الخدمت کے رضاکاروں نے کورونا وبا کی موجودہ صورتِ حال میں خدمتِ انسانیت کی لازوال مثالیں قائم کیں
شکیل احمد ترابی
خدائے غفار و قہار نے تو فرما دیا تھا کہ ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اس دنیا میں (کسی نے نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید کہ یہ اپنی روش سے باز آجائیں۔‘‘(سورہ السجدہ)۔
کیا مسلمان اورکیا غیر مسلم، اکثریت نے اس دنیا میں خدا کے بجائے اپنی خدائی قائم کردی ہے۔ وہ جو اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ان کے قبضے میں زمینی وسائل، سمندر اور فضائیں ہیں۔ چاند تک وہ پہنچ گئے۔ جو سمجھتے تھے کہ پینٹاگون میں بیٹھ کر وہ دنیا کے جس حصے تک چاہیں اپنی مہارت اور ہتھیاروں سے کسی کو بھی زیر کرسکتے ہیں۔ جو تحقیق کی عمیق گہرائیوں تک پہنچنے کے دعویدار ہیں۔ ان طاقتور ملکوں کے حکمران اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے تھے، ان کے ذہنوں سے عملاً یہ بات محو ہوچکی تھی کہ اس کائنات کا کوئی رب بھی ہے۔ وہ رب جس کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی قوم بغاوت کی حدیں پھلانگ جاتی ہے تو پھر وہ اس کی طنابیں کھینچ کر اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔
کہیں زلزلہ، تو کسی جگہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے وہ ہمیں ہماری بے بسی کا احساس دلاتا رہتا ہے، مگر غافل دنیا جلد ان حقیقتوں کو بھلا بیٹھتی ہے۔ طاقت کے زعم میں مبتلا حکمرانوں کے دل ابھی بھی نہیں پگھلے۔ امریکی صدر اس وبا کو چین سے منسلک کرکے ہر سوال کے جواب میں چائنا وائرس کی گردان میں لگا رہا، اور آج سب سے زیادہ متاثرین اور متوفین اسی کے ملک میں ہیں۔ ہمارے پڑوس میں حکمران مودی نے بے بس کشمیریوں کو لاک ڈائون میں رکھا تو دنیا اس ظلم اور سفاکی سے لاپروا رہی۔ میرے رب کے معمولی جھٹکے سے آج پوری دنیا خود اختیاری لاک ڈائون کا شکار ہے۔ شقی القلب مودی کے دروازے پر یہ وبا دستک دے رہی ہے، مگر اس کا ظلم اور سفاکی رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ اس وبا سے سبق سیکھنے کے بجائے وہ مسلمانوں پر ظلم کے تازیانے برسا رہا ہے۔
کتوں اور بلیوں کے حقوق کے علَم بردار اور اپنے آپ کو مہذب کہلوانے والوں کو قیامت کے ان مناظر میں بھی بھیڑیے مودی کا ظلم نظر نہیں آرہا؟ دنیا کی طاقتیں مچھر سے کم تر کورونا وائرس کے آگے بے بس ہونے کے باوجود ظالم کو ظلم سے باز نہیں رکھ رہیں۔
کنفیوژن کا شکار اور آپس میں دست و گریباں حکمرانوں سے پہلے غیر سرکاری تنظیمیں الخدمت فائونڈیشن، سیلانی فائونڈیشن، ایدھی، اخوت اور دیگر کئی تنظیموں نے ماضی کی طرح موجودہ وبائی تباہی میں بھی خدمتِ انسانیت کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں۔
برصغیر کی دینی اور سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں جماعت اسلامی پہلی دینی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی خدمتِ خلق کا شعبہ قائم کیا۔ جماعت کی تنظیم میں اسے بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ بانیِ جماعت سید مودودیؒ نے اپنے کارکنوں کو اس کام کی اہمیت ذہن نشین کرنے کے لیے کہا تھا کہ ’’خلقِ خدا کی خدمت کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ خود مقصدِ دین کا تقاضا اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘اس شعبے میں جماعت اسلامی کی پُرخلوص خدمات کا اعتراف اس کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے بھی کرتے ہیں۔
زلزلے کی تباہ کاریوں کے وقت اُس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد بنفسِ نفیس امدادی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ کشمیر کے دورے میں جناب زبیر فاروق کی گاڑی میں اس قلم کار کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہم قاضی صاحب مرحوم ومغفور کے ساتھ رہے۔
