کورونا کے آئینے میں اُمّتِ مُسلمہ کی اجتماعی اور روحانی ناکامی کا عکس

بڑے چیلنج بڑے پیمانے پر رائے سازی کادر کھولتے ہیں۔ بدقسمتی سے امت کے حکمرانوں، علماء اور دانش وروں نے کورونا کے چیلنج کے حوالے سے رائے سازی کا کوئی در وا نہیں کیا

کو ر ونا وائرس کی عالمگیر وبا صرف مغرب کے لیے آئینہ نہیں ہے، یہ وبا امتِ مسلمہ کے لیے بھی آئینہ ہے۔ اس آئینے میں کورونا کے حوالے سے امتِ مسلمہ کی اجتماعی روحانی ناکامی کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ناکامی کیا ہے؟
ہر دین، ہر فلسفے اور ہر نظامِ حیات کے کچھ اساسی تصورات اور کچھ بنیادی ذرائع یا Sources ہوتے ہیں، چنانچہ اس دین، اس فلسفے، اس نظامِ حیات کو ماننے والے انہی تصورات اور ذرائع کی روشنی میں پوری زندگی کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کو اصولی طور پر قرآن و سنت، احادیثِ مبارکہ، صحابہ کے طرزِ فکر و عمل اور اسلام کے مستند شارحین کی فکر میں پیوست ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی زندگی روحانی اور علمی طور پر نہ خدا مرکز ہے، نہ سیرت مرکز ہے، نہ قرآن مرکز ہے، نہ حدیث مرکز ہے… یہاں تک کہ اب ہم اپنے بڑے علماء اور صوفیہ کی فکر سے استفادہ کرنے والے بھی نہیں رہ گئے ہیں۔ چنانچہ ہم سیرتِ طیبہؐ سے متعلق یہ مشہور بات بھی بھول گئے ہیں کہ جب کچھ تیز بارش ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوجاتے کہ یہ کہیں آزمائش یا عذاب کی کوئی صورت تو نہیں؟ چنانچہ آپؐ اللہ رب العزت سے دعا فرماتے کہ ہمارے لیے بارش کو رحمت بنا دے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں ایک سال ٹڈی دل نہ آیا تو حضرت عمرؓ کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے دور دراز کے علاقوں میں آدمی بھیج کر معلوم کرایا کہ ان علاقوں میں بھی ٹڈی دل آیا ہے یا نہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ ان علاقوں میں ٹڈیاں موجود ہیں۔ اس پر آپؓ نے اطمینان کا سانس لیا۔ کسی نے اس سلسلے میں استفسار کیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ قیامت سے پہلے ٹڈیاں نابود ہو جائیں گی۔‘‘
قرآن مجید فرقانِ حمید صاف کہتا ہے کہ انسانوں پر جو مصیبت آتی ہے وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ دوسری طرف قرآن نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں اور اہلِ ایمان کو مصائب و آلام میں مبتلا کرکے آزماتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسانوں کو لاحق ہونے والے شدائد اور مصائب یا تو اہلِ ایمان کی آزمائش ہوتے ہیں یا پھر سزا کی صورت ہوتے ہیں۔ افسوس امتِ مسلمہ کو کورونا کی عالمگیر وبا کے حوالے سے نہ تو یہ خیال آیا کہ یہ آزمائش تو نہیں؟ اور نہ امت کو یہ گمان گزرا کہ کہیں یہ ہماری شامتِ اعمال اور عہدِ حاضر کے نمرودوںاور فرعونوں کی پکڑ تو نہیں؟ امت کے اقتدار کی علامت قومی ریاستیں ہیں، مگر نہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ریاست مدینہ کے علَم بردار عمران خان نے اس سلسلے میں کوئی مذہبی یا روحانی مؤقف اختیار کیا، نہ مکہ اور مدینہ کے والیوں نے اس سلسلے میں کوئی مذہبی یا روحانی تناظر اختیار کیا۔