کتاب : مقالاتِ امینی
تالیف : مولانا نور عالم خلیل امینی
صفحات : 312 قیمت:درج نہیں
ناشر : مکتبہ الایمان کراچی
0332-3552382
ملنے کا پتا : دارالاشاعت ، اردو بازار کراچی
ناشر کی یہ بات درست ہے کہ ’’کوئی بھی کتاب جب چھپ کر مارکیٹ میں آتی ہے تو اس سے عمومی سطح پر اُس وقت تک استفادہ نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس کے مصنف کے احوال سامنے نہ ہوں، چنانچہ مولانا نورعالم خلیل امینی اہلِ علم و قلم حضرات کے حلقے میں مقبول ہیں، لیکن عوامی سطح پر لوگوں کو اُن کے احوال سے کوئی خاص واقفیت نہیں ہے۔
مولانا 18 دسمبر 1952ء کو موضع ہرپوربیشی ضلع مظفر پور (بہار) میں پیدا ہوئے، زبان کی تدریس کی مہارت کنگ یونیورسٹی (ریاض) سعودی عرب سے حاصل کی۔ بحیثیت استاذ ادبِ عربی اور چیف ایڈیٹر عربی رسالہ ’’الداعی‘‘ دارالعلوم دیوبند میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اردو تالیفات میں ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘، ’’حرفِ شیریں‘‘، ’’خطِ رقعہ کیوں اور کیسے سیکھیں‘‘، ’’صحابہؓ رسولؐ اسلام کی نظر میں‘‘، ’’موجودہ صلیبی صہیونی جنگ… حقائق اور دلائل‘‘، ’’فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں‘‘ کے علاوہ ضخیم تذکرہ ’’پس مرگ زندہ‘‘ نہایت معروف ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ ماہنامہ دارالعلوم کے مبصر نے لکھا کہ ’’مولانا ہندوستان کے اُن چند منتخب علماء میں سے ایک ہیں جن کی عربی زبان و ادب میں مہارت کے اہلِ عجم ہی نہیں بلکہ خود عرب علماء و فضلا بھی معترف ہیں۔ مزید برآں مولانا کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک اور گھر کی زبان یعنی اردو سے بھی رابطہ استوار و مستحکم رکھا، اور عربی کی طرح اردو زبان و ادب میں بھی ان کا ذوق نہایت لطیف، صاف ستھرا اور بلند ہے۔
مختلف رسائل اور جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کو ناشر نے کتابی شکل میں شائع کرکے یکجا کردیا ہے، یوں 21 مضامین پر مشتمل یہ کتاب ایک اچھی کوشش ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ اپنے تبصرے میں مصنف کے طرزِ نگارش اور اسلوب کو نمایاں کرسکوں، تاکہ قاری سے اُس کا رشتہ زیادہ بہتر طور سے مستحکم ہوسکے، اور ہمارے قارئین نے اسے پسند بھی کیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے، مولانا علی میاں ندویؒ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’علم و آگہی کی گیرائی اور گہرائی، تصنیفات کی کثرت، اسفار کی بہتات، فکر و عمل کی بے پناہی، عقل و خرد کی جولانی، قلم کی روانی، تقریر کی لذت اور تحریر کی روحانیت ریز، ایمان افروز اور الحاد سوز ندرت ہی مولانا علی میاںؒ کو معاصرین سے ممتاز نہیں کرتی تھی، بلکہ عشق کی پختہ کاری، محبت کی بادِ بہاری اور شرافت و انسانیت کا جادو انگیز و جاں فزا لمس اور سخاوت و مروت کی جوئے رواں نے علی میاںؒ کی شخصیت، نام، کام اور مقام کو ایسا وقار و اعتبار اور ایسی مقبولیت و محبوبیت عطا کردی تھی کہ وہ دنیائے علم و فکر کے اَن گنت شاہین اور قرطاس و قلم کے تاج پوش بادشاہوں کے لیے نظر و فکر کے تمام پیمانوں کے حوالے سے قابل صد رشک بن گئے تھے۔‘‘
