کم قیمت پر دستیاب تیل سے پاکستان زبردست فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے فوری اور دوررس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے
تیل کو جس زوال کا سامنا ہے، تجارت کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیّال سونے کی قیمتیں گرواٹ کا شکار تو تھیں لیکن یہ تصور بھی محال تھا کہ تیل خاک سے گزر کر پاتال تک جاپہنچے گا۔ کئی ہفتوں سے امریکی برانڈ West Texas Intermediateیا WTIکی قیمتیں شدید دبائو میں تھیں اور اس کی 5 ڈالر فی بیرل فروخت کی خبریں بھی آرہی تھیں۔ دودن پہلے کینیڈا کا ویسٹرن کینیڈین سیلیکٹ (WSC) ایک ڈالر فی بیرل پر فروخت ہوا۔ WSC کثیف تیل ہے جو ڈامر یا Asphalt کشید کرنے کے کام آتا ہے۔ اس پس منظر میں جب 20 اپریل کو امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر کشنگ (Cushing) میں WTI کی خرید وفروخت کا آغاز ہوا تو ابتدا ہی سے آثار کچھ اچھے نہ تھے۔ کشنگ WTI کی خریدو فروخت کا مرکز ہے اور یہاں طے ہونے والی قیمتوں پر ہی نیویارک مرکنٹائل ایکسچینج یا NYME میں اس کے سودے ہوتے ہیں۔ پیر کو کاروبار کا آغاز ساڑھے 14 ڈالر فی بیرل پر ہوا اور پھر اس کی قیمت گرنا شروع ہوگئی۔ 12 بجے دوپہر (پاکستان میں رات 10 بجے) یہ قیمت 4 ڈالر، اور ڈھائی گھنٹے بعد بازار بند ہونے تک اس کی قیمت منفی 35 ڈالر تک آگئی۔
قارئین کی وضاحت کے لیے عرض ہے کہ قیمت میں اس غیر معمولی کمی بلکہ تباہی کا اطلاق پاکستان کے لیے خریدے جانے والے تیل پر نہیں ہوگا۔ ہمارا ملک اپنی ضرورت کا تیل خلیجی ممالک سے خریدتا ہے جس کی قیمت اوپیک باسکیٹ کے مطابق ادا کی جاتی ہے، تادم تحریر اوپیک باسکیٹ 18.16ڈالر فی بیرل فروخت ہورہا ہے۔ درآمدی LNG کی قیمت برینٹ (Brent)کے حوالے سے طے ہوتی ہے جس کی قیمت 25.69 سے گرکر 19.78 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔
سوال یہ ہے کہ تیل پر یہ زوال کیوں آیا؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ خام مال کے سوداگر بازار کے رحم و کرم پر رہتے ہیں، اور اگر منڈی میں طلب کم ہوجائے تو بِکری بڑھانے اور فروخت میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کے لیے دام میں کمی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
تیل کی طلب اور رسد میں بہت عرصے سے عدم استحکام پایا جاتا ہے، یعنی تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ ہے جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری ہے۔ اس کشیدگی میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اشتعال انگیر بیانات اور چینی مصنوعات پر اضافی محصولات کی دھمکی، اور چین کے جوابی اقدامات سے سرمایہ کاروں میں بے چینی پھیلتی ہے، لیکن چند ہی دن بعد دونوں جانب سے شاخِ زیتون کی نمائش معاملے کو ٹھنڈا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کردیتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس تلون مزاجی سے چینی کارخانوں کی پیداوار متاثر ہوئی جس سے تیل کی قیمتوں پر منفی اثر پڑا۔
