پروفیسر خورشید احمد
اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے کہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہم پر اور اُمتِ مسلمہ پر سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، اور یہ ہماری بڑی بدنصیبی ہوگی کہ اس مبارک مہینے کو پائیں، اللہ کی رحمت سے اس میں روزوں کی سعادت بھی حاصل کریں، مگر اس اصل مقصد اور پیغام کے بارے میں غافل رہیں جو اس مہینے اور اس میں انسانیت کو دیے جانے والے ربانی تحفے کا اصل جوہر ہے۔
روزے کے تین امتیاز
روزہ اللہ کے ماننے والے تمام انسانوں کے لیے ہر دور میں فرض کیا گیا ہے، اور اس کی بے شمار مصلحتوں میں سے تین کم از کم ایسی ہیں جن کا ہرلمحے شعور ازبس ضروری ہے:۔
n پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا ہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کو قانع اور مستحکم کرتا ہے، اور اس کے اس عہد کی تجدید کی خدمت انجام دیتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کی مرضی اور حکم سے ہے۔ جو چیز اُفق پر روشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اس کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی، اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے، مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا، یہ ہے روزے کا پہلا روشن ترین پہلو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دیتی ہے اور اسی کیفیت اور رویّے کا نام ہے تقویٰ۔ اسی لیے فرمایا گیا:۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo(البقرہ ۲:۱۸۳) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔“۔
روزے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیائے کرام ؑ کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب اس حالت میں دی گئی جب وہ روزے سے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اُس وقت ہوا جب آپؐ وہاں مسلسل روزوں کی حالت میں تھے، اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت اور داعیہ پیدا کرنے والی ہدایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج (البقرہ ۲:۱۸۵) ”رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔“۔
پس یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے، اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں، تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔ اس موقع کی مناسبت سے ہم قرآن کے مقصدِ حیات، اس سے تعلق کی بنیادوں اور ان کے تقاضوں پر اپنی معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔
اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے روزے کے تیسرے امتیازی پہلو کی طرف بھی اشارہ کردیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایک طرف رمضان کے روزوں کو مکمل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو ذمہ داری تمھیں ادا کرنی ہے اور پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے وہ اعلائے کلمۃ الحق ہے، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقے سے کریں جو تمھیں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا اور دکھایا ہے:۔
وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o ۔(البقرہ ۲:۱۸۵) ”تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔“
قدرت کا قانون ہے کہ جب تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو روشنی اس کا سینہ چیرتی ہوئی رُونما ہوجاتی ہے، ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں اور فضا نور سے بھرجاتی ہے۔ تاریخِ انسانی میں روشنی اور نور کا سب سے بڑا سیلاب ۲۷رمضان المبارک ۱۳ قبل ہجرت میں رُونما ہوا۔
انسانیت کے لیے ہدایت
۔”خشکی و تری اور بحروبر پر تاریکی کا غلبہ تھا“۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ (الروم ۳۰:۴۱) کی حقیقی تصویر بن کر ظلم اور فساد سے خدا کی زمین بھر گئی تھی۔ انسان اپنے حقیقی معبود کو چھوڑ کر جھوٹے خداؤں کی بندگی کررہے تھے۔ ارض و سما کے مالک نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے جو ہدایت اور رہنمائی بھیجی تھی، انسان نے اس کو گم کردیا تھا۔ نتیجے کے طور پر گمراہی اور ظلمت کا دور دورہ تھا۔ انسان آگ، درخت، پتھر، پانی اور جانوروں تک کی پوجا کررہے تھے۔ زندگی کے اجتماعی معاملات میں کچھ انسان دوسرے انسانوں کے خدا اور رب بن بیٹھے تھے، اور اپنی من مانی کررہے تھے۔ نیکیاں معدوم ہورہی تھیں اور بُرائیاں پَر افشاں تھیں۔ نسل، قوم اور قبیلے کے بتوں کی پوجا ہورہی تھی۔ حق، انصاف، آزادی، مساوات اور بندگیِ رب کو انسانیت ترس رہی تھی۔
