انسان کی عظمت و بڑائی کے گیت گانے والے شعرا اور قلم کار کہاں چلے گئے اور ان کے قلم کیوں چپ ہوگئے؟
پچھلے کئی ہفتوں سے پوری دنیا تشنج کی کیفیت کا شکار ہے۔ بازار، شاپنگ مال، سنیما گھر، کھیل کے میدان، سماجی محفلیں، اجتماعات… سبھی سنسان و ویران ہیں۔ ہر طرف موت کا سناٹا ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک برائے نام ہے۔ گاڑیاں گھروں کے سامنے یا گیراجوں میں بند ہیں۔ اسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے گنجائش نہیں رہی، اور جو مر جاتے ہیں اُن کے لیے مُردہ خانوں کے دروازے بند ہیں۔ سراسیمگی، خوف، تشویش اور گھبراہٹ میں گرفتار انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ کیسا وقت عالمِ انسانیت پہ آ پڑا ہے کہ جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے عاجز و مجبور ہے۔
میں گزشتہ ایک ماہ سے یہ سارا تماشا اپنے ٹیلی ویژن اور موبائل اسکرین پر دیکھ رہا ہوں، اور ہنس رہا ہوں کہ کیا انسان کو اب بھی اپنے عجز و مجبوری اور بے حقیقتی کا علم نہیں ہوسکا؟ اور اگر اب بھی نہیں ہوا تو پھر کب ہوگا؟ ابھی تو قدرت نے ایک بہت حقیر سا جرثومہ، جسے ’’کورونا وائرس‘‘ کا نام دیا گیا ہے، آسمان سے زمین کی طرف چھوڑا ہے، جس نے عالمی طاقتوں کو لرزہ براندام کردیا ہے۔ وہ عالمی طاقتیں جو زمین پر خدا بن چکی تھیں، اور جن کا اپنے بارے میں گمان تھا کہ وہ جو چاہیں کرسکتی ہیں۔ دنیا کو اپنی انگلی کے اشارے پر نچانے والے عالمی معاشی ادارے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، اقوام متحدہ اور ان کی ذیلی تنظیمیں… یہ سب کی سب خاموش تماشائی بنی ایک معمولی سے جرثومے کی پیدا کردہ تباہ کاریوں کو بے بسی سے دیکھ رہی ہیں اور کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی عظمت و بڑائی کے گیت گانے والے شعرا اور قلم کار کہاں چلے گئے اور ان کے قلم کیوں چپ ہوگئے؟ کیوں یہ اعلان نہیں کرتے کہ انسان عظیم ہوکر بھی کتنا مجبور و بے بس ہے کہ ایک غیر مرئی جرثومے سے شکست کھا گیا۔ ٹیلی ویژن اسکرین پر نمودار ہونے والی یہ تسلی کہ ’’کورونا وائرس سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ کس درجہ مضحکہ خیز ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ خدا سے ڈرنا ہے اور اُسی سے اس جرثومے سے پناہ مانگنی ہے تو بات قابلِ فہم ہوتی۔ ٹوٹے پھوٹے، مجبور و بے بس، اپنے گھروں میں خوف و سراسیمگی سے چھپے ہوئے انسانوں کو جرثومے سے نہ ڈرنے کی ہدایت کرنا ایسا ہی ہے جیسے درخت پر چڑھ کر پناہ لینے والے انسان کو یہ ہدایت دینا کہ آدم خور شیر سے لڑنا ہے، ڈرنا نہیں۔ اب گھر ہی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ Stay Home کے نعرے اور مصافحہ کرنے اور اپنے ہی جیسے کسی آدمی سے فاصلے پر رہنے کے مشورے، کیا دعوتِ فکر نہیں دیتے کہ ایسا کیوں ہے؟ اکیسویں صدی میں جنم لینے والی چُھوت کی یہ بیماری ایک طاقت ور لہر بن کر ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے تو یہ بیماری ہم سے کیا کہہ رہی ہے… کیا اب بھی ہم اپنا محاسبہ نہیں کریں گے، اپنے اندر جھانک کر دیکھنے کی ہمت پیدا نہیں کریں گے کہ یہ جو کچھ ہمارے اندر جمع ہوگیا ہے اور جس کی وجہ سے ساری دنیا بے چین و بے سکون ہوگئی ہے، اس پر ہم سوچیں، غور کریں کہ گھروںکے اندر اسی لیے محبوس اور مقید کر دیا گیا ہے یہی سوچنے اور غور کرنے کے لیے۔ مادی ترقی، دولت اور آسائشوں کے حصول کے لیے جس گھر کو ہم نے نظرانداز کردیا تھا، اپنے بیوی بچوں کو اُن کے جائز حقوق سے محروم کردیا تھا، اپنی محبتوں اور صحبتوں سے ناآشنا کرکے ہل من مزید میں خود کو گرفتار کررکھا تھا، اس جرثومے نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم گھروں کے اندر بند ہوکر، باہر نکلنے کی سہولت سے محروم ہوکر ایک بار پھر ذرا سوچ لیں کہ گھر ہی معاشرے کی بنیاد ہے۔ اگر گھر پُرسکون ہے تو معاشرہ پُرسکون ہے، اور گھر بے سکون ہے تو عالمی برادری بے سکون اور پریشان حال ہے۔ دلوں میں دوسروں کے لیے بغض اور نفرت رکھ کر، دوسروں کی طرف سے بے حسی اور لاپروائی برت کر محض رسمِ دنیا کو نبھانے کے لیے ہاتھ ملانا، مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنا منافقت اور عیاری نہیں تو اور کیا تھی! سو اس جرثومے نے سکھلایا کہ پہلے اپنے اندر کی کدورتوں کو دور کرو، چہرے کی جھوٹی اور نمائشی مسکراہٹوں کو ماسک کے پیچھے چھپا لو اور اُس وقت تک چھپائے رکھو جب تک تمہارا اندر صاف اور پوتر نہیں ہوجاتا، اور تمہاری مسکراہٹ اور ہنسی میں محبت اور خلوص کی سچائی شامل نہیں ہوجاتی۔ کیوں کہ جب تم دوسروںسے ہاتھ ملاتے ہو، اپنے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہو تو یہ جرثومہ جانتا ہے کہ ان باتوں کی حقیقت کیا ہے۔ اس لیے جرثومے نے ڈاکٹروں کے کانوں میں سرگوشی کی کہ ہاتھ ملانے سے روک دو، اور چہرے کے اُس حصے کو جہاں مسکراہٹ دوڑتی ہے، چھپا لینے کی ہدایت کردو… اور ہاں، گھروں سے باہر رہ کر تم اپنے ہاتھوں سے جتنے گندے کام کرتے ہوئے، جتنے گندے کھیل کھیل کر ان مقدس ہاتھوں کو گناہ گار کرتے ہو، جب گھر آئو تو پاک پانی سے انھیں اچھی طرح دھو ڈالو تاکہ سارے گناہ دُھل جائیں اور یہ گناہ گھر کی فضا کو بے سکون نہ کرسکیں۔ اس جرثومے نے کہا: خدا کے گھروںکو بھی پاکیزہ کرو۔ تمہارے سجدے بے روح، تمہاری عبادت مکروہ، اور خدا کے گھر تمہارا آنا اور اس طرح آنا کہ تمہارا ظاہر اجلا اور باطن پراگندہ ہو، اس جرثومے کو گوارا نہیں۔ تو اب دنیا بھر میں عبادت گاہیں ویران ہیں خواہ مسجد ہو یا مندر، چرچ ہو یا گوردوارہ۔ مولوی ملا، پنڈت اور پادری سبھی اس جرثومے کے آگے لاچار و بے بس ہیں۔
خدا کے بھیجے ہوئے اس جرثومے نے پوری دنیا کے نظامِ زندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ دنیا کی ایسی عبرت ناک حالت کب تک ایسی ہی رہے گی۔ یہ دنیا جو جزیروں میں بٹی ہوئی تھی، جس میں ایک طبقہ عیش و عشرت میں کھیلتا تھا اور دوسرا طبقہ مجبور و مفلوک الحال تھا، اب یہ دونوں طبقے ایک ہی اسٹیج پر ہیں۔ مجبور و بے پناہ موت فرق نہیں کرتی دولت مند اور غریب میں۔ جرثومہ کہتا ہے تم سب انسان ہو، جو طاقتور ہے وہ کمزور کا لحاظ کرے، اور جو کمزورہے وہ طاقتور کو بھی اپنے ہی جیسا سمجھے، کیوں کہ طاقتور بھی جرثومے کے سامنے کمزور ہے۔
کورونا وائرس کا جرثومہ دنیا کو تباہ و برباد کرنے نہیں آیا، وہ دنیا کو ٹھیک کرنے آیا ہے۔ وہ انسانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلانے آیا ہے۔ یہ سبق مت بھولو کہ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو، اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ مٹی پستی میں رہتی ہے، لہٰذا تم بہت بلند ہو کر بھی پست ہی رہو گے۔ پستی کا مطلب ہے کمزوری۔ پستی کا مطلب ہے نیچ، پست۔ پستی کا مطلب ہے عاجزی اور بندگی۔ پستی کا مطلب ہے Productivity ۔تم جو کچھ اناج اُگاتے ہو وہ زمین کے نیچے سے انتہائی پستی سے اُگاتے ہو۔ اور تم خود بھی انسانی بدن کے نچلے حصے سے پیدا ہوئے ہو، تو پستی ہی تمہاری پہچان ہے۔ ہاں یہ تمہاری روح ہے جو آسمانوں سے اتر کر تمہارے جسم میں آتی ہے، جیسے بارشیں آسمان سے برس کر برگ و بار لاتی ہیں، کھیتیاں اسی بارش سےلہلہاتی ہیں۔ دریا، چشمے، ندی نالے سب اسی بارش سے جل تھل ہو کر تمہاری کھیتیوں کو سرسبز و شاداب کرتے ہیں۔ تو پستی میں رہ کر، زمین پر بس کر آسمان کی طرف دیکھنا نہ بھولو۔ انسان زمین و آسمان کا مجموعہ ہے۔ زمین پہ وہ جنم لیتا ہے لیکن اسے زندگی آسمان سے ملتی ہے۔ آسمان سے اسے کاٹ دو گے تو ڈھور ڈنگر ہوجائو گے، اشرف المخلوقات نہ رہو گے۔ یہ جرثومہ آسمان ہی سے اترا ہے دنیا کو ٹھیک کرنے، انسان کو درست کرنے کے لیے۔ اسی لیے میرے دوست وسعت اللہ خان نے کتنا درست لکھا ہے کہ ’’کرّۂ ارض ضروری مرمت کے لیے بند ہے‘‘۔