کورونا وائرس کی وبا سے پہلے دنیا میں تیل کی اوسط کھپت 9 کروڑ 70لاکھ بیرل، جبکہ پیداوار دس کروڑ بیرل کے قریب تھی۔ اس فرق کی وجہ سے قیمتوں پر دبائو تو تھا لیکن اِس سال کے آغاز پر تیل کا دام 55 سے 60 ڈالر فی بیرل کے درمیان کسی حد تک مستحکم تھا۔ جنوری کے دوسرے ہفتے کے دوران چین میں کورونا وائرس وبا کی شکل اختیار کرگیا اور اُس کی صنعتی پیداوار میں خلل آنا شروع ہوا۔ فروری کے وسط سے یورپ میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آنا شروع ہوگئے، اور مارچ تک اٹلی، فرانس، جرمنی اور سارا یورپ اس مرض کی لپیٹ میں آگیا۔ مارچ کے وسط میں اس آفت نے نیویارک کا رخ کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ اور کینیڈا کے سارے بڑے شہروں میں قیامت برپا ہوگئی۔ لاک ڈائون کے نتیجے میں دنیا بھر کی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوگئیں جس کے نتیجے میں تیل کی کھپت ساڑھے 6 کروڑ بیرل رہ گئی۔ اسی دوران چین کی منڈی پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے روس اور سعودی عرب کے درمیان قیمتوں کی جنگ شروع ہوئی۔ آرامکو نے اپنی پیداوار 80 لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل کردی، اور تیل کی قیمتیں 20 ڈالر سے نیچے آگئیں۔ امریکہ میں تیل کی پیداواری لاگت 38 ڈالر فی بیرل ہے، چنانچہ امریکی تیلیوں کے لیے زمین سے تیل نکالنا زبردست گھاٹے کا سودا بن گیا، لیکن پانی کے نلکوں کی طرح تیل کے کنووں کا منہ بند کردینا اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے محنت اور خرچہ درکارہے، اور پیداوار معطل کردینے کے بعد اسے دوبارہ چالو کرنے میں بھی خاصا تکلف ہے، چنانچہ پیداوار کم تو کی گئی لیکن کنووں کو بالکل بند نہیں کیا گیا۔ امریکہ میں چھوٹی بڑی 9 ہزار تیل کمپنیاں ہیں، جن میں سے بعض دو تین افراد پر مشتمل ہیں، جن کے اخراجات کم ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت بھی بہت زیادہ نہیں۔ ان اداروں کے لیے 10 سے 15 بیرل یومیہ پیداوار بھی نفع بخش ہے۔ ان چھوٹی کمپنیوں کی مجموعی پیداوار 10لاکھ بیرل روزانہ کے قریب ہے۔ چنانچہ بڑی کمپنیوں کی جانب سے کٹوتی کے باوجود امریکہ میں تیل کی پیداوار کھپت سے زیادہ رہی۔
امریکی تیل کی قیمتوں کا تعین ماہانہ سودوں کی بنیاد پر ہوتا ہے جو ہر ماہ کی 19 تاریخ تک کیے جاتے ہیں۔ یعنی خریداری کے جو سودے 19 مارچ یا اس کے بعد ہوئے، وہ تیل 19 اپریل تک اٹھانا ضروری تھا۔ آڑھتیوں نے تیل تو وعدے کے مطابق اٹھا لیا لیکن انھیں کوئی گاہک نہ مل سکا، چنانچہ یہ حجم ٹینکروں میں ذخیرہ کردیا گیا۔ زیادہ لاگت سے حاصل ہونے والا تیل سستا بیچ کر نقصان اٹھانے کے ساتھ نہ بکنے والے ’فالتو‘ تیل کو ذخیرہ کرنا ایک عذاب بن گیا۔ زمین پر موجود ذخائر، ٹینکرز اور سمندروں میں محوِ خرام تیل بردار جہاز بھی لبالب بھرگئے جن کا کوئی خریدار نہیں۔ دوسری طرف کنووں سے پیداوار برابر آتی رہی، اور جب ذخیرے کی گنجائش ختم ہوگئی تو فروخت نہ ہونے والا تیل رکھنے کے لیے کرائے پر ٹینکر حاصل کیے گئے، اور نوبت یہاں تک آگئی کہ ٹینکروں کا کرایہ تیل کی قیمت سے زیادہ ہوگیا، چنانچہ تیل اونے پونے بکنے لگا، اور جب کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہ ہوا تو آڑھتیوں نے تیل کو ٹھکانے لگانے کے پیسے دینے شروع کردیے۔ یعنی خریدار سے قیمت وصول کرنے کے بجائے جان چھڑانے کے لیے اسے تیل اٹھانے کا معاوضہ دیا جانے لگا، اور اسی بنا پر قیمت منفی ہوگئی۔ یہ بندوبست مارچ میں کیے جانے والے سودے کے لیے تھا۔ 20 اپریل سے مئی Deliveryکے سودے 22 ڈالر فی بیرل ہورہے ہیں۔ تاہم خیال ہے کہ چند دنوں میں مئی کے وعدے بھی سستے ہوجائیں گے۔