یہ تھی وہ دنیا، جس میں خدا کے ایک برگزیدہ بندے، انسانیت کے گلِ سرسبد اور دنیا کے سب سے نیک انسان محمدؐ بن عبداللہ نے آنکھیں کھولیں۔ وہ ظلم کے اس راج اور بدی کے اس غلبے پر حیران و سرگرداں تھا، وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰیo (الضحٰی ۹۳:۷)۔ وہ جھوٹے خداؤں کا باغی اور ایک حقیقی خدا کی بندگی کا جویا تھا۔ دستِ فطرت نے ۴۰سال اس کی تربیت فرمائی۔ پھر زمین و آسمان کے مالک نے ایک شب اس باکمال ہستی کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے اپنے آخری نبی کی حیثیت سے مامور فرما دیا۔ وہ غارِحرا میں عبادت میں مشغول تھا کہ خدا کا فرشتہ، اس کا امین اور پیام بر رُونما ہوا۔ بندگی میں مشغول بندے کو سینے سے لگایا، اسے خوب بھینچا اور رب السموات والارض کی طرف سے پہلی وحی اس پر نازل کی:۔
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ o الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ o عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ o ۔(العلق ۹۶:۱۔۵) ”پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام سے جس نے (ساری چیزوں) کو پیدا کیا۔ اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے بنایا۔ پڑھو اور تمھارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، اس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اس کو معلوم نہ تھیں۔“
تاریکیوں کے لیے موت کا پیغام آگیا۔ طاغوت کے غلبے کا دور ختم ہوگیا۔ رب کی آخری ہدایت کا دور شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ ۲۳سال تک چلتا رہا، حتیٰ کہ ہدایت مکمل ہوگئی اور انسانیت کو نور کا وہ خزانہ مل گیا، جس کی روشنی تاقیامت قائم رہے گی جس کے ذریعے وہ ہمیشہ رہنمائی اور ہدایت حاصل کرتی رہے گی:۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط(المائدہ ۵:۳)”آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے، اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔“
خدا کی اس زمین پر انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق اس کی جسمانی اور مادی زندگی سے ہے، اور دوسری وہ جو اس کی روحانی، اخلاقی اور سماجی زندگی سے متعلق ہیں۔ خدا کی ربوبیتِ کاملہ کا تقاضا تھا کہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں پوری کی جائیں، تاکہ وہ زندگی کی آسائشیں بھی حاصل کرسکے اور ان کو صحیح طریقوں سے استعمال بھی کرسکے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ان دونوں ضرورتوں کو بہ حسن و کمال پورا کیا ہے۔ مادی اور جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار قوتیں ودیعت کردی ہیں، جن کی دریافت اور ان کے مناسب استعمال سے انسان کی تمام ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح انسان کی روحانی، اخلاقی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایت نازل فرمائی، اور اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اس ہدایت کو انسانوں تک پہنچایا بلکہ ان کی زندگیوں میں اسے متشکل کرکے بھی دکھا دیا۔ اس طرح انسانیت نے اپنا سفر تاریکی میں نہیں، روشنی میں شروع کیا، اور ہر دور میں خدا کی ہدایت اس کے لیے مشعلِ راہ بنی رہی۔ اس دنیا میں پہلا انسان [آدم] پہلا نبی بھی تھا۔ خدا کی یہ ہدایت اپنی آخری اور مکمل ترین شکل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی۔ یہی ہدایت قرآن کی شکل میں موجود ہے اور قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
قرآن کا تصورِ زندگی
قرآن جس تصورِ زندگی کو پیش کرتا ہے، وہ مختصراً یہ ہے:۔
۱۔ یہ دنیا بے خدا نہیں ہے۔ اس کا ایک پیدا کرنے والا ہے جو اس کا مالک، آقا، رب اور حاکم ہے۔ ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور وہی اس کا حقیقی فرماں روا ہے۔ ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیار کُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق، مالک اور حاکم ہے۔ اس مالکِ حقیقی نے انسان کو ایک خاص حد تک اختیار اور آزادی دے کر، اس زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنایا ہے، اور باقی تمام مخلوقات کو اس کے تابعِ فرمان کیا ہے۔
۲۔ انسان کو خلافت کی ذمہ داریوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنے کے لائق بنانے کے لیے مالکِ حقیقی نے اسے اپنی ہدایت سے نوازا اور اس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود خدا کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ خدا کی بندگی اختیار کرے اور اپنی پوری زندگی کو رب کی اطاعت میں دے دے۔ اس زندگی کی حیثیت ایک امتحان اور آزمائش کی سی ہے۔ اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دے۔ جس نے اس راہ سے انحراف کیا، وہ ناکام و نامراد ہے اور آنے والی ابدی زندگی میں جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا۔
