قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں اﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کے
ثواب سے محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘(النسائي في السنن، کتاب الصیام)۔
سید طاہر رسول قادری
خدا فراموش نہ بنو، ورنہ خود فراموش بن جائو گے۔ اور خود فراموشی یہ ہے کہ آدمی اپنی حقیقت ہی کو گم کر بیٹھے۔
ترجمہ: ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اللہ سے ڈرو۔ اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ یقیناً ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلادیا۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے۔ جنت میں جانے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔
اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی حالت پر غور کریں۔“ (الحشر:18 تا 21)۔
سورۃ الحشر کے آخری رکوع کی یہ آیتیں اُن مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے نصیحت ہے جن کا دل ہنوز اصل روحِ ایمان سے خالی ہے۔ ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں اپنے رویّے کو درست کرلیں۔ ایمان کا دعویٰ کرنے اور مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر سے نفاق کی خوبو نکال پھینکیں، ایمان کے اصل تقاضوں کو پورا کریں، اور تقویٰ اور فسق میں جو فرق ہے اس کو اپنے عمل سے واضح کریں۔ جس قرآن کو وہ ماننے کا دعویٰ کررہے ہیں، اس کی اہمیت کیا ہے اپنے عمل سے اس کی تصدیق کریں۔
پہلی نصیحت یہ ہے کہ اے لوگو! جب تم نے مسلمانوں کے گروہ میں اپنے کو شامل کرلیا ہے، تم خود اپنے کو مسلمان کہتے ہو اور مسلمانوں میں اپنا شمار کراتے ہو، تو پھر اپنے کو خدا سے ڈرنے والا بھی بنائو۔ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی خبر پر یقین لاکر آخرت کو سچے دل سے مان لو۔ اور اس رویّے سے اجتناب برتو جو خدا کے عذاب میں مبتلا کرنے والا ہے، اور ان تمام غلط پیشوں، غلط فکر و عمل، اور غلط کاریوں سے بچو جن سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے۔
دوسری نصیحت تم کو اے ایمان والو یہ کی جاتی ہے کہ تم اپنے ’’آج کے کام کو‘‘ آج ہی ختم ہوجانے والا نہ سمجھو۔ بلکہ ’’کل‘‘ کے لیے اس کو نتیجہ خیز جانو۔ لہٰذا تم میں اگر ذرا بھی سمجھ و دانائی ہے تو ہمیشہ اپنی نگاہ اس حقیقت پر مرکوز رکھو کہ آنے والے ’’کل‘‘ کے لیے تم آج یہاں کیا کررہے ہو۔ کیونکہ کل کا دن جو لازماً آنے والا ہے بڑا ہی ہولناک، تاریک اور نفانفسی کا دن ہوگا۔ ہولناک اندھیرے میں کم وبیش نور صرف اُن مومنوں کے لیے ہوگا جنہوں نے اس دن کی فکر کی ہوگی۔ وہاں روشنی جو کچھ بھی ہوگی صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہوگی۔ ایمان کی صداقت اور سیرتِ کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہوجائے گی، جس سے نیک بندوں کی شخصیت جگمگا اٹھے گی۔ جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہوگا اُس کے وجود کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہوگی۔ اور جب وہ میدانِ حشر سے جنت کی طرف چلے گا تو اُس کا نور اُس کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا۔
اندازِ بیاں سے یہ حقیقت تو واضح ہوچکی ہوگی کہ یہاں آج سے مراد دنیا، اور کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی آج ہے۔ یہ اندازِ بیاں اختیار کرکے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقے سے انسان کو یہ سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص سخت نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتا ہے، اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں۔ اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہوچکا ہے۔ حالانکہ آخرت ٹھیک اس طرح جلد آنے والی ہے جس طرح آج کے بعد کل لازماً آنے والا ہے۔ اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ’’جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اُسے اللہ کے یہاں موجود پائو گے‘‘۔(مزمل:20)۔
”پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔“ (الزلزال:7 اور 8) یعنی آدمی کی نیکی اور بدی جو آج کی جارہی ہے نامہ اعمال میں جمع ہورہی ہے، اور ان کے مجموعی نتائج آدمی کے سامنے آجائیں گے۔
تیسری نصیحت یہ کی جارہی ہے کہ آدمی کو کسی حال میں خدا فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ حقیقت مستحضر اور دل میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ وہ ایک خدا کا بندہ ہے جو اس کا نگہبان اور کارساز ہے۔ وہ جس وقت بھی خدا فراموش ہوگا، کسی نہ کسی غلطی کا مرتکب ہوجائے گا۔ اگر خدا فراموشی اس کا مستقل وتیرہ ہوگا تو خود فراموشی اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہوجائے گی۔ کیونکہ آدمی جب یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ اور کوئی اس کا خدا ہے تو لازماً وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کربیٹھتا ہے۔ اور اس کی ساری زندگی اسی بنیادی غلط فہمی کے باعث غلط ہوکر رہ جاتی ہے۔ اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس کی بندگی تو نہیں کرتا جس کا وہ درحقیقت بندہ ہے، وہ اُن بہت سوں کی بندگی کرنے لگتا ہے جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے۔ پھر یہی عظیم اور ہمہ گیر غلط فہمی ہے جو اس کی پوری زندگی کو غلط بنا کر رکھ دیتی ہے، یعنی خدا فراموشی کے نتیجے میں آدمی ’’خود فراموش‘‘ ہوجاتا ہے اور اپنی حقیقت کو گم کر بیٹھتا ہے۔ اس طرح کے گم کردہ حقیقت آدمی شکل و صورت میں تو آدمی نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت ہوتے جانوروں سے بدتر ہیں۔
کیونکہ خود فراموشی کسی ایک حد پر جاکر نہیں رک جاتی، بلکہ اس کے نتیجے میں انسان اسفل سے اسفل تر ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ جانوروں اور اس کے درمیان کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ اور بالآخر وہ جانوروں ہی جیسے بلکہ اس سے بھی بدتر نتائج سے دوچار ہوجاتا ہے۔
پھر اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ مومن اور کافر، خدا کا ذاکر اور اس کو فراموش کرنے والے جنتی اور جہنمی دونوں کا طرزِعمل یکساں نہیں ہوسکتا۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ آخرت میں تو دونوں میں فرق ہو کہ ایک خالص تکلیف اور دوسرا خالص راحت میں ہو، لیکن دنیا میں ان کے درمیان فکر و نظر، ذوقِ عمل، معیشت و معاشرت، تہذیب و تمدن، سیاست و حکومت میں کسی بھی لحاظ سے کوئی فرق نہ ہو۔
قرآن مجید کو مثال میں پیش کرکے چوتھی نصیحت یہ کی جاتی ہے کہ قرآن جس خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کررہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب ہوتا اور اسے معلوم ہوجاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا، لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو پڑھتا ہے، قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعے حقیقتِ حال جان چکا ہے، اور پھر بھی اس پر کوئی خوف طاری ہوتا ہے نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں اُن کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا! بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے۔
(52 دروس قرآن، انقلابی کتاب۔ حصہ دوئم)۔