یہ تو تھا 20 اپریل یا ’سیاہ سوموار‘ کا قصہ۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ WTIکے زوال سے تیل کی عالمی قیمتوں پر براہِ راست کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ WTI کا 70 فیصد حجم امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔ Shale یا سلیٹی چٹانوں سے حاصل ہونے والی گیس اور تکثیفی تیل یا Condensate سے بننے والی LNG یورپ کو برآمد کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس کے اختتام پر 3 سے 4 لاکھ بیرل WTI چین برآمد بھی ہوا، لیکن اِس سال کے آغاز سے امریکی تیل کی برآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
WTI پر بجلی اُس وقت گری ہے جب صدر ٹرمپ کی کوششوں سے اوپیک اور روس اپنی مجموعی پیداوار میں 97 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی پر متفق ہوچکے ہیں۔ برازیل، امریکہ، کینیڈا اور ناروے بھی اپنی پیداوار 37 لاکھ بیرل کم کررہے ہیں، جس کا مطلب ہوا کہ یکم مئی سے دنیا کی مجموعی پیداوار 8 کروڑ 36 لاکھ بیرل ہوجائے گی، لیکن یہ حجم بھی کھپت سے تقریباً 2 کروڑ بیرل زیادہ ہوگا۔ خیال ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لاک ڈائون میں نرمی سے تیل کی طلب میں 50 لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ ہوگا، اور اگر حالات اسی طرح درست سمت میں بڑھتے رہے تو جولائی اگست تک صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی بنا پر طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا ہوجائے گا۔
WTI کے اس غیر معمولی زوال اور بے قدری کا نفسیاتی اثر تیل کی عالمی منڈی پر بھی محسوس ہورہا ہے۔ برینٹ کی قیمتیں دبائو کا شکار ہیں، اور جیسا ہم نے پہلے عرض کیا WTIکی دیکھا دیکھی چند ہی گھنٹوں بعد برینٹ 6 فیصد سستا ہوگیا۔ اوپیک باسکیٹ کی قیمتیں فی الحال مستحکم نظر آرہی ہیں، لیکن اس کا زوال بھی خارج از امکان نہیں۔ اطلاع کے مطابق سعودی عرب پاکستان کو 4 ڈالر فی بیرل کی رعایت دے رہا ہے، اور گزشتہ ہفتے جو تین ٹینکر سعودی تیل لے کر کراچی آئے ہیں، ان پر لدے تیل کی قیمت 16 ڈالر فی بیرل ادا کی گئی ہے۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ یکم مئی سے ایک کروڑ 31 لاکھ بیرل کٹوتی پر عمل درآمدکا تیل کی قیمتوں پر کیا اثر پڑے گا؟ لیکن اصل مسئلہ فروخت نہ ہونے والے تیل کا ذخیرہ یا Inventoryہے جو 4 کروڑ بیرل سے تجاوز کرچکا ہے، اور جب تک یہ حجم تحلیل نہ ہو، قیمتوں میں استحکام ذرا مشکل نظر آرہا ہے۔ پُرامید ماہرین کے خیال میں اگر جون تک صنعتی و سیاحتی سرگرمیوں میں توقع کے مطابق اضافہ ہوگیا تو کھپت بڑھنے کی صورت میں طلب و رسد میں پیدا ہونے والا توازن قیمتوں پر دبائو کو کم کرسکتا ہے۔
سعودی عرب اور روس کے درمیان قیمتوں کی جنگ سے امریکی تیل کی صنعت کو جو نقصان پہنچا ہے اُس پر امریکہ میں سعودی عرب کے خلاف شدید ردعمل ہے۔ صدر ٹرمپ کے دبائو پر سعودی عرب اپنی تیل کی پیداوار میں بھاری کٹوتی پر تیار ہوگیا، لیکن ظالم محبوب راضی ہوتا نظر نہیں آرہا۔ 9 اپریل کو صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی اور امریکی ریاست لوزیانا سے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر بل کیسیڈی (Bill Cassidy) نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی ہے جس کے تحت سعودی عرب سے امریکی فوج فوری طور پر واپس بلالی جائے گی۔ سینیٹر صاحب کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے بڑی مقدار میں تیل کی برآمد نے امریکی تیل کمپنیوں کو دیوالیے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ اپنی قرارداد میں سینیٹر کیسیڈی نے کہا کہ دوستی یک طرفہ نہیں چل سکتی، یہ ممکن نہیں کہ ہمارے بچے سر سے کفن باندھ کر سعودی بادشاہت کا تحفظ کریں اور ریاض تیل کے سیلاب میں ہماری صنعت کو ڈبونے کی فکر میں ہو۔ بل کے مطابق اس کی منظوری کے بعد دس روز کے اندر سعودی عرب کے تیل پر بھاری محصولات بھی عائد ہوجائیں گے۔