۳۔ یہ باتیں انسان کو ازل میں سمجھا دی گئیں۔ ان کا شعور اور احساس اس کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا۔ ان کی تذکیر اور بندگی رب کے راستے کی تشریح و توضیح کے لیے حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک، اللہ تعالیٰ انبیا علیہم السلام کو مبعوث کرتا رہا۔ ایک طرف انسان کو عقل اور سمجھ دی گئی کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی کے معاملات کی صورت گری کرے، اور دوسری طرف خدا کے ان برگزیدہ بندوں (انبیا علیہم السلام) نے بڑی سے بڑی قربانی دے کر انسانیت کو سیدھی راہ پر لگانے کا کام انجام دیا۔ ہرملک اور ہر قوم میں انبیا مبعوث ہوئے۔ اس سنہری سلسلے کی آخری کڑی محمد عربی ؐ ہیں۔ آپؐ ساری دنیا کے لیے بھیجے گئے اور سارے زمانوں کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپؐ نے اللہ کا وہی دین، یعنی اسلام لوگوں کے سامنے پیش کیا جو اس سے پہلے پیش ہوتا رہا تھا۔ جن لوگوں نے آپؐ کی دعوت قبول کرلی اور اسلام کو بہ حیثیت زندگی کے دین اور راستہ اختیار کرلیا، وہ ایک اُمت بن گئے۔ اب یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کا نظام اس ہدایت کے مطابق تشکیل دے جو اللہ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور جس کا نمونہ آپؐ نے اپنی مبارک زندگی میں پیش فرمایا، اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دیتے رہے۔
قرآن وہ کتاب ہے جس میں پوری دعوت موجود ہے، جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے، جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اُتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیر و فلاح کی ضامن ہے۔ قرآن اپنی حیثیت اور اپنے مقصد کو اس طرح واضح کرتا ہے:۔
۔(الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o ۔(البقرہ ۲:۲) ”یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔“۔
۔(ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹) ”حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔“
۔(ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:۔
الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرہ ۲:۱۸۵) ”قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔“
۔(د) یہ ہدایت کا ایسا مرقع ہے جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:۔
وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدہ۵:۴۸) ”پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔“۔
۔(ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (الحجر۱۵:۹)”بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔“۔
۔(و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ o ۔(یونس۱۰:۵۷)”لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے، اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔“۔
۔(ز) اور یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
قرآن کا اصل مقصد
قرآن کی اس نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد اس کی حقیقت اور اس کے مقصد کی وضاحت آسان ہوجاتی ہے، اسے ہم مختصراً یوں بیان کرسکتے ہیں:۔
قرآن کا موضوع انسان ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے اس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔
قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ظاہربینی یا قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے باعث انسانوں نے خدا، نظامِ کائنات، اپنی ہستی اور اپنی دنیوی زندگی کے متعلق جو نظریات قائم کیے ہیں اور ان نظریات کی بنا پر جو رویّے اختیار کرلیے ہیں، وہ سب حقیقت کے لحاظ سے غلط اور نتیجے کے اعتبار سے خود انسان ہی کے لیے تباہ کن ہیں۔ حقیقت وہ ہے جسے انسان کو خلیفہ بناتے وقت خدا نے خود بیان فرما دیا ہے۔ اس حقیقت کے لحاظ سے وہی رویہ درست اور خوش انجام ہے جو خدا کو اپنا واحد حاکم اور معبود تسلیم کرکے اس دنیا میں اس کی ہدایت کے مطابق اپنی پوری زندگی کو گزارا جائے۔
قرآن کا مدعا انسان کو اس صحیح رویّے کی طرف دعوت دینا اور اللہ کی اس ہدایت کو واضح طور پر پیش کرنا ہے، جسے انسان اپنی غفلت سے گم اور شرارت سے مسخ کرتا رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد اوّل، مقدمہ از مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ)۔
نزولِ قرآن کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے۔ (الفوز الکبیر)۔
قرآن تمام انسانوں کو ابدی سعادت کی طرف بلاتا ہے، اور انسان کے ظاہروباطن کی ایسی تعمیر کرتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، دنیا اور آخرت کی زندگیوں میں حقیقی چین اور راحت نصیب ہو۔ یہی راستہ رب کی بندگی کا راستہ ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo ۔(الذاریات ۵۱:۵۶) ”میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔“۔
یہ بندگی انسان کی پوری زندگی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا ہر سانس احساسِ عبدیت سے معمور ہونا چاہیے اور اس کا ہرعمل مالک کی اطاعت کا مظہر ہونا چاہیے۔
(جاری ہے)