موجودہ وبائی صورت حال میں مرض سے زیادہ بھوک کے ہاتھوں لوگوں کے مرنے کے خدشے کا بروقت ادراک کرتے ہوئے جناب سراج الحق، جناب لیاقت بلوچ، جناب امیرالعظیم سمیت دیگر رہنمائوں اور الخدمت کے صدر جناب عبدالشکور (فاصلاتی احتیاط کے ساتھ) سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی اور اس کا شعبہ الخدمت فائونڈیشن کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ مالی اور انسانی تمام وسائل اس نازک موقع پر خدمتِ انسانیت کے لیے وقف کردیئے جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے کارکنان نے بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب مسجد، مندر،گوردوارے اورکلیسا میں جراثیم کُش اسپرے کیے۔ خدمتِ انسانیت کا فریضہ ادا کیا اور علاج و غذائی ضروریات مہیا کیں۔ درحقیقت اس عمل میں دنیا کے لیے یہ پیغام ہے کہ ہم پیغمبر اسلام، محسنِ انسانیت اور رحمت العالمینؐ کے ماننے والے ہیں۔
جماعت اسلامی اور الخدمت کے درجنوں ہسپتال اور شفا خانے خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں۔ جماعت نے ان اداروں میں فوری قرنطینہ مراکز قائم کیے، علاج کی سہولتوں کا اہتمام کیا اور حکومت کو اپنی خدمات پیش کیں۔
اس وبا کے اثرات پاکستان میں پہنچنے سے قبل الخدمت کے صدر جناب عبدالشکور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’کورونا سے ڈرنا نہیں حوصلے، ہمت، احتیاط اور علاج سے مقابلہ کرنا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس آزمائش میں بھی الخدمت قوم کے سنگ اور قدم بقدم ہوگی۔ کورونا کے مریضوں کی مدد کے ساتھ دہاڑی دار، روزانہ اجرت والوں اور ان کے اہل خاندان کو بیماری ہی نہیں بھوک سے بھی بچانے کا الخدمت اہتمام کرے گی۔ الخدمت کی ذیلی شاخوں کو کہا تھا کہ اپنے قرب و جوار میں موجود دہاڑی دار کو بھوک سے نہ مرنے دیں، ان کی فہرستیں مرتب کرکے امداد پہنچائی جائے تاکہ پیشہ ور بھکاریوں کے بجائے امداد اصل مستحقین تک پہنچ سکے‘‘۔
جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کے بیان کے مطابق ’’جماعت اور الخدمت کے ایک لاکھ رضاکار کارکن پاکستان بھر میں تیس لاکھ سے زائد افراد تک پہنچ کر سینی ٹائزر، ماسک ، ڈاکٹروں و طبی عملے کی حفاظتی کِٹس، خوراک اور ضروریاتِ زندگی کا سامان پہنچا چکے ہیں۔ سوا ارب سے زائد رقم خرچ ہوچکی ہے‘‘۔ خدمت کا یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب سید منورحسن بستر علالت سے اٹھ کر الخدمت کے ایک کیمپ میں گئے تاکہ کارکنوں کو مزید حوصلہ اور ہمت دی جا سکے۔ خدمتِ انسانیت میں مصروف راولپنڈی کے امیر مولانا عارف شیرازی، نائب امیر ضیا اللہ چوہان اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی کچھ لوگ اس وبا کا شکار ہوگئے، اللہ ان کو جلد صحت یاب کریں۔
الخدمت اور جماعت کے مستقل پروجیکٹس جن میں شفا خانے، تعلیمی ادارے، یتامیٰ کے لیے رہائشی تعلیمی ادارے آغوش اور دیگر ادارے شامل ہیں، ان پر بھی سالانہ کروڑ ہا روپے خرچ ہوتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن وومن ونگ ٹرسٹ کی بہنوں محترمہ ناصرہ الیاس،محترمہ نویدہ انیس،محترمہ عائشہ سعد،محترمہ صائمہ شبیر،محترمہ صبا ثاقب اور دیگر بہنوں کی کوششوں کو بھی اﷲ شرفِ قبولیت بخشے جن کی شبانہ روز کی کوششوں سے آغوش اور دیگر پروجیکٹس پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔دو دہائیوں سے راقم ان بہنوں کی خدمات کا عینی شاہد ہے۔
یہ سارے کام اور خدمات جماعت اسلامی اور اس کے ادارے اہلِ خیر کے عطیات سے سرانجام دیتے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے اور (آپؐنے)اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔‘‘
صدقہ بڑی بڑی بلائوں کو ٹالتا ہے۔نیکیوں کا موسم بہار رمضان پہنچ چکا، جس میں نفل کا ثواب فرض اور ایک فرض کا ستّر کے برابر ہے۔آئیں اس ماہ میں اپنی زکوٰ ۃاور صدقات الخدمت اور دیگر قابلِ اعتماد اداروں کو دے کر جنت کا سامان کر لیں۔