آپ جن الجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ میں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطہ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غور و فکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلی سوالات نہیں ہیں، بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں، اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیر ضروری ہیں، کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا، اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت، مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال!
لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں، ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدائش، ان کا وجود، ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ غیر حکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم و بے خبر ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے، یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجائے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں انے والے آثار و احوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکم وخبیر ہے، مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے، اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب، تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و احوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہورہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہئیں۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے، تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امر واقع کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے، یا نہیں سمجھ سکتے، ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟
آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے، یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو، ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے، کیونکہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنادیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا اپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا، اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا، یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے، جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’’انسان‘‘ بنایا ہے، اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بنا پر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطا کرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے جو مقامِ انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں، لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اُس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقام ِانسانیت سے اٹھ کر مقام ِالوہیت پر نہ پہنچ جائیں، اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی، کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں، پتھر یا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہر سوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے، کیوں کہ آپ انسان ہیں، خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’’جھول‘‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔
۔(سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ،ترجمان القرآن، دسمبر 2005ء)۔
بیادِ مجلسِ اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے
نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