تقریباً 3ماہ پہلے چین سے ’’کورونا‘‘ کے نام پر اٹھنے والے طوفانِ بلاخیز کے بارے میں توقع نہ تھی کہ پوری دنیا اتنی تیزی سے اس کی لپیٹ میں آجائے گی، اور اتنے کم وقت میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن کر تاریخِ عالم پر گہرا نقش چھوڑ جائیں گے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور اور سائنسی ایجادات کی روشنی میں وہ انسان جو چاند اور مریخ کو مسخر کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے، ایک جرثومے کے ہاتھوں بے بس اور لاچار ہوگا!
اس وائرس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا ساکت و جامد ہورہی ہے، موت کا خوف طاری ہوچکا ہے، ترقی یافتہ ممالک ٹھٹھر کر رہ گئے ہیں۔ اٹلی، اسپین، برطانیہ، امریکہ جیسی ترقی یافتہ قومیں لرزہ براندام ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی جہاز کے رابطے عملاً ختم ہوچکے ہیں، اندرونِ ملک پروازیں بند ہیں، ٹرینیں، دفاتر، اسکول، کالج، تفریحی پارک، ہوٹل، ریستوران بند ہیں۔ لوگ گھروں میں عملاً ’’نظربند‘‘ ہیں، اور سڑکوں کا سنسان ہونا کرفیو کا منظر پیش کررہا ہے۔ سینکڑوں لوگ روزانہ موت کی وادی میں گم ہورہے ہیں۔ وہ ممالک جہاں کھانے پینے اور خوراک پر کڑی نگرانی کی جاتی ہے، جہاں سڑکوں کو روزانہ دھویا جاتا ہے، صفائی مثالی ہے، وہ بھی اس مرض کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔
پوری دنیا میں شور ہے کہ اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے عالمی ادارہ صحت (W.H.O) کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے اور اصل علاج احتیاط ہے۔ احتیاط کے لیے محکمہ صحت ہدایات دے رہا ہے کہ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہاتھوں کو صابن سے دھویا جائے، سانس کو کورونا سے پاک کرنے کے لیے ناک پر حفاظتی ماسک باندھے جائیں، آنکھ اور ناک صاف کیے جائیں، چھینک یا کھانسی آئے تو چہرے کو رومال یا دونوں ہاتھوں سے ڈھانپا جائے تاکہ آپ کے سامنے دوسرا انسان متاثر نہ ہو۔ اس کے علاوہ احتیاط کے طور پر ایک دوسرے سے تین فٹ کا فاصلہ رکھا جائے، ایک جگہ زیادہ آدمی اکٹھے نہ ہوں، حتیٰ کہ فتویٰ آرہا ہے کہ مسجدوں کے بجائے گھر میں نماز پڑھی جائے، خصوصاً 50 سال سے اوپر کے لوگ مسجدوں کا رخ نہ کریں۔ یہ فتویٰ بھی آیا ہے کہ جمعہ کے اجتماعات سے بھی اعراض برتا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ حتیٰ کہ لوگ بیت اللہ میں مطاف خالی دیکھ کر لرز رہے ہیں۔ وہ مطاف جہاں دن رات لوگ پروانہ وار طواف کرتے تھے، غلافِ کعبہ، رکن یمانی اور اگر ممکن ہوتا تو حجرہ اسود کا بوسہ لیتے تھے، وہاں کوئی انسان قریب بھی نہیں جاسکتا۔ ہدایات ہیں کہ آپس میں مصافحہ بھی نہ کیا جائے، اور اس کا عملی مظاہرہ مولانا طارق جمیل اور وزیراعظم کی ملاقات پر دکھایا گیا۔