’’مولانا (علی میاں ندویؒ) ایک مثالی مسلمان تھے، اسی لیے نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں میں بھی مقبول اور متفق علیہ تھے۔ عالی ظرفی نے ان کو انسانی معاشرے میں بلا تفریقِ مذہب و ملّت محبوب بنادیا تھا۔ نہ صرف علماء و دانش وران بلکہ معاشرے کے ہر زمرے کے لوگ، حتیٰ کہ ملک کے چوٹی کے سیاست دان و سیاست کار ان کے در پر حاضری دینے، مشورہ کرنے اور عظمت و شہرت کا خراج ادا کرنے میں اعزاز محسوس کرتے تھے، وہ نہ صرف دُور کے ڈھول کی طرح عرب ممالک اور عالمِ اسلام میں پیارے اور سہانے تھے، بلکہ اپنے گھر برصغیر میں بھی نہ صرف یہ کہ ’’گھر کی مرغی‘‘ کی طرح نہ تھے بلکہ لذیذ سے زیادہ لذیذ، اور عزیز سے زیادہ عزیز تھے۔ ان کی دانائی، دور بینی اور بے نفسی و بے لوثی کی وجہ سے مسلمانوں کے تمام طبقے ان پر متحد تھے۔‘‘
مولانا ابرارالحق ہردویؒ کے اوصاف یوں بیان کرتے ہیں: ’’مولانا صفائی ستھرائی کو بہت زیادہ پسند کرتے تھے، چنانچہ ان کے کپڑوں سمیت اُن کی ضرورت کی ہر چیز پاک اور صاف ستھری ہوتی، مدرسے کا ہر گوشہ صفائی اور نظم و نسق کی منہ بولتی تصویر ہوتا، ان سے متعلق کسی بھی چیز میں میل کچیل اور گندگی کا دور دور تک نام و نشان نہ ہوتا۔
منکر پر نکیر کے تعلق سے مرحوم کا دور دور تک شہرہ تھا، یہی وجہ تھی کہ اُن کے سامنے منکرات کے دائرے میں آنے والے کسی بھی عمل کے ارتکاب کی کسی کو جرأت نہ ہوتی تھی، اور وہ ان کی نکیر سے پہلے ہی اس سے رک جاتا تھا۔‘‘
’’گفتار و کردار‘‘ کے موضوع پر بھی مولانا نے خوب لکھا۔ کہتے ہیں: ’’اسی طرح بے شمار ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو فنِ خطابت میں امامت کا درجہ رکھتے ہیں، فصاحت و بلاغت کا دریا بہاتے ہیں، وہ جب بولتے ہیں تو موتی رولتے ہیں۔ کسی موضوع پر بلوا لیجیے، سامعین عش عش کرنے لگتے ہیں اور لوگ عقیدت و محبت کی وجہ سے ان پر نچھاور ہونے لگتے ہیں اور ان کی ثنا خوانی میں اس طرح لگے رہتے ہیں کہ جیسے یہی ان کا مخصوص فریضہ ہو، بلکہ اسی کے لیے پیدا ہوئے ہوں۔ ان خطیبوں کی گل افشانیِ گفتار کی جب کمان چڑھتی ہے تو بلاشبہ نہ صرف انسان اور جان دار، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ در و دیوار بھی داد دے رہے ہوں، آسمان و زمین بچھے جارہے ہوں، اور وہ اسٹیج فرشِِ راہ ہورہا ہو، جس پر وہ محوِ تکلم ہوتے ہیں، اگر اسلام کے موضوع پر گفتگو کریں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شرح ِاسلام کا فن صرف انہی پر ختم ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کا تجربہ کیا جائے تو بالعموم یہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے انتہائی ناآشنا ثابت ہوتے ہیں، ان کی زندگی اسلامی اخلاق و عادات سے بالکل بے بہرہ ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کی الف، ب سے بھی واقف نہیں، بلکہ شاید انہوں نے اسلام کے نام کی کوئی چیز دیکھی نہ سنی، اور نہ انہیں کبھی اس کا سابقہ ہوا۔ سچ ہے کہ محض باتیں بنانا، خواہ تقریری ہو یا تحریری، انتہائی آسان ہے۔ اس میں انسان کو سوائے زبان و قلم کو حرکت دینے کے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، لیکن عمل بہت مشکل ہے۔‘‘
312 صفحات پر 21 مقالہ جات کا یہ مجموعہ اپنے عمدہ طرزِ نگارش کے ساتھ علمی تحقیق کا بھی حامل ہے۔ مکتبہ ایمان اس کی اشاعت پر مبارک باد کا مستحق ہے۔