۔’’سرحد‘‘دو قومی نظریے پر عائشہ غازی کی موثر دستاویزی فلم

عائشہ غازی پاکستان کی بیٹی ہیں، برطانیہ میں مقیم ہیں، خالص سائنسی تعلیم کا پس منظر ہے، لیکن پاکستان، نظریۂ پاکستان، امت کے ساتھ جڑی خاتون ہیں۔ ابلاغِ عامہ کی اہمیت کو بخوبی سمجھتی ہیں اور پورے شعور کے ساتھ شاعری ہو یا فلم بندی… ہر موقع کو اپنی زندگی سے وابستہ نظریے کے آئینے سے دیکھتی اور دکھاتی ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والا ہر شخص جب پاکستان کے لیے سوچتا ہے اور کچھ کرنے کا عزم کرتا ہے تو سب سے پہلے ’نظریہ پاکستان‘ پر ہی فوکس کرتا ہے۔ پاکستان کا نظریہ ہی پاکستان کا ’عقیدہ ‘ ہے، کیونکہ وہ ہمارے ایمان سے جڑا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں سب سے زیادہ جس چیز پر بات ہونی چاہیے تھی وہ اس کی روح یعنی اُس کا ’عقیدہ یا نظریہ‘ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ معاملہ اس کے بالکل الٹ رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان میں یہ باور کرا دیا گیا کہ پاکستان کا کوئی نظریہ یا عقیدہ ہے ہی نہیں۔ دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی اپنی نوعیت کی ایک منفرد، واحد نظریاتی ریاست کو اُس کے اپنے ہی ملک میں اجنبی بنادیا گیا۔ جس خطۂ زمین کو پاکستان کا نام دینے، دلوانے اور اس تک پہنچنے، یا اس کی گود میں زندگی گزارنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں انسانی جانیں بدترین مظالم سہہ کر قربان ہوئیں کیا اُن کے لہو کی قیمت، اُن کے مقصد کو فراموش کرنا ہوسکتی ہے؟ اس لیے جب نصابی کتب میں بھی یہ نظریہ بھرپور انداز سے نہ ملے تو پاکستان کے اس عقیدے کو سمجھانے کے لیے ذرائع ابلاغ ہی بنیادی ذریعہ ہیں۔ فی زمانہ سوشل میڈیا اس کا اہم ترین ٹول ہے۔ اس حوالے سے مختلف مواقع پر نظریہ پاکستان کی اہمیت سمجھنے والے چند افراد کی جانب سے کچھ نہ کچھ کوششیں وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہیں۔
عائشہ غازی نے چار سال کی طویل محنت کے بعد اپنا کام ایک دستاویزی فلم کی صورت تیار کیا ہے، جسے ’سرحد‘ کا نام دیا ہے۔ عائشہ خود کہتی ہیں کہ وہ کوئی ادارہ نہیں، فردِ واحد کے طور پر انہوں نے یہ کام اللہ کی توفیق سے مکمل کیا۔5 سال قبل بھی انہوں نے پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کے حساس موضوع پر دستاویزی فلم ’’گریہ بے صدا‘‘ جیسی بے باک کوشش کی کہ جو اُس وقت کوئی اور نہ کرسکا۔ پاکستان میں فاٹا، تھرپارکر ، شامی مہاجرین اور روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار بھی جاکر دیکھتی اور لکھتی رہی ہیں۔
زیرتذکرہ دستاویزی فلم انہوں نے یوٹیوب پر 13اپریل2020ء کو جاری کی۔ 56 منٹ طویل دستاویزی فلم میں ناظر کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست گرافکس اور رنگینی نہیں، نہ ہی کوئی ڈراما، سنسنی خیزی، موسیقی یا کوئی ایسی شوبز سیلیبرٹی ڈالی گئی ہے، لیکن سوشل میڈیا کمنٹس اور میرا اپنا تجربہ بھی یہ رہا کہ اسے کوئی بھی مکمل دیکھے بغیر نہ رہ سکا۔ دستاویزی فلم بنیادی طور پر خوبصورت یا نایاب شاٹس، انٹرویوز، زبردست وائس اوور پر مشتمل ہوتی ہے۔ مگر ’’سرحد‘‘ نے بات سمجھانے کے لیے نادر و نایاب افراد کے قیمتی انٹرویو جمع کیے ہیں جو ازخود بات سمجھا رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے عقیدے و نظریے کے تعلق اور نظریۂ پاکستان پر اٹھائے گئے اہم سوالات کو عینی شاہدین کے تاثرات کے ساتھ ’’سرحد ‘‘ میں فلم بند کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے ’شعوری‘ عینی شاہدین بشمول بانوقدسیہ، قائداعظم کے نجی گارڈ صدیق شاہ بخاری کے جو قیمتی شاٹس ہیں اُن سے کون انکار کرے گا۔ ان افراد کو ڈھونڈنا خود ایک بڑا کام تھا، جو عائشہ غازی نے طویل مسافت اور طویل محنت کے بعد انجام دیا۔