سب ہدایات سائنس کی روشنی میں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ لیکن غیر مسلم ریاستوں کو تو چھوڑیے، جو مسلم ممالک توحید کا پرچار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو مالک الملک مانتے ہیں ایسی وبا کی صورت میں وہ معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے کیوں بآوازِ بلند نہیں بتاتے کہ اس طرح کی آسمانی آفات کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کیا ہیں؟ ہم فخر سے کیوں نہیں کہتے کہ آپ اپنی سائنسی تحقیقات کو نبی رحمتؐ کی ہدایات کی روشنی میں پرکھیں، نبی رحمتؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے واضح ہدایات دی تھیں کہ جہاں وبائی مرض کا حملہ ہوجائے وہاں سے لوگ اپنی بستی کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں نہ جائیں، اور صحت مند لوگ متاثرہ بستی کا رخ اختیار نہ کریں۔ آج انٹرسٹی، انٹرنیشنل اور اندرون ملک علاقائی ’’لاک ڈائون‘‘ کیا ہے؟ کیا یہ سارے اقدامات نبی رحمتؐ کی ہدایت کے مطابق نہیں؟ جہاں نبی رحمتؐ کا فرمان آگیا وہاں سائنس کی کیا اہمیت ہے! سائنس آپؐ کے فرامین کی تائید کررہی ہے۔ ہاتھ دھونے کے عمل کی ہدایت کیا ہے؟ آج سے چودہ سو سال پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ دھوئے بغیر کھانے سے منع فرمایا تھا جس کی حکمت کورونا نے دوچند کردی ہے۔ وضو کا عمل کیا ہے؟ دانتوں، ناک، گلے اور آنکھوں کی صفائی۔ جو شخص دن میں پانچ دفعہ وضو کررہا ہے، وہ نبی رحمتؐ کے فرمان کے مطابق پانچ مرتبہ نہر میں نہا رہا ہے، وہ کیسے آلودہ رہ سکتا ہے؟ آج جو ہدایات W.H.O اور محکمہ ہائے صحت دے رہے ہیں وہ اللہ کے نبیؐ کے فرمان کی تائید ہیں۔ طہارت اور پاکیزگی کے جو اصول اسلام اور نبیؐ نے طے کردیے ہیں وہ یو این او کی ہدایات سے کہیں افضل ہیں۔ بدقسمتی سے یورپ جہاں سڑکوں کو روزانہ دھویا جاتا ہے، وہ طہارت کے فطری اور اسلامی اسلوب سے ناواقف اور بے بہرہ تھے۔ موجودہ حالات میں اسلامی دنیا یورپ کو اس کی اہمیت سے آگاہ کرسکتی ہے۔
یہ تحریک اور تلقین سائنسی نقطہ نظر سے کوئی اہمیت رکھتی ہو تو ہم انکار نہیں کرسکتے کہ افرادِ خانہ بھی ایک دوسرے سے تین فٹ کا فاصلہ رکھیں اور مصافحہ نہ کریں، یہاں تک کہ اس مرض سے محفوظ رہنے کے لیے نمازِ جمعہ اور نماز پنجگانہ بھی گھروں میں ادا کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ وہ حرم جہاں دن رات لوگ عبادت کرتے تھے وہ حفظِ ماتقدم کے طور پر خالی دیکھ کر وجود لرز لرز جاتا ہے کہ کہیں ہم مغرب کی تقلید میں اللہ کے غضب کو دعوت تو نہیں دے رہے! نماز میں نبی رحمتؐ صف بندی کا خود سختی سے اہتمام فرماتے تھے، کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے کی ہدایات دی جاتی تھیں۔ مصافحہ کی دینی اہمیت احادیث سے ثابت ہے، ہم W.H.O اور سائنس کی اس توجیہ کو ترجیح دیں یا پیارے رسولؐ کی تعلیمات کو فوقیت دیں! یہ کام ’’مفتی‘‘ حضرات کا ہے۔ ہم سادہ لوگ تو نبیؐ کے فرمان کو تاقیامت ہدایت کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ قرآن حکیم کو شفا قرار دیا گیا ہے، آج بہت سے ڈاکٹر حضرات سورہ یٰسین، سورہ بقرہ، سورہ رحمٰن اور آیت الکرسی، آخری قُل کو نبی رحمتؐ کے فرمان کے مطابق امراض کے مقابلے میں نسخہ شفا سمجھتے ہیں۔ کاش! مسلم ریاستوں میں کوئی ریاست اور کوئی حکمران تو یہ نعرۂ مستانہ لگاتا کہ وہ امت جو پہلے ہی مسجدوں سے باغی ہے، جہاں قلندر اقبال یہ کہتا رخصت ہوگیا کہ ”مسجدیں نوحہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے“! یہی وقت ہے کہ لوگ رجوعِ الی اللہ اور استغفار کے لیے مسجدوں کو آباد کرتے۔ موت کے خوف سے لرزاں ہمارے حکمران اللہ کے خوف کے بجائے کورونا کے خوف سے مسجدوں کو بے آباد کرتے نظر آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ وائرس جو چین سے اٹھا اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا… کیا اسکول، کالج، دفاتر، مساجد، ریستوران، تفریح گاہیں بند کرنے سے ختم ہوجائے گا؟ کورونا تو ہوا کا مسافر ہے، ہوا کے دوش پر سوار ہمارے پھیپھڑوں تک پہنچ رہا ہے۔ بیماری اور موت کا خوف میڈیا نے اس طرح مسلط کردیا ہے کہ لوگ موت سے پہلے موت کا شکار ہورہے ہیں۔ اللہ کی ذات پر بھروسا اور موت کے خوف سے بے نیازی، موت کا مقابلہ کرنے کے بہترین ہتھیار ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرماتے ہیں:۔
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا
زمین میں کوئی مخلوق بھی ایسی نہیں جس کا رزق اللہ کے سوا کوئی بہم پہنچاتا ہو۔ وہ ہستی یہ دعویٰ کرتی ہے اور بجا کرتی ہے کہ کرۂ ارض پر کروڑوں پرندے ہیں جن کے گھونسلوں میں ایک دانہ بھی نہیں ہوتا لیکن رات کو جب وہ واپس بسیرا کرتے ہیں تو پُرشکم ہوتے ہیں۔ مغرب کی تقلید میں کورونا کے خوف سے لوگ آٹا، چاول، چینی، گھی، چائے، ٹشو پیپر اور پیمپر جیسی ضروریاتِ زندگی کی اس طرح خریداری کررہے ہیں کہ شاید پندرہ یوم یا ایک مہینے کے بعد اعلان ہوگا کہ کورونا ختم ہوگیا ہے، یہ ’’قیامت‘‘ گزر گئی ہے۔ ہم مسلمانوں میں اللہ کی ذات پر بھروسا اور قناعت کیوں ختم ہوگئی ہے؟
کورونا نے چین جیسی ریاست کو لپیٹ میں لیا، لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر جو ستم وہاں ہورہا تھا، ان مظلوموں کی آہوں اور چینی قوم کی اصلاح کے لیے اللہ نے یہ وائرس پیدا کردیا ہے۔ پورا یورپ جس طرح شراب کے نشے میں گم ہے، خنزیر کا گوشت سرعام کھایا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا جارہا ہے، مسلمان جس طرح اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے غافل ہوچکے ہیں ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شر سے خیر کو اس صورت میں پیدا فرمادیں کہ یہ قومیں گمراہی اور اندھیرے سے روشنی کا سفر شروع کردیں۔
ایک ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں کینسر، ہیپاٹائٹس، ایڈز اور ایکسیڈنٹ سے جتنے افراد روزانہ مرتے ہیں وہ کورونا سے مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن عالمی میڈیا نے کورونا کا وہ خوف پیدا کردیا ہے کہ ہر کام جامد ہوگیا ہے۔ دنیا کی معیشت زلزلے سے دوچار ہے، ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قومیں یکساں خوف زدہ ہیں، وہ خواتین جو چہرے کو ڈھانپنا یا پردے کو ’’عذاب‘‘ تصور کرتی تھیں وہ بھی ماسک پہننے پر مجبور ہیں۔ ممکن ہے کہ کورونا سے لوگوں میں بے پردگی اور بے حیائی جیسے سیلابِ بلاخیز سے نجات کا جذبہ پیدا ہو اور وہ اس عذابِ خداوندی سے گزرنے کے بعد ’’کورونا زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے کو ترجیح دیں۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے، وہ ہستی تدبیر پر تقدیر کو غالب کردیتی ہے، ممکن ہے کہ چین، اٹلی، اسپین، امریکہ، برطانیہ، کینیڈا سے اللہ کو پہچاننے کی آواز بلند ہو۔ مسلمانو! کورونا سے خائف نہ ہو، یہ میری اور آپ کی اصلاح کا فطری تازیانہ ہے۔