پاکستان کی جانب سے بھارتی رویے کی مذمت بجا، مگر معاملات اب مذمت سے آگے بڑھ گئے ہیں
کورونا کی وبائی صورتِ حال کے باوجودکشمیر کی کنٹرول لائن خونیں تصادم، معرکہ آرائیوں اور روح فرسا کہانیوں کی لکیر بنی رہی، اور دوطرفہ گولہ باری نے کنٹرول لائن کو بدستور گرم رکھا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق ڈی جی سائوتھ ایشیا زاہد حفیظ چودھری نے اسلام آباد میں مقیم بھارتی ناظم الامور گرواہوالیا کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے کنٹرول لائن پر ہونے والی بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج کیا۔ بھارتی سفارت کار کو بتایا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے 12 اپریل کو کنٹرول لائن کے دودنیال، رکھ چکری، چڑ ی کوٹ اور بروہ سیکٹر پر بلااشتعال فائرنگ کی جس میں دو سال کا بچہ شہید اور چار افراد زخمی ہوئے۔ بھارتی نمائندے کو بتایا گیا کہ بھارت کنٹرول لائن پر تنائو بڑھا کر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ بھارت کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی علاقائی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔
بھارتی سفارت کار سے رسمی احتجاج بھی سفارت کاری کا ایک انداز سہی، مگر پاکستان اور بھارت کے معاملات رسمی احتجاج سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں۔ جس دن دودنیال سیکٹر میں بھارتی گولہ باری سے دو سال کا معصوم شہید ہوا، عین اُسی دن کپواڑہ میں کنٹرول لائن سے 32 میل دور ریڈی قصبے میں سات سال کا ایک بچہ گولہ لگنے سے شہید ہوا، جس پر بھارتی فوج نے یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی کہ یہ بچہ پاکستان کی کارروائی میں شہید ہوا ہے۔ مگر کنٹرول لائن سے میلوں کی مسافت پر پاکستان کی گولہ باری سے نقصان ہونا ایک عجیب سی بات تھی۔ یہ حقیقت اُس وقت عیاں ہوئی جب اس قصبے کے مکینوں، بالخصوص شہید ہونے والے بچے کی چچی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ گولے بھارتی فوج نے داغے تھے۔ انہوں نے کنٹرول لائن کی سمت اُس جنگل کی جانب اشارہ کیا جہاں بھارتی فوج موجود ہے۔ اس طرح ایک اور ویڈیو میں اسی علاقے میں مقامی لوگوں کو جن میں خواتین بھی شامل تھیں، ایک وسیع میدان میں جمع ہوکر احتجاج کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ لوگ اس گرائونڈ میں بھاری توپیں یعنی بوفرز تنصیب کرنے کے خلاف احتجاج کررہے تھے، اور بھارتی فوجی ان مظاہرین کو ڈرا دھمکا رہے تھے۔ یہ صورتِ حال خطے میں کشیدگی کے ایک نئے دور کے آغاز کا اشارہ ہے۔ جو بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو قتل کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرتی اُسے کنٹرول لائن کے اندر ہی مقبوضہ کشمیر کے باشندوں پر گولہ باری کرنے میں کیا ہچکچاہٹ ہوسکتی ہے! اصولی طور پر مقبوضہ کشمیر میں بچے کی شہادت پر بھی بھارتی ناظم الامور سے احتجاج ہونا چاہیے تھا ایسے میں جب خود بچے کے لواحقین نے اس گولہ باری کا الزام بھارتی فوج پر عائد کیا ہے۔ یہاں احتجاج کرنے والوں نے الزام عائدکیا ہے کہ بھارت عام کشمیریوں کو ’’ہیومن شیلڈ‘‘ کے طور پر استعمال کررہا ہے، اس کے لیے گنجان آبادیوں کے قریب ’’بوفرز‘‘ توپیں نصب کی جا رہی ہیں۔ ان توپوں سے جب آزادکشمیر پر گولہ باری ہوگی تو جواب میں پاکستانی فوج بھی انہیں تلاش کرکے نشانہ بنانے کی کوشش کرے گی، اور اس کے نتیجے میں نشانہ خطا ہونے کی صورت میں نقصان عام لوگوں کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔ بھارت کے رویّے کی مذمت بجا، مگر معاملات اب مذمت سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ بھارت کی مرمت بھی مذمت کے پہلو بہ پہلو جاری رہنا ضروری ہے۔
کشمیر میں پانچ اگست کے بعد ایک نئی صورت گری ہونے کو ہے۔ جہاں بھارت نے پانچ اگست کے بعد کی صورتِ حال کو سنبھالا دینے کے لیے ’’اپنی پارٹی‘‘ کے نام کی جماعتیں بنوانا شروع کی ہیں اور نئے چہروں کو نئے انداز سے پیش کرنا شروع کیا ہے، وہیںگزشتہ دنوں ملنے والی خبروں کے مطابق مقبوضہ علاقے میں تحریک ملّتِ اسلامی جموں وکشمیر کے نام سے ایک نئی مسلح تنظیم وجود میں آچکی ہے، جبکہ اس سے پہلے بھارتی میڈیا نے خبر دی تھی کہ کشمیر میں جموں وکشمیر فائٹرز اور دی ریزسٹنس فرنٹ کے نام کی نئی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں۔ ان تنظیموں میں مقامی نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں۔ بھارتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ریزسٹنس فرنٹ لشکرِ طیبہ کا نیا نام ہے، جبکہ تنظیم نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے کئی علاقوں میں بھارتی فوج کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ کپواڑہ سیکٹر میں ایک جھڑپ 6 دن تک جاری رہی۔ اس جھڑپ میں پانچ حریت پسند شہید ہوئے جبکہ پانچ بھارتی فوجی بھی مارے گئے۔ اس طرح کی کارروائیاں کئی دوسرے مقامات پر بھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح اب حریت پسندوں کی سرگرمیاں دوبارہ جموں اور پونچھ تک وسیع ہورہی ہیں۔ یہ بکھرے ہوئے واقعات مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے دور کے آغاز کا پتا دے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں کوئی اچنبھا بھی نہیں، کیونکہ بھارت نے پانچ اگست کو کشمیریوں کی رہی سہی امید بھی غرقاب کردی ہے۔ اب ان کی مایوسی اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ جب کسی قوم سے امید چھن جائے تو وہ مزاحمت اوربغاوت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے۔ پانچ اگست کے بعد کشمیری ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے مقام پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے بھارت کے عزائم کا جواب پوری قوت سے نہ دیا تو کشمیر میں ایک اور غرناطہ کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ بھارت کے عزائم اور ارادوں سے بھی یہی کچھ مترشح ہے۔ مودی جس مائنڈ سیٹ کے نمائندے اور ترجمان ہیں اس میں مسلمانوں کے لیے عزت اور عافیت کی کوئی جگہ نہیں۔
آج دنیا کا مسئلہ نمبر ایک کورونا وائرس اور اس کی تباہ کاریاں ہیں، مگر جنوبی ایشیا کا مسئلہ اوّل اِس وقت بھی کشمیر ہے۔ کشمیر کی سرزمین پر ایک جنگ جاری ہے جو آنے والی کئی جنگوں اور حادثات کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ دنیا نے اس کا احساس نہ کیا توجنوبی ایشیا کا مستقبل زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتا۔