نہ اسلامی انقلاب کی علامت ایران کو یہ خیال گزرا کہ اس طرح کے معاملات میں قرآن و سنت سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ نے قرآن و سنت، احادیثِ مبارکہ اور صحابہ کے طرزِ فکر و عمل کو ترک تو نہیں کیا، لیکن یہ چیزیں نہ امتِ مسلمہ کا ’’زندہ حافظہ‘‘ ہیں، نہ ’’زندہ علم‘‘ ہیں۔ یہ چیزیں نہ امتِ مسلمہ کے ’’دلائل‘‘ ہیں، نہ امتِ مسلمہ کا ’’تناظر‘‘ ہیں۔ بہترین زمانوں کا تجربہ اور علم بتاتا ہے کہ اُن زمانوں میں جو لوگ ’’آزمائش‘‘ کا شکار ہوتے تھے انہیں اپنی آزمائش کا ’’سبب‘‘ معلوم ہوتا تھا، اور جب لوگوں پر کوئی ’’سزا‘‘ مسلط کی جاتی تھی، وہ اس سزا کے محرک سے آگاہ ہوتے تھے۔ مگر اِس وقت امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ نہ اپنی اس خوبی سے آگاہ ہے جس کی وجہ سے اسے ’’آزمائش‘‘ میں مبتلا کیا جاسکتا ہے، اور نہ وہ اپنی اور اہلِ مغرب کی اُن گمراہیوں اور انحرافات کا شعور رکھتی ہے جن کی وجہ سے دنیا پر کورونا جیسی سزا مسلط کی جاسکتی ہے۔ اس وقت بساطِ عالم پر امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ توحید اور رسالت کی امانت صرف امت کے پاس ہے۔ آسمانی کتاب صرف امتِ مسلمہ کی زندگی کا مرکزی حوالہ ہے۔ دنیا کی دوسری امتیں یا تو خدا اور اس کی کتاب کو چھوڑ چکی ہیں، یا انہوں نے شرک ایجاد کرکے زمینی خدائوں کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے ہیں۔ مگر امت کی عظیم اکثریت کا جرم یہ ہے کہ وہ شہادتِ حق کے فرض سے غافل نظر آتی ہے۔ نہ وہ حق کے اثبات کا حق ادا کررہی ہے، اور نہ باطل کے انکار کا حق ادا کررہی ہے، بلکہ امت میں ایسے حکمران، بادشاہ، جرنیل، دانشور، یہاں تک کہ علماء موجود ہیں جو باطل کے آگے سربسجود ہیں، یا اُس کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے آرزومند ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ امت میں ایسے کروڑوں لوگ ہیں جو باطل کے تاج محل میں ایک جھگی ڈالنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں۔ امت زبان سے ضرور کہتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی عاشق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امت کی عظیم اکثریت دنیا کے عشق میں مبتلا ہے۔ وہ کہیں طاقت کے بت کو پوج رہی ہے، کہیں سرمائے کے بت کے گلے میں بانہیں ڈالے کھڑی ہے، کہیں اسے شہرت کے لیے بے تاب دیکھا جارہا ہے، کہیں وہ عہدوں اور مناصب کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ اس طرح پوری امت کی شخصیت دو نیم ہوچکی ہے۔ ہماری فکر میں خدا اور رسولؐ کا ذکر ہے، اور ہمارا ہر عمل دنیا کے لیے ہے۔ شخصیت کی اس دولختی یا Split Personalityنے امت کو نہ دین کے لائق چھوڑا ہے، نہ دنیا کے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دنیا غالب ہے اور دین مغلوب۔ ایسی امت کے ساتھ جو ہوجائے قابلِ فہم ہے۔
