آٹے اور چینی کے بحران نے مفاداتی طبقے کی سیاست کو بے نقاب کردیا ہے
پاکستان کی سیاست، جمہوریت اور معاشرے پر عملی طور پر طاقت ور طبقوں یا مختلف مفاداتی گروہوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے قبضہ کیا ہوا ہے، اور ہماری سیاست ان طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور جمہوری عمل کمزور… جبکہ طاقت ور مافیا یا مفادات پر مبنی گروہ زیادہ طاقت حاصل کرچکا ہے۔ یہی یہ لوگ حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں، ان کا باہمی گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ یہ مزید طاقت ور فریقین کو ساتھ ملا کر ایک دوسرے کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ ان طاقت ور لوگوں کے مقابلے میں اصولی طور پر ہماری سیاست اور جمہوریت کو مضبوط ہونا چاہیے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سیاست اور جمہوریت کی باگ ڈور ہی ان کاروباری اور مفاداتی طبقوں کے ہاتھ میں ہوگی تو ہم کیسے اس جنگ کو جیت سکتے ہیں! ایک مشہور مقولہ ہے کہ جب سیاست اورکاروبار کا باہمی تعلق ہوگا تو اس کے نتیجے میں سیاست اور جمہوریت کمزور، جبکہ کاروبار یا منافع کو برتری ہوگی۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ سیاست میں کروڑوں، اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں لگائے جانے والے سرمائے کے مقابلے میں زیادہ کمانا چاہتے ہیں۔ اس طبقے کے نزدیک سیاست اورجمہوریت دولت کمانے کا ایک مؤثر ہتھیار ہے، اور خاص طور پر کاروباری طبقات کا سیاست میں بالادست ہونا اُن سیاسی اور جمہوری لوگوں کی شکست ہے جو کسی اصول یا نظریے کے تحت سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
حالیہ کچھ عرصے میں آٹے اور چینی کا جو بحران پیدا ہوا، اور اس کے نتیجے میں جو شور بلند ہوا اُس نے ایک بار پھر ہماری سیاست میں اس مفاداتی طبقے کی سیاست کو بری طرح بے نقاب کیا۔ حکومت پر باربار الزام لگ رہا تھا کہ اس معاملے میں جو سیاسی ڈکیتی ہوئی ہے وہ حکومت کے اندر سے ہی ہوئی ہے۔ حزبِ اختلاف سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اس بحران پر بننے والی کمیٹی کا حال بھی ماضی سے مختلف نہیں ہوگا، اور خاص طور پر جب الزام کی زد میں وزیراعظم کے قریبی ساتھی ہوں۔ لیکن اب جب واجد ضیا کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ جاری کی ہے تو اس نے بہت سے حلقوں میں ہلچل پیدا کی ہے۔ میرے لیے یہ رپورٹ حیران کن نہیں،کیونکہ ماضی اور حال کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل پہلی بار نہیں ہوا بلکہ تواتر کے ساتھ کھیلا جاتا رہا ہے، اور حکمرانوں کا طاقت ور طبقہ اس کھیل کا پرانا عادی ہے، اور اس کو بنیاد بنا کر یہ لوگ دولت کماتے ہیں۔
یہ مسئلہ محض حکومتی جماعت یا اُس کی اتحادی جماعتوں کا نہیں ہے، بلکہ اس کھیل میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سمیت دیگر راہنما بھی شامل ہیں۔ سبھی جماعتوں میں ایسے مضبوط اور طاقت ور لوگ موجود ہیں جو اپنے کاروبار کی بنیاد پر نہ صرف سیاست کرتے ہیں بلکہ اپنے کاروبار کو تحفظ بھی دیتے ہیں۔ اسی طبقے نے باہمی گٹھ جوڑ کی مد د سے بیوروکریسی اور ادارہ جاتی عمل کو بھی کمزور کیا اور ان کو اپنی سیاسی مداخلتوں کی بنیاد پر اپنے حق میں استعمال کیا۔ یہ لوگ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے پارٹی قیادت کے قریب ہوتے ہیں، یا خود پارٹی قیادت بھی اس کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں نیک نام اور اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، مگر اپنی اپنی جماعتوں کے کمزور داخلی نظام، خوداحتسابی اور جوابدہی کی عدم موجودگی، یا قیادت کی آمریت یا بادشاہت کے سامنے یہ طبقہ بے بس اور لاچار ہوتا ہے۔ جو لوگ آواز اٹھاتے ہیں وہ قیادت کے ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں اور انہیں ان جماعتوں میں عملی طور پر دیوار سے لگادیا جاتا ہے۔
ہمارے رائے عامہ بنانے والے افراد اور اداروں میں بھی ایسے لوگ اس طاقت ور مافیا کے سامنے کمزور ہوتے ہیں، یا وہ ان سے سمجھوتا کرکے ان ہی کی زبان بولتے ہیں۔ اس طاقت ور مافیا کے خلاف جب بھی کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کی جائے یا اس پر آواز اٹھائی جائے تو یہی رائے عامہ تشکیل دینے والے اس کرپٹ مافیا کو جمہوریت، قانون کی حکمرانی، سیاسی نظام کی بقا اور سیاسی مفاہمت کے نام پر بچانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کرپٹ مافیا دن بدن نہ صرف مضبوط ہورہا ہے بلکہ اس نے اپنی جڑوں کو اور زیادہ پھیلا کر اپنا دائرۂ کار وسیع کرلیا ہے۔ کاروباری طبقات چاہے وہ کسی بھی شعبے سے ہوں، بعض اوقات حکومت اور ریاست پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں، اور یہ امر ریاست کو بھی کمزور کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہی وہ طاقت ور طبقہ ہے جس نے اپنے کاروبار