دو قومی نظریہ وجود میں کیوں آیا؟ پاکستان کیسے بنا ؟پھر اس نظریے کے ساتھ کیا ہوا؟ اب کل کیسا منظر ہوگا؟ یہ اس دستاویزی فلم کا بنیادی موضوع ہے۔ عائشہ کہتی ہیں کہ ’’یہ ڈاکیومنٹری مجھ پر پاکستان بنانے والی نسل کا قرض تھی، جسے اپنی ذاتی استطاعت کی حد تک اتارنے کی کوشش کی ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستاویزی فلم ہمارے ملک کی نئی نسل بشمول اسکولوں، کالجوں، مدارس، جامعات کے طلبہ و طالبات کے مطالعہ پاکستان کے لیے ایک زبردست، مؤثر نصاب یا اُس کی تدریس میں کلیدی معاون ضرور ہے۔ اس دستاویزی فلم کے ابتدائی 12 منٹ میں دوقومی نظریے کی برصغیر میں ازسرنو پیدائش (مجدد الف ثانیؒ کے بعد) مختصر انداز میں جس طرح بیان کی گئی ہے اس وقت عین وہی کیفیت بھارت میں مقیم 25 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ہے۔ اس لیے آج یہ بات باآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اصل مسئلہ ہمارا کلمہ گو ہونا ہے، چاہے ہم نماز پڑھیں نہ پڑھیں، اسلام پر سختی سے عمل کریں یا نرمی سے، باطن میں کیسے ہی کیوں نہ ہوں، مذہب کے خانے میں ’مسلمان‘ ہونا ہی ہندوئوں کے لیے نفرت کی علامت رہا ہے۔
عائشہ غازی نے اُن تمام کھوکھلے اعتراضات اور پروپیگنڈوں کا جواب دیاہے جن کا شکار پاکستانی نوجوانوں کو ہدف بناکر کیا جاتا ہے۔ پاکستان سیکولر اسٹیٹ تھا، قائداعظم سیکولر ملک چاہتے تھے، اِسلام کا کوئی نعرہ نہیں تھا، ساری جدوجہد سیاسی تھی، غیر مسلموں کے پاکستان میں حقوق وغیرہ… یہ وہ پلانٹڈ جملے اور سوچ ہے جو پاکستانی نوجوانوں میں 73 سال میں اتاری گئی ہے۔ اس کے لیے ’’سرحد‘‘ بہترین مواد ہے۔ احمد جاوید، ڈاکٹر سید خواجہ علقمہ، ایڈووکیٹ احمد حسن خان، پروفیسرشبیر مغل، طاہر یزدانی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کے وقت کامیابی سے پاکستان ہجرت کرنے والی خواتین نے منظرکشی کرکے جس طرح بات سمجھائی وہ ناظرین پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ اس کے علاوہ خود ایک غیر مسلم من موہن سنگھ خالصہ کی زبانی درست حقائق و واقعات کی تصدیق کا بھی اہم کردار ہے۔
ایک اور سوال جو اقلیتوں کے حوالے سے مغرب اور سیکولر طبقات اٹھاتے ہیں، اُسے بھی 3 منٹ میں ہندوئوں، سکھوں اور عیسائیوں کے ساتھ صدیق الفاروق کی زبانی بھی سمجھایا گیا۔ اس کے بعد عائشہ نے بی جے پی، ہندوتوا سوچ کا پول کھولا جس میں ’شدھی تحریک‘ کا کریہہ چہرہ دکھاکر دو قومی نظریے کی زندگی دکھائی۔ بھارت میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ اِس وقت ہورہا ہے اُس کے لیے بہترین آرکائیو کلپس جمع کرکے دستاویزی فلم کے مقصد کو سمجھایا گیا ہے۔
’’سرحد‘‘کے آخری 9 منٹ میں عائشہ غازی نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے احمد جاوید اور نجیبہ عارف کے تاثرات کے ساتھ بہت گہری بات سمجھائی ہے۔ اس میں پاکستان کی نئی نسل کے لیے امید کی کرن ہے اور اللہ سے امید مضبوط کی گئی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو نشاندہی کی گئی تھی کہ اس کو چلانے کے لیے ایسے لوگ ہیں ہی نہیں جو اس نظریے کو سمجھ سکیں یا اس کے مطابق پاکستان چلا سکیں۔ 73 برسوں میں یہی ثابت ہوا کہ آج بھی پاکستان کو چلانے کے لیے ایسے افراد مسندِ اقتدار پر نہیں آسکے۔ اِس کے باوجود نظریہ اپنی جگہ مسلمہ حالت میںکھڑا ہے، اور اس میں اتنی قوت ہے کہ ایک بار پھر یہ تاریخ بدل سکتا ہے۔ روئے زمین پر 8 لاکھ بندوقوںکے سائے میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والے سب سے بڑے پاکستانی سید علی گیلانی کی ایک ولولہ انگیز تقریر کے چند جملوں پر ’’سرحد‘‘ کا اختتام اس پیغام کے ساتھ ہوا کہ ’یہ‘ کام آنے والی نسل کے لیے ایک قرض کی یاددہانی ہے کہ ہمیں پاکستان کو ویسا ہی بنانا ہے جس کا وعدہ کرکے ہم نے یہ ملک حاصل کیا۔
فلم کا لنک

https://www.youtube.com/watch?v
=TB5WclkNEIA&fbclid=IwAR01jms4
owVH2KeQUPwAwxgtsNNxkgQqRH
YnWrDaPoz_WV0vZav8xQGL4fc&app
=desktop