حکومت اور عوام ….کرنے کے کام

پوری دنیا اب تک اس وبا کے خوف سے نہیں نکل سکی

پاکستان میں موبائل فون سروس پرکورونا سے متعلق آگاہی پیغام میں تبدیلی نے ایک بار پھر اہلِ وطن کو تشویش و پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ پیغام جو کئی ہفتوں سے اس طرح چل رہا تھا ’’کورونا وائرس کی وبا خطرناک ہے لیکن جان لیوا نہیں‘‘ اب تھوڑی تبدیلی کے بعد اس طرح چلایا جا رہا ہے ’’کورونا وائرس کی وبا خطرناک ہے اور جان لیوا ہوسکتی ہے‘‘۔ یہ معمولی تبدیلی چونکہ ابلاغی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے اس سے صورتِ حال کی سنگینی کا پیغام جاتا ہے، اور شاید یہی مقصود بھی ہے۔ اور اب تو ادارۂ عالمی صحت کے سربراہ نے زیادہ مشکل حالات کے لیے خبردار کیا ہے، جبکہ وزیراعظم عمران خان نے پیر کے روز اپنے ٹویٹ میں زیادہ احتیاط کی اپیل کی ہے۔
یہ بے یقینی صرف پاکستان میں نہیں، پوری دنیا اب تک اس وبا کے خوف سے نہیں نکل سکی، بلکہ خوف کے سائے مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اب تک صرف چین، روس اور شاید ایک دو دوسرے ممالک اس وبا کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ تاہم جہاں پریشان کن خبریں آرہی ہیں، وہیں امید افزا خبریں بھی ہیں۔ کورونا مریضوں کی بڑی تعداد میں صحت یابی، حفاظتی اقدامات میں کسی قدر کمی، اور موسم گرما میں درجہ حرارت بڑھنے سے اس وبا کے خاتمے کی امیدکی خبریں پریشان حال انسانیت کو حوصلہ دینے کا باعث بن رہی ہیں، لیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ یہ وبا تو بالآخر چند ہفتوں میں ختم ہوجائے گی لیکن اس کے بعد کیا ہوگا؟
آپ اس وبا کو اللہ کا عذاب کہیں، قدرت کی پکڑ شمار کریں، روئے زمین پر کوئی جان لیوا بیماری سمجھیں، یا حیاتیاتی جنگ کی کوئی شکل قرار دیں… یہ بات طے ہے کہ اب ایک بدلی ہوئی دنیا ہوگی جس کے تقاضے بھی پہلے سے مختلف ہوں گے۔ وبا تو اس لیے بھی ختم ہوجائے گی کہ روئے زمین پر اب سے پہلے آنے والے عذاب بھی ہمیشہ کے لیے نہیں تھے، اور ماضی کی کوئی وبا بھی دائمی نہیں رہی۔
اس وبا نے صرف سوچ اور طرزِ معاشرت ہی نہیں بدلی، معیشت اور انفرادی و اجتماعی نظامِ زندگی بھی بدل دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا وبا کے خاتمے کے بعد بھی یہی طرزِ معاشرت جاری رہے گی؟ یا ہم واپس اسی جگہ لوٹ آئیں گے جہاں وبا سے پہلے کھڑے تھے۔ صفائی، احتیاط، منضبط زندگی، دوسروں کا احساس اور قناعت ایسی چیزیں ہیں جو اس وبا کے دوران دیکھنے میں آئیں۔ اگر یہ جاری رہیں تو یہ اس وبا کا ایک مثبت نتیجہ ہوگا۔
اس وقت پاکستان کے حکمرانوں، عوام، اشرافیہ اور شہریوں کے ساتھ ساتھ اداروں کو بھی سوچنا ہوگا کہ دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج ہی نہیں، امریکہ جیسی سپر پاور کی معیشت بھی بیٹھ چکی ہے۔ وہاں بے روزگاری کا گراف ایک کروڑ 80 لاکھ تک پہنچ گیا ہے، تیل کی قیمتیں ریکارڈ سطح تک نیچے آگئی ہیں۔ ایسے میں ہم جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، صنعتیں نہ ہونے کے برابر، زراعت عدم توجہی کا شکار، بے روزگاری کی شرح پریشان کن، اور کرپشن ہر سطح پر موجود ہے، ہم اس صورتِ حال سے کس طرح نمٹیں گے؟ جب کہ مستقبل قریب میں ہماری برآمدات اور ترسیلِ زر کی شرح بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ متحدہ عرب امارات سے چالیس ہزار پاکستانی واپس آرہے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک سے بھی پاکستانی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر واپسی کا خدشہ ہے، ایسے میں حکومت اور عوام کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن میں بدلے ہوئے حالات میں عزت کے ساتھ زندہ رہنے کی سبیل نکل آئے، ورنہ کورونا سے بچنے والے کہیں بھوک، بے روزگاری اور فاقوں سے نہ مر جائیں۔ حکومت نے مستقبل کی فوری اور قابلِ عمل منصوبہ بندی نہ کی تو آنے والی حکومت پہلے سے بھی زیادہ قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوگی، اور عوام نے اگر سادگی اور قناعت کے ساتھ ہاتھ پائوں نہ مارے تو ملکی آبادی کا ایک اورحصہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا جائے گا۔ غریب مارا جائے گا اور سفید پوش ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائے گا۔ عام آدمی کئی ہفتے گھر میں پڑے رہنے اور وبا کے ساتھ روزگارکھو دینے کے خوف کے باعث نفسیاتی مسائل کا شکار ہوا ہے۔ ان کا حل بھی تلاش کرنا ہوگا، کہ نفسیاتی عوارض کا شکار قوم مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما نہیں ہوسکتی۔
حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ محض ضرورت مندوں کے گھروں پر 12 ہزار روپے پہنچا کر مستقبل کے چیلنج سے نمٹا نہیں جاسکتا۔ اوّل تو حکومت زیادہ عرصے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکے گی۔ دوم اس طریقۂ کار میں کرپشن کے علاوہ عوام کی ایک بڑی ورک ایبل فورس کا حکومت پر انحصار بہت زیادہ ہوجائے گا جس کے نتیجے میں بے کاروں کی ایک فوج تیار ہوسکتی ہے۔ بہتر ہوتا کہ حکومت کیش رقم کے بجائے ضروت مندوں کو اُن کے گھروں پر راشن پہنچانے کا بندوبست کرتی، اور یہ کام فوج کے سپرد کیا جاتا۔ نادرا، مقامی انتظامیہ، محکمہ تعلیم اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن فوج کی نگرانی میں یہ فریضہ انجام دیتے۔ یہ کام کسی غیر تربیت یافتہ ٹائیگر فورس کے بس کا نہیں ہے۔ یہ فورس حکومت کے لیے مشکلات اور بدنامی کا باعث بنے گی۔ حکومت اب بھی یہ کام کرلے تو بہتر ہے۔
ان حالات میں حکومت کچھ ایسے منصوبے شروع کرے جن کے ذریعے مستحق خاندانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جاسکے، اور غریب کی مشکلات میں حکومت اس کا کچھ سہارا بھی بنے۔ اس وقت حکومت کے پاس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام، بیت المال اور سوشل ویلفیئر کے مستحقین کے علاوہ موجودہ وبا میں درخواستیں دینے والے ضرورت مندوں کی مکمل فہرستیں موجود ہیں۔ یہ فہرستیں یکجا کرکے ایک جامع فہرست تیار کرلی جائے، اور ان خاندانوں کو دو ماہ تک امداد دینے کے بعد تیسرے ماہ تقسیم ہونے والی رقم بجلی، پانی اور گیس کے محکموں کو سبسڈی کے طور پر دے دی جائے، اور وہ پورے ملک میں سب سے نچلی سطح کے ٹیرف میں آنے والے گھرانوں کے یوٹیلٹی بل کچھ عرصے کے لیے مکمل معاف کردیں۔ اسی طرح حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کی موجودہ گنجائش کو دگنا کردے، اس سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوجائیں گے۔ یہاں ضرورت مند خاندانوں کو رجسٹر کرکے نصف قیمت پر اشیائے ضروریہ مہیا کی جائیں۔ ساتھ ہی حکومت ذخیرہ اندوزوں پر کڑی نظر رکھے اور قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے دے۔ اس جانب حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے، مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت بلاجواز بڑھ گئی ہے، جس کی ذمہ داری آخرکار حکومت پر ہی آئے گی۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر مدافعتی نظام محفوظ کرنے والی اشیا سستے داموں فراہم کردی جائیں۔ حکومت ملک بھر میں صنعتوں کا جال بچھانے کے لیے ایک میگا پراجیکٹ شروع کرے، صنعتیں لگانے والوںکو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کرے۔ تارکین وطن کو صنعتیں لگانے کے لیے خصوصی مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ساتھ ہی ملازمین، کارکنوں اور ورکرز کے روزگار کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔ کارکنوں کو راشن کی فراہمی اس طرح کی جائے کہ یوٹیلٹی اسٹورز سے سستے نرخوں پر ملنے والی اشیائے ضروریہ کی پچاس فیصد ادائیگی آجر اورپچاس فیصد کارکن کرے۔ساتھ ہی حکومت نجی اداروں میں کم از کم تنخواہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تنخواہیں بھی متعین کردے تاکہ صنعت کاروں اور نجی اداروں کو بھی ریلیف مل سکے۔ اگلے بجٹ میں حکومت سب سے زیادہ رقم اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسپتالوں کے لیے مختص کرے، اور ان اداروں کا معیار بیس پچیس سال قبل والا بنادے، تاکہ عام آدمی بہ خوشی یہاں تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی فیسوں کو کسی ڈسپلن میں لاکر کم از کم موجودہ سطح سے نصف پر لے آئے۔ حکومت اپنے پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے کو انتہائی تیز رفتاری سے آگے بڑھائے، اس سے روزگار بھی پیدا ہوگا اور بے گھروں کو چھت بھی میسر آجائے گی۔ ساتھ ہی گھریلو صنعتوں کا ایک ایسا جال بچھا دے کہ ہر غریب خاندان فارغ اوقات میں محنت کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکے۔ اس کے لیے انتہائی ضرورت کی اشیا اور مشینری کے سوا ہر قسم کی درآمدات پر پابندی لگانا ہوگی۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے سب سے پہلے وزیراعظم، صدر، وزراء کو نیوزی لینڈ کی طرح اپنی تنخواہوں اور مراعات میں رضا کارانہ طور پر بیس سے پچاس فیصد تک کمی اور اپنے صوابدیدی اختیارات ختم کرنے ہوں گے۔ چونکہ پارلیمنٹ کا اجلاس کورونا کی وجہ سے نہیں ہوسکا، اس لیے ارکانِ پارلیمنٹ کی مارچ اور اپریل کی تنخواہیں کورونا فنڈ میں دے دی جائیں تاکہ پوری قوم کے سامنے ایثار کرنے کے لیے ایک اچھی مثال موجود ہو۔ اگر حکومت زراعت کے شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کرکے زرعی اجناس کی پیداوار اور برآمد میں اضافہ کرسکے تو خود حکومت کی بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی۔ ایک اور کام جو حکومت کے کرنے کا ہے وہ دکانوں، مکانوں اور عمارات کے ہوشربا کرائے ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور کمزور کا استحصال بھی۔ حکومت کرائے کے لیے جو فارمولے طے کرے، اسی کے مطابق کرایہ داروں کے معاملات کو دستاویزی شکل میں لائے۔ اس طرح ایک تو حکومتی ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوگا، دوسرے مالک کرایہ دار کا، اور کرایہ دار مالک مکان کا استحصال نہیں کرسکے گا۔ حکومت سادگی کو قومی نعرہ بنا دے، وزراء اور سرکاری افسر ماضی کی طرح ٹرینوں پر سفر کریں، فائیو اسٹار ہوٹلوں کے بجائے سرکاری ریسٹ ہائوسز میں قیام کریں، ٹی اے، ڈی اے لینے سے انکار کردیں، اور اگر سرکاری گاڑی کے بجائے ذاتی گاڑی استعمال کرلیں تو اچھی مثال قائم ہوجائے گی۔ دفاتر کی غیر ضروری تزئین و آرائش، پُرتعیش گاڑیوں کی خریداری اور ائرکنڈیشنرز کا بے جا استعمال ختم کردیا جائے۔ وزراء اور اعلیٰ سرکاری افسران اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے لگیں اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کرانے لگیں تو ان کا معیار بہتر ہوجائے گا۔ لیکن یہ سب کام عوام کے تعاون اور شرکت کے بغیر ممکن نہیں، اس کے لیے مواخات کے اسلامی اصول کے تحت ہر خوش حال خاندان اپنے ہی کسی کمزور عزیز یا بھائی بند کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی ذمہ داری لے لے، اس طرح ہم کشکول بھی توڑ دیں گے اور اپنے پائوں پر بھی کھڑے ہوسکیں گے۔ عوام حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اس کی ہدایات پر مکمل عمل کریں۔