دلچسپ بات یہ کہ فوج کی واپسی کے باوجود سعودی عرب میں نصب امریکی پیٹریاٹ میزائل نہیں ہٹائے جائیں گے، یعنی اربوں ڈالر سالانہ کرایہ جاری رہے گا۔ اس بل کی فوری منظوری کا کوئی امکان نہیں، کہ امریکی مقننہ کورونا وائرس کے نتیجے میں آنے والی کساد بازاری کے منفی اثرات سے نمٹنے کے اقدامات میں بہت مصروف ہے۔
WTI کی قیمتوں کے صفر سے نیچے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کی تیل پیدا کرنے والی ایک ریاست شمالی ڈکوٹا سے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر کیون کریمر نے ایک بار پھر امریکہ کے لیے سعودی تیل کی درآمد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر تبصرہ کرتے ہوئے پیر کو کورونا وائرس کی یومیہ بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سعودی تیل کی درآمد ختم کرنے پر غور کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ انھوں نے ساڑھے سات کروڑ بیرل مقامی تیل خرید کر تزویراتی پیٹرولیم ذخیرے یا SPRکو بھرنے کا عندیہ بھی دیا۔
1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران جب سعودی فرماں روا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکہ اور مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگادی تھی، اُس وقت امریکیوں نے عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے۔ ایک طرف ملک کے اندر تیل و گیس کے وسائل کی تلاش و ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے، تو دوسری جانب خام تیل کا ایک عظیم الشان ذخیرہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا، جسے SPR کا نام دیا گیا۔ خلیج میکسیکو میں زیرآب اور لوزیانا کے ساحل پر اُن کنووں میں کہ جن سے تیل و گیس حاصل کی جاچکی ہے، تیل ذخیرہ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ اس قسم کے چار ذخائر میں مجموعی طور پر71 کروڑ بیرل تیل محفوظ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ذخیرے کی حکمت کچھ اس طرح ہے کہ تیل کی قیمت کم ہو تو اسے بھر لیا جاتا ہے، اور جب قیمت بہت زیادہ بڑھنے لگے تو اس ذخیرے میں محفوط تیل کو بازار میں لاکر غبارے میں سوئی چبھو دی جاتی ہے۔ اس وقت یہاں ذخیرہ کیے گئے تیل کا حجم 63 کروڑ پچاس لاکھ بیرل ہے۔ تیل کی خریداری کے لیے صدر ٹرمپ کو کانگریس سے 3 ارب ڈالر منظور کرانے ہوں گے، اور ڈیموکریٹس کی جانب سے اس کی کی مخالفت خارج از امکان نہیں۔
21 اپریل کو اپنے ایک جذباتی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم اپنی تیل کی صنعت کو بے یارومددگار نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ اپنے وزیر توانائی اور وزیرخزانہ کو ہدایت کررہے ہیں کہ اس عظیم صنعت کے دفاع اور اس سے وابستہ کارکنوں کی نوکریاں بچانے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائیں۔
سعودی تیل کی امریکہ آمد پر پابندی ریاض کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ دوسال پہلے تک سعودی عرب امریکہ کو 10 لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کرتا تھا۔ یہ مقدار اب سکڑ کر 4 لاکھ بیرل رہ گئی ہے۔ ایک کروڑ بیرل تیل پیدا کرنے والے ملک کے لیے 4 لاکھ بیرل کوئی بڑی مقدار نہیں، لیکن کساد بازاری کے اس دور میں یہ بھی بہت اہم ہے۔ ایک طرف تیل کی قیمتیں زوال کا شکار ہیں تو دوسری طرف سعودی آمدنی کا دوسرا بڑا ذریعہ یعنی حج وعمرہ بھی معطل ہے۔ اس پس منظر میں امریکی منڈی سے بے دخلی سعودیوں کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق پچاس لاکھ بیرل سعودی تیل سے لدے ٹینکر امریکہ کی جانب محوِ سفر ہیں۔ اگر صدر نے پابندی لگادی تو شاید ان جہازوں کو تیل اتارے بغیر واپس جانے کا اشارہ کردیا جائے۔
سعودی عرب کے ماہرِ توانائی اور آرامکو کے سابق ایگزیکٹو نائب صدر صداد الحسینی نے 21 اپریل کو CNBC سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ WTIکی تباہی سے سعودی تیل کی قیمتوں پر کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑے گا کہ اس کی خرید و فروخت امریکہ تک محدود ہے، اور اوپیک باسکیٹ کی قیمت برینٹ سے وابستہ ہے۔ جناب حسینی یورپ میں لاک ڈائون کی نرمی کو تیل کے مستقبل کے لیے اچھا شگون سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کورونا کے خاتمے پر تباہ حال معیشت کی بحالی کے لیے تیل کی بڑی مقدار درکار ہوگی جس کی وجہ سے فروخت نہ ہونے والا ذخیرہ (Inventory)جلد تحلیل ہوجائے گا۔ انھیں توقع ہے کہ اِس سال کے آخر میں تیل کی قیمتیں 40 سے 45 ڈالر فی بیرل کے درمیان رہیں گی۔
تیل کی قیمتوں میں متوقع کمی کو چین بہت دلچسپی سے دیکھ رہا ہے جو تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ بیرل تیل یومیہ درآمد کرتا ہے۔ کورونا وائرس سے اس کی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی اور تعمیرنو کے لیے بیجنگ بے حد پُرعزم اور سنجیدہ ہے۔ اس موقع پر سستے تیل کی فراہمی چین کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں، اور یہی بات چچا سام کو پریشان کیے دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لیے ذاتی طور پر سرگرم ہیں۔ وہ سعودی عرب اور روس سے برابر رابطے میں ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے سعودی و روسی وزرائے تیل نے فون پر گفتگو کے بعد تیل کی پیداوار میں مزید کٹوتی کا عندیہ دیا تھا، جس کے بعد روسی تیل کمپنی لوک آئل (Luk Oil) نے یومیہ پیداوار میں 2 لاکھ 90 ہزار بیرل کمی کا اعلان کردیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوئی بڑا حادثہ یا غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا تو اگلے سال کے وسط تک تیل کی قیمتوں میں بھاری اضافے کا کوئی امکان نہیں۔
کم قیمت پر دستیاب تیل سے پاکستان زبردست فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے فوری اور دوررس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات اور LNGکی قیمتوں میں کمی کرکے بجلی اور گیس سستی کی جاسکتی ہے، جس سے عوام کو راحت نصیب ہونے کے ساتھ صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوگی جو برآمدات بڑھانے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے مشکلات کا شکار خدمت رساں ادارے اپنے زنگ کھاتے اوزار و آلات کے لیے کرم فرما تلاش کررہے ہیں، جس سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کنووں کی کھدائی اور تلاش وترقی کے کام کو مہمیز لگانے کا مناسب وقت ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ کی طرز پر پاکستان کو بھی تیل کا تزویراتی ذخیرہ بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک صبر آزما کام ہے جو جامع منصوبہ بندی کا متقاضی ہے، اس کام کے لیے درکار استعداد، صلاحیت اور وسائل پاکستان میں موجود ہیں، اور سرکار کی حوصلہ افزائی سے یہ کام فوری طور پر شروع ہوسکتا ہے۔
………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