کورونا وائرس کی وبا،دنیا کا طبی نظام بے بس

عالمی طبی جریدے کے مطابق بھارت کا شعبہ طب پاکستان سے بہتر لیکن بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے ہے

غازی سہیل خان
۔’’کورونا وائرس‘‘ نے دنیا میں قہر برپا کردیا ہے۔ طبی نظام بری طرح سے ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا کے طاقت ور ممالک میں وینٹی لیٹرز اور آئی سی یوز کی کمی نے دنیا کو پریشان کردیا ہے۔ جن ممالک کے پاس دنیا کو ختم کردینے والے مہلک ہتھیار موجود ہیں اُن کا معمولی ویکسین اور دوائی کے لیے آج دنیا کے سامنے گڑگڑانا بھی ایک عبرتناک معاملہ بن چکا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے سامراجوں کی چودھراہٹ اب کسی کام کی نہیں۔ آئے روز ’’وائرس‘‘سے لوگوں کے متاثر ہونے کی تعداد نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی ہوش رُبا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شاید ہی دنیائے انسانیت نے کبھی یہ سوچا ہو کہ نوعِ انسان کو عموماً اور ترقی پذیر ممالک کو خصوصاً ان حالات سے گزرنا پڑے گا۔ آج حال یہ ہے کہ ساری دنیا جیل خانے میں تبدیل ہوگئی ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اب دنیا کشمیر ہوگئی ہے۔ بڑی بڑی عالمی طاقتیں بے بس و لاچار ہوگئی ہیں۔ دنیا میں بڑی بڑی معیشتوں کا دم بھرنے والے ممالک کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ بم و بارود کے خزانوں کے مالک اس وبائی بیماری کے سامنے عملاً سرنگوں ہوچکے ہیں۔ عراق اور افغانستان پر ہزاروں ٹن بم و بارود برساکر انسانیت کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا امریکہ آج اپنے آپ فنا ہونے جارہا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر دنیا کے بڑے بڑے حکمران بے بسوں اور لاچاروں کی طرح بلکتے دیکھے جارہے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس طرح اس وائرس کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی جائے۔ دنیا آج حقیقت میں ’’النفسی النفسی‘‘ کے عالم میں ہے، ہر ایک کو اپنی ہی جان بچانے کی پڑی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’کورونا‘‘ نے عالمی طاقتوں کو ’’کلین بولڈ‘‘ کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں تادمِ تحریر اس وبائی بیماری سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے، بیس لاکھ سے زائد لوگ اس کی زد میں آچکے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ عوام الناس پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ تو سماجی تنظیموں اور اداروں کی مہربانیاں ہیں جو وہ اپنی زندگی کو خطروں میں ڈال کر انسانیت کو بچانے کے لیے ہر دم فرنٹ لائن پہ رہتے ہیں۔
بایں ہمہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ دنیا کا سارا طبی نظام اس بیماری کے سامنے نہ صرف ناکارہ دکھائی دے رہا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیاکے عالمی نظام کو اس ’’وائرس‘‘ نے بری طرح متاثر کرکے ’’کلین بولڈ‘‘ کردیا ہے۔ ابھی تک اس بیماری نے اُن ہی ممالک کو زیادہ اپنی لپیٹ میں لیا جہاں کا طبی نظام باقی دنیا سے بہترین مانا جاتا ہے۔ امریکہ جس نے ساری دنیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کی ہوئی ہے آج ایسا لگ رہا ہے کہ اُس کی ناک میں لنگڑا مچھر گھس گیا ہے، اور بھارت… جس کا وزیراعظم 56 انچ کا سینہ ٹھونک کر کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے… کے عوام اب بھوک کا شکار ہوکر دنیا کے لیے عبرت کا نشان بننے جارہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو اس طرح کی وبائی بیماری کے پھیلنے کی خبر نہ تھی، بلکہ وقتاً فوقتاً دنیا کے سائنس دان وبائی امراض سے دنیا کو آگاہ کرتے رہتے تھے، جس کی مثال پاکستان کے ایک معروف صحافی نے اپنے ایک مضمون میں بھی دی ہے، ان کا کہنا ہے:
’’ایک امریکی جریدے ’’کلینکل مائیکرو بائیولوجی ریویو‘‘کے 11اکتوبر 2002ء کے شمارے میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مضمون میں 13سال قبل پانچ سائنس دانوں نے دنیا کو کورونا وائرس کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ یہ جریدہ امریکن سوسائٹی فار مائیکرو بائیولوجی کے زیراہتمام شائع ہوتا ہے۔‘‘ آگے لکھتے ہیں کہ ’’کچھ سال کے بعد امریکن تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن نے 2012ء میں ایک رپورٹ شائع کی اور بتایا کہ مستقبل میں امریکہ کے لیے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ ایک عالمی وبا بنے گی جو امریکی معاشرے کے پورے طرزِ زندگی کو بدل کر رکھ دے گی، لہٰذا اس کی طرف توجہ کریں۔‘‘
لیکن اس کے باوجود امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک نے انسانیت کے بچائو کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ اپنی دولت مہلک ہتھیاروں کے ذخیرے بڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ ہتھیار دنیا کے دیگر ممالک کو بھی فروخت کرتا رہا۔ کہا جارہا ہے کہ دنیا میں حکمرانوں کی نااہلی اب تاریخ کا ایک بدترین حصہ بنتی جارہی ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف طرح طرح کی تنظیمیں اور قوانین بناکر دولت کے انبار خرچ کردئیے گئے، لیکن جس سے انسانوں کی جانیں بچ سکتی تھیں، جس سے انسانیت کو آرام مل سکتا تھا، اس کی جانب کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی۔ اس وقت دنیا میں GDPکا سب سے زیادہ حصہ ہتھیاروں پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹ کے متعلق امریکی سائنس دانوں نے صدر ٹرمپ سے گزارش کی کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر سالانہ ایک سو ارب ڈالر خرچ کررہے ہیں، لیکن ہمیں عالمی وبا کا توڑ تلاش کرنے کے لیے سالانہ صرف ایک ارب ڈالر دیا جارہا ہے، ہمیں صرف ایک ارب ڈالر مزید دے دیں تاکہ امریکہ کو ہی نہیں، پوری دنیا کو اس نئی وبا سے محفوظ رکھ سکیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس درخواست کو مسترد کرتے رہے۔ اسی کا سبب ہے کہ آج امریکہ کے حالات قابلِ رحم بن چکے ہیں، اور تادم تحریر امریکہ میں 25 ہزار سے زائد اموات واقع ہوئی ہیں، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کے سبب امریکہ کی معیشت کو نہ صرف شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ لاحق ہے بلکہ اس کا سرمایہ دارانہ نظام تباہ ہوجائے گا، جس کا سب سے بڑا فائدہ چین کو ملنے والا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف کالم نگار و محقق شاہ نواز فاروقی کا ایک ویڈیو پیغام گزشتہ روز نظروں سے گزرا جس میں وہ پال کینیڈی کی کتاب “The rise and fall of the great powers”کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پال کینیڈی نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ’’دنیا کی چار بڑی طاقتیں یعنی خلافتِ عثمانیہ، امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین اپنی معاشی کمزوریوں کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی ہیں‘‘۔ مثال دے کر سمجھاتے ہوئے کہا کہ ان طاقتوں کے جنگی اخراجات ان کی آمدنی سے بڑھ گئے تھے۔ جب کسی ملک کے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوجائیں تو وہ زوال کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے معاشیات انسانی زندگی کی بقا کے لیے ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کے طور پر شامل ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی ملک کا آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا عام لوگوں کے لیے کتنا بھیانک ہوتا ہے۔ دنیا میں امریکہ، اٹلی جیسے بہترین طبی نظام والے ممالک کا جب ہم آج حال دیکھتے ہیں تو برصغیر میں بسنے والے لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے، اور جب ہم برصغیر میں ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو اس کا نمبر دنیا کے شعبۂ صحت میں 142 واں ہے۔ دوسری طرف 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان ہتھیار درآمد کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے ملک، اور کشمیر کے مسلمانوں کا قافیۂ حیات تنگ کرنے والے پہلے ملک کا اعزاز بھی حاصل کرچکا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا۔ لیکن ایک اور پہلو بھی ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے، 2018ء میں global burden of disease study جو کہ طبی جریدے “THE LANCET” میں 23 مئی 2018ء کو شائع ہوئی، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کا شعبہ طب بنگلہ دیش،سری لنکا اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے، تاہم پاکستان، نیپال اور افغانستان سے اچھا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت کا شعبۂ صحت غریب ترین افریقی ممالک سوڈان، نمیبیا اور یمن سے بھی گیا گزرا ہے۔
جہاں ایک طرف صحت کی عالمی تنظیم نے دنیا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ہرملک اپنی مجموعی قومی آمدنی GDPکا 4-5فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرے، وہیں ہندوستان آج محض 1.4فیصد ہی خرچ کررہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پورے ہندوستان میں سرکاری ہسپتالوں میں 7,13,986بیڈ ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ 0.55 بیڈایک ہزار کی آبادی کے لیے دستیاب ہیں۔ اب اس وبائی مرض کے سبب آج ہندوستان میں 5 سے 10فی صد تک کورونا کے مریضوں کو وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ 24مارچ کو center for disease dynamics, economics and policy کے نام کے ایک امریکی تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ ہندوستان میں اس بیماری سے لڑنے کے لیے آئی سی یوز اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہے۔ ایک اور تحقیقی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اس وبائی بیماری سے لڑنے کے لیے ہندوستان کو دس لاکھ سے زائد وینٹی لیٹرز کی ضرورت پڑسکتی ہے، اور آج ہندوستان کے پاس چالیس ہزار کے قریب ہی وینٹی لیٹر ہیں۔ یعنی اگر اس وبائی بیماری پر قابو نہ پایا گیا تو 15مئی تک 22 لاکھ افراد کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں، اس کے لیے ایک لاکھ دس ہزار سے دو لاکھ بیس ہزار وینٹی لیٹرز کی ضرورت ہے۔ آپ خود اندازہ کریں کہ جہاں ایک ہزار مریضوں کے لیے 0.55 فی صد بیڈ دستیاب ہوں، اور ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی کے لیے پچیس سے تیس ہزار وینٹی لیٹر ہوں وہاں کا حال کیا ہوگا! جب ہم وادی کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس وقت ’’شعبہ صحت‘‘ کی ’’اپنی صحت‘‘ نازک حالات میں وینٹی لیٹر پر ہے۔ یہاں 70 لاکھ کے قریب آبادی ہے اور محض 97 وینٹی لیٹر ہیں جن کی مدد سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا علاج کیا جارہا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اگر کسی چیز کی کمی نہیں تو وہ بم، بارود اور فوج ہے۔ ایک چھوٹی سی وادی جس کی آبادی محض ستّر لاکھ ہے، اس میں سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، یعنی دس افراد کے لیے ایک فوجی۔ ایسی نازک صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ منافقانہ سیاست کرنے اور سماج کو بانٹنے کے بجائے دنیا کو چاہیے کہ عوام کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بم اور بارود انسانیت کو نہیں بچا سکتے۔ کوئی اپنی فوجی طاقت کے نشے میں موت سے نہیں بچ سکتا۔ آج دنیا میں اس قہر کے سبب عوام بھوک کا شکار ہورہے ہیں، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں عوام فاقہ کشی پہ مجبور ہیں، سڑکوں اور جھونپڑیوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بیماروں کو معمولی ادویہ کے لیے ترسنا اور تڑپنا پڑ رہا ہے، ایسے میں اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ انسانیت کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ ہمیںتو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں تاریخ دانوں کو یہ نہ لکھنا پڑے کہ فلاں وقت میں فلاں قوم وینٹی لیٹرز اور آئی سی یوز کی کمی کے سبب دنیا سے فنا ہوگئی۔ اللہ ایسا نہ کرے۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں، قوانین بھی بنیں اور ٹوٹیں گے۔ آج بھی ٹرمپ اور مودی دنیا میں اپنی خدائی کے دعوے کررہے ہیں، کل کوئی اور کرے گا، لیکن خدارا کسی قوم کو اپنے مفادات کا شکار بناکر تباہی کے گھاٹ نہ اُتارا جائے، بلکہ خلوصِ نیت سے بلالحاظِ مذہب و ملت انسانیت کو بچانے کے لیے سرمائے کو صحیح طور سے خرچ کیا جائے۔