۔ ’’گریٹ‘‘ لاک ڈاؤن

اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ دنیا کورونا وائرس کی عالمی وبا کے خاتمے کے باوجود طویل عرصے تک اس کے مابعد اثرات سے نہیں نکل سکے گی۔ ابھی تک ’’عالمی چارہ ساز‘‘ یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں کہ کب تک اور کس طرح اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دسمبر کے آخر میں اس وبا کا آغاز چین سے ہوا تھا، اور اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ ’’مرگِ انبوہ‘‘ کے خوف نے پوری دنیا کے معمولات کو مفلوج کردیا ہے۔ اس لیے کہ ’’لاک ڈائون‘‘ کے سوا کوئی حفاظتی ترکیب کسی بھی حکومت کے پاس موجود نہیں ہے۔ جراثیم کُش ادویہ وائرس کی ہلاکت خیزی کو غیر مؤثر کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں، اس لیے کہ سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ وائرس خود ایک ’’مُردہ وجود‘‘ ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کی مابعد اقتصادی تباہ کاری کے بارے میں عالمی مالیاتی فنڈ نے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے، اس رپورٹ کے مطابق ’’کم آمدنی کی معیشتوں کو لاحق خطرات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کی معیشتیں بدترین ابتری میں چلی جائیں گی۔ یورو زون کی معیشت 2020ء میں کریش ہوجائے گی۔ فرانس کی مجموعی قومی پیداوار میں 8 فیصد کمی، جبکہ برطانوی شرحِ نمو میں 13 فیصد کمی کا امکان ہے۔‘‘ عالمی مالیاتی فنڈ کی ریسرچ ڈائریکٹر نے عالمی معیشت کا جائزہ پیش کرتے ہوئے اسے 1929ء کے بعد ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ (عالمی کساد بازاری) کے بعد کی بدترین کساد بازاری قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس برس اور آئندہ برس وائرس کی وجہ سے ہونے والا مجموعی قومی نقصان 9 ٹریلین ڈالر رہے گا۔ یہ نقصان جاپان اور جرمنی کی معیشتوں کو ملا کر دیکھیں تو بھی بہت بڑا ہے۔ تازہ ترین عالمی جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت رواں صدی کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ بدترین نتائج کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی عالمی مالیاتی فنڈ نے اپنا جائزہ پیش کیا ہے جن کے لیے وبا کے اثرات سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ یہ جائزے بھی اس امید پر ہیں کہ عالمی وبا آئندہ دو تین ماہ میں ختم ہوجائے گی۔ لیکن اس کے لیے بھی کوئی یقین دہانی موجود نہیں ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی معاشی صورتِ حال بھی غیر یقینی ہے، جس کا اظہار اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ تباہ کاری کا اصل سبب یہ ہے کہ دنیا بھر کے حکمرانوں کے پاس وبا کی ہلاکت سے نمٹنے کے لیے ’’لاک ڈائون‘‘ کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ سوال اہم ہے کہ وبا کی ہلاکت خیزی زیادہ ہے؟ یا اس کو قابو کرنے کے لیے زندگی کو مفلوج کردینے والے ’’لاک ڈائون‘‘ کی ہلاکت خیزی؟ دنیا کی آبادی پونے آٹھ ارب ہے، کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی اب تک کی تعداد سوا لاکھ پہنچی ہے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے، جبکہ متاثرین کی تعداد 6 ہزار، اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد ابھی تک 100 کے قریب پہنچی ہے۔ اس تناسب کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دنیا بھر کے حکمرانوں پر واجب ہے کہ کیا لاک ڈائون منصفانہ اور معقول علاج ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترجیحات کے تعین کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہے اُس سے دنیا بھر کے حکمران محروم ہیں۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایک آدمی کا رات کو بھوکا سونا 10 آدمیوں کے بغیر علاج کے مرجانے سے زیادہ شدید ہے۔ وبا کی ہلاکتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے احتیاطی اقدامات ضروری ہیں، لیکن پوری دنیا کو عالمی قید خانے میں تبدیل کردینا کیا بصیرت افروز فیصلہ ہے؟ یہ بات تو پہلے دن سے ہر شخص کے سامنے واضح ہے کہ ’’لاک ڈائون‘‘ کے ذریعے سماجیات و اقتصادیات میں جو تباہی آئے گی اُس کی کوئی حقیقی رپورٹ مرتب ہی نہیں کی جاسکتی۔ اب تو ایک عام غریب عورت کا کہا ہوا جملہ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے کہ ہم کورونا سے تو نہیں مریں گے، بھوک سے مرجائیں گے۔ مسئلہ موت سے مرنا نہیں بلکہ بھوکا رہنا ہے۔ خلافتِ راشدہ کی نظیر یہ بتاتی ہے کہ بکری کے ایک بچے کا بھوک سے مرجانا بھی حکمران کو خدا کی عدالت کے کٹہرے میں مجرم کی طرح کھڑا کردے گا۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا بصیرت افروز جملہ ہمیشہ حکمرانوں کو یاد دلاتا رہے گا کہ ریاستی پالیسی کی اصل بنیادیں کیا ہیں۔ موت تو ایک دن آنی ہے، حیاتِ ابدی کوئی لکھوا کر نہیں لایا ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے، اگر زندگی کی حقیقت کا تصور ہو تو وبائی امراض بھی ایک امتحان ہیں، ورنہ اللہ کی پکڑ۔ پاکستان سے لے کر امریکہ تک تمام حکمرانوں کا طرزِ عمل یہ بتارہا ہے کہ وہ آزمائش اور امتحان کو اللہ کی پکڑ اور عذب میں تبدیل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کسی کو توبہ اور استغفار کی توفیق عطا ہی نہیں ہورہی ہے۔ تاثر یہ دے رہے ہیں جیسے انہیں انسانی جانوں کی حرمت کا بڑا پاس ہے، اس لیے وہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے ’’لاک ڈائون‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس ’’عالمی لاک ڈائون‘‘ نے ایک عام، غریب اور مفلس آدمی کی زندگی کو جس عذاب میں مبتلا کردیا ہے اس کا احساس کہیں نظر نہیں آرہا۔ یہ بات غلط نہیں ہے کہ لوگ تو دیگر بیماریوں سے کورونا سے زیادہ تعداد میں مر رہے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ متعدی وبا ایک اندھا تیر ہے، لیکن یہ کون سی عقل مندی ہے کہ ایک ہلاکت سے بچنے کے لیے دوسری ہلاکت کو قبول کرلیا جائے! ہمارے حکمرانوں کی بے بصیرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ’’پورے ایمانی جذبے‘‘ سے مساجد اور عبادت گاہوں کو بند کرنے پر اصرار کررہے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ بیماری کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، اللہ کا نہیں۔ اللہ کی مدد کے بغیر کسی بیماری، کسی تکلیف، کسی بلا سے نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