کورونا کی وبا کے سلسلے میں امت ِ مسلمہ کی دوسری روحانی ناکامی یہ ہے کہ اس نے کورونا کے سلسلے میں سیکولر بیانیے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ امریکہ نے کہا کہ کورونا وائرس چینی اور ووہان وائرس ہے تو مسلمانوں کی بڑی تعداد اس بیانیے کو دہراتی نظر آئی۔ چین نے کہا کہ کورونا دراصل امریکی فوج نے پھیلایا، تو ہمارے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس مؤقف کی جگالی کرتی نظر آئی۔ مغرب سے یہ اطلاع آئی کہ کورونا دراصل چمگادڑ وغیرہ کا گوشت کھانے سے پھیلا، تو ہمارے یہاں یہ بات بھی بڑے پیمانے پر زیر بحث آئی۔ امت ِ مسلمہ بالخصوص پاکستان میں نظریۂ سازش کے ریڑھے لگانے والے بھی موجود ہیں، چنانچہ ان کے ریڑھوں پر بھی کچھ لوگ مکھیوں کی طرح بھنبھناتے نظر آئے۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جنہیں امریکہ بھی طاقت ور نظر آتا ہے اور چین بھی قوی دکھائی دیتا ہے، جنہیں یہودی لابی کی طاقت پر بھی بھروسا ہے اور فری میسنز کے حامیوں کی طاقت بھی جنہیں مرعوب کرتی ہے، مگر انہیں اگر کوئی طاقتور نظر نہیں آتا تو وہ خدا ہے۔ خدا کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کبھی افراد، گروہوں اور قوموں کی صرف گرفت کرتا ہے، کبھی انہیں آزمائش میں ڈالتا ہے، کبھی سخت سزا دیتا ہے، اور کبھی یکسر فنا کردیتا ہے۔ اسلامی لٹریچر ان چاروں قسم کے واقعات سے بھرا ہوا ہے، مگر امت ِمسلمہ کو اس لٹریچر میں سے کچھ یاد نہ آیا۔ اسے قابلِ قبول اور قابلِ غور معلوم ہوا تو سیکولر بیانیہ، جو زندگی کو جزا اور سزا کے تناظر میں دیکھتا ہی نہیں۔ یہ امتِ مسلمہ کی غلامانہ نفسیات کی ایک بہت ہی بڑی مثال ہے۔ غلامانہ نفسیات کے بارے میں اقبالؒ نے ایک بنیادی بات کہہ رکھی ہے۔ اقبال نے کہا ہے:۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

اقبال کہہ رہے ہیں کہ غلامی جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، صرف سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ اتنی ہولناک چیز ہے کہ اس سے افراد کیا قوموں کے ضمیر بدل کر رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غلاموں کو آقائوں کے عیب بھی ہنر نظر آنے لگتے ہیں اور انہیں اپنے ہنر میں بھی عیب دکھائی دینے لگتا ہے۔ برصغیر میں اس کا سب سے بڑا ثبوت سرسید ہیں۔ سرسید نے غلامانہ ذہنیت کے زیر اثر قرآن کے تمام معجزات کا انکار کرکے قرآن کا انکار کیا۔ انہوں نے علم ِ حدیث کو ناقابلِ اعتبار گردانا۔ انہوں نے مسلمانوں کے پورے تفسیری علم کو مسترد کردیا۔ انہوں نے فقہ کی پوری روایت پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تمہارے علوم و فنون بے کار ہیں، پڑھنا ہے تو مغرب کے علوم و فنون پڑھو۔ انہوں نے فرمایاکہ عربی، فارسی اور اردو میں کیا دھرا ہے، سیکھنا ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ انہوں نے غلامی کو اس حد تک Celebrate کیا کہ انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی رحمت قرار دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ انگریزوں کے وفادار بن کر رہو۔ سرسید تو خیر غلامانہ ذہنیت کا پہاڑ تھے، برصغیر کے علماء تک پر غلامی کے تجربے کا اتنا گہرا اثر تھا کہ انہوں نے یہ بات تسلیم کرلی تھی کہ اسلام اب عقائد، عبادات اور اخلاقیات تک محدود ہوگا۔ ریاست، سیاست، معیشت، آرٹ اور کلچر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ حالانکہ اسلام تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ علماء نے برصغیر میں جو دینی مدارس قائم کیے انہوں نے دینی علوم کے تحفظ اور ترسیل کے سلسلے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا، اس پر علماء کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ مگر یہ دینی مدارس دفاعی نوعیت کے حامل تھے، ان پر اقدامی نفسیات یا Initiatve کی نفسیات کا غلبہ نہ تھا۔ چنانچہ ان اداروں میں وہ نفسیات پروان نہ چڑھ سکی جو عہدِ حاضر کے باطل کو سمجھنے والی اور اس پر حملہ کرنے والی ہو۔ باطل پر حملے کی نفسیات کیا ہوتی ہے، کسی کو یہ دیکھنا ہو تو اُسے اکبر الٰہ آبادی اور اقبال کی شاعری اور مولانا مودودیؒ کے علمِ کلام سے رجوع کرنا چاہیے۔ حملے کی نفسیات کے تحت اکبر الٰہ آبادی نے کہا:۔

مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اُڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے

اقبال نے کہا:۔

دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’مغرب جاہلیتِ خا لصہ ہے، مغرب باطل ہے، مغرب تخمِ خبیث ہے، مغرب شجرِ خبیث ہے۔‘‘ ان باتوں کا زیرِبحث موضوع سے یہ تعلق ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے سلسلے میں امتِ مسلمہ کی عظیم ترین اکثریت نے مغرب اور مغربی فکر کے زیراثر لوگوں کے بیانیے کو پیش کیا، اسے آگے بڑھایا۔ مصر کی جامعہ الازہر کو ہر سلسلے میں فتوے دینے کا شوق ہے، مگر اسے بھی کورونا کے حوالے سے یہ خیال نہ آیا کہ کورونا کہیں خدا کی ناراضی کا اظہار تو نہیں؟ کہیں خدا اس وبا کے ذریعے اہلِ ایمان کو آزما تو نہیں رہا؟ کہیں خدا کورونا کے ذریعے عہدِ حاضر کے نمرودوں اور فرعونوں کو اُن کی اوقات تو یاد نہیں دلا رہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کورونا کی عالمگیر وبا کسی بہت ہی بڑی عالمگیر تبدیلی کا نقطۂ آغاز یا اس کی علامت ہو؟
ہمارے زمانے تک آتے آتے ذرائع ابلاغ ایسا ’’جادو‘‘ بن گئے ہیں کہ ان کے آگے سامری کا جادو بچوں کا کھیل ہے۔ ذرائع ابلاغ کی طاقت یہ ہے کہ وہ سفید کو سیاہ کہنے لگتے ہیں تو ساری دنیا سفید کو سیاہ سمجھنے لگتی ہے، ذرائع ابلاغ سیاہ کو سفید کہنے لگتے ہیں تو ساری دنیا سیاہ کو سفید کہنے لگتی ہے۔ اگر پاکستان کے پچاس ٹی وی چینل دن کے بارہ بجے یہ کہنے لگیں کہ اِس وقت رات کے بارہ بجے ہیں تو کروڑوں لوگوں کو اپنی آنکھوں اور اپنے حواس پر شبہ ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ پر سیکولر، لبرل اور مغرب پرست لوگوں کا قبضہ ہے، چنانچہ کورونا کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ پر صرف مغربی تناظر سے برآمد ہونے والا بیانیہ چھایا ہوا ہے۔ چنانچہ عوام کیا خواص، بلکہ خواص الخواص کی اکثریت بھی کورونا کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے بیانیے کو دہراتی نظر آتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو چار علماء کے سوا علماء نے بھی اس مسئلے کو قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں دیکھا۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ علماء اس ضمن میں ایک اجتماعی مؤقف اختیار کرکے پورے معاشرے کو اللہ سے رجوع ہونے پر مائل بھی کرتے اور مغرب کے زوال کی آرزو کو بھی پروان چڑھاتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علماء کی عظیم اکثریت نے جو کام گزشتہ دو سو سال میں نہیں کیا وہ اب کیوں کرتے؟ نتیجہ یہ کہ ہمارے عوام کی عظیم اکثریت اب تک کورونا، اس کے ممکنات اور مضمرات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے بیانیے ہی کو بچھا بھی رہی ہے اور اوڑھ بھی رہی ہے۔ یہ بھی امتِ مسلمہ کی اجتماعی روحانی اور علمی ناکامی کی ایک صورت ہے۔ بڑے چیلنج بڑے پیمانے پر رائے سازی کادر کھولتے ہیں۔ بدقسمتی سے امت کے حکمرانوں، علماء اور دانش وروں نے کورونا کے چیلنج کے حوالے سے رائے سازی کا کوئی در وا نہیں کیا۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کورونا کے حوالے سے جو بیانیہ ہمارے خواص کیا، خواص الخواص نے بھی پیدا نہیں کیا وہ بیانیہ ہمیں کئی اداکاروں کے انٹرویو میں نظر آیا۔ ذرا دیکھیے تو ہمارے اداکار وغیرہ کیا کہہ رہے ہیں۔
اداکارہ ریشم نے کہا کہ یہ وبا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لہٰذا سب صبر اور شکر کے ساتھ وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ نے ترقی یافتہ ملکوں بشمول امریکہ تک کو دکھا دیا کہ جس ترقی پر انہیں گھمنڈ تھا وہ اس مہین سے کورونا وائرس کے آگے بے بس ہے۔ اداکار محمود اسلم نے کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ان شاء اللہ یہ وقت بھی گزر جائے گا، مگر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، اپنے اعمال پر نظر ڈالنی چاہیے کہ ایسی کیا کوتاہی ہوئی کہ ہم پر کورونا کی صورت میں آفت نازل ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ کی طرف سے تنبیہ ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سدھرے تو شاید اس سے بھی بڑی آفات نازل ہوں۔ صرف دعائوں سے کچھ نہیں ہوگا، ہمیں اللہ کو عمل سے راضی کرنا ہوگا، جس کےلیے صدقِ دل سے اللہ کے احکامات اور سنتِ رسولؐ پر عمل ضروری ہے۔ اداکار قوی نے کہا کہ میری سب سے درخواست ہے کہ صبر و شکر سے وقت گزاریں، توبہ استغفار کریں، دلوں سے عداوتیں اور کدورتیں نکالیں، نماز پڑھیں، اللہ سے رجوع کریں۔ اداکارہ نشو نے کہا کہ کورونا وائرس سے لگتا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر جس طرح ظلم ڈھائے جارہے ہیں تو شاید کسی مظلوم کی دعا سے عرشِ الٰہی ہل گیا ہے۔ اداکار عرفان کھوسٹ نے کہا کہ کورونا سے معلوم ہوگیا ہے کہ انسان کی اوقات ہی کچھ نہیں، وہ جو رب کائنات ہے وہی تمام جہانوں کا مالک ہے۔ یہ وقت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے کا ہے۔ اداکار غلام محی الدین نے کہا کہ کورونا سے لگتا ہے کہ ہم اپنی ڈگر سے بہت ہٹ گئے تھے تب ہی یہ وبا نازل ہوئی۔ یقیناً اللہ ہم سے ناراض ہے، اب اسے راضی کرنا ہے۔ اداکار عدنان جیلانی نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب اللہ کی طرف سے عذاب آتا ہے تو روپیہ پیسہ سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے خاص نشانی ہے کہ اب بھی سدھر جائو۔ دنیا کے فرعونوں کے لیے یہ کتنا بڑا درس ہے۔ لہٰذا پروردگار کے سامنے گڑگڑا کر معافی مانگیں، اس سے رحم طلب کریں، اس کے جلال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے خوب گڑگڑائیں اور سب مل جل کر رہیں۔ (جنگ سنڈے میگزین۔ 19 اپریل 2020ء۔ صفحہ 8 اور 18)
زیربحث موضوع کے حوالے سے دیکھا جائے تو اداکاروں کے یہ خیالات ’’حیرت انگیز‘‘ ہیں۔ اس لیے کہ اداکاروں نے وہ بات کی ہے جو خواص کیا، خواص الخواص بھی نہیں کررہے۔ آخر اداکاروں نے یہ باتیں کیسے کیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مذہبی اعتبار سے اداکاروں کا تصورِ ذات یا Self Image اچھا نہیں ہوتا، ان کی بڑی تعداد ایک احساسِ جرم میں مبتلا ہوتی ہے، ایسے لوگ بڑی آزمائش یا بڑی ابتلا میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ ابتلا ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس علم اور تقویٰ کے تکبر میں مبتلا لوگ تصورات، خیالات اور الفاظ سے کھیلتے رہتے ہیں۔ آزمائش اور ابتلا کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں انسان کی مصنوعی شخصیت منہدم ہوجاتی ہے، اور آدمی اپنی اصل شخصیت کے زیراثر آجاتا ہے۔ چنانچہ پھر وہ، وہ بات کرتا ہے جو اُس کے دل کی بات ہوتی ہے۔ برصغیر کے سب سے بڑے اداکار دلیپ کمار سے ایک بار ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آپ کا کوئی خوف بھی ہے؟ کہنے لگے: ہاں ہے، اور وہ یہ کہ اگر میدانِ حشر میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ تم دنیا میں کیا کرتے رہے، تو میں اسے کیا جواب دوں گا؟ بدقسمتی سے ہمارے بڑے بڑے عالموںکو بڑھاپے میں بھی یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ خدا پوچھے گا دنیا میں کیا کرتے رہے، تو ہم اسے کیا جواب دیں گے؟
امتِ مسلمہ کی ایک بہت ہی بڑی روحانی و علمی ناکامی یہ ہے کہ اسے کورونا کی عالمگیریت میں اسلام کے ممکنہ غلبے کے عالمگیر امکانات نظر نہیں آرہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ میں کسی انقلاب کی کوئی گہری خواہش موجود نہیں۔ ایسا نہیں کہ امت ِ مسلمہ میں انقلابی پائے ہی نہیں جاتے، مگر بدقسمتی سے ان میں اکثریت ’’پارٹ ٹائم انقلابیوں‘‘ کی ہے۔ جس طرح لوگ شعر و شاعری سے دل بہلاتے ہیں اسی طرح پارٹ ٹائم انقلابی بھی اسلام اور اس کے ذکر سے دل بہلاتے ہیں۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ خود ان لوگوں کی زندگیوں میں کوئی انقلابیت موجود نہیں ہوتی۔ ان کی زندگیوں میں جو کچھ ہے وہ “Status Quo” کے عین مطابق ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے، بیانات اور تقریروں کو نہیں۔

کورونا اور ملکی معیشت تھنک ٹینک کا قیام

وفاقی حکومت نے کورونا کے ملکی معیشت پر اثرات اور حل سے متعلق جامع حکمت عملی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت کورونا کے باعث ملکی معیشت پر اثرات کے فوری جائزے کے لیے7 رکنی خصوصی تھنک ٹینک تشکیل دیا گیا ہے، جس کی نگرانی کا کام وزارتِ خزانہ کے سپرد کیا گیا ہے۔ معاشی تھنک ٹینک میں سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود، شوکت ترین، سلطان علی، ڈاکٹر عشرت حسین، عارف حبیب اور اعجاز نبی شامل ہیں۔ سیکرٹری خزانہ نوید کامران بلوچ تھنک ٹینک کے سیکرٹری ہوں گے۔