
ریچھ دیر تک اس شخص کے منہ اور کانوں کو سونگھتا رہا اور آخرکار مُردہ سمجھ کر چھوڑ کر چل دیا۔ جب ریچھ دور نکل گیا، تو درخت والا مسافر اتر کر پوچھنے لگا: ’’کیوں یار یہ کیا بات تھی کہ ریچھ باربار اپنی تھوتھنی تمہارے کانوں سے لگاتا تھا‘‘۔
اس شخص نے کہا: ’’بھائی یہ ریچھ تو نہ تھا۔ کوئی جن ہو تو عجب نہیں۔ اُس نے تو ایسی ایسی کام کی باتیں میرے کان میں کہیں کہ میں کیا کہوں‘‘۔
دوست نے کہا: ’’آخر ایک آدھ بات ہم کو بھی تو سنائو‘‘۔
اس شخص نے کہا: ’’ایک بات تو یہی تھی کہ خودغرض آدمی سے جو مصیبت میں دوست کا ساتھ نہ دے، محبت نہ کرنا‘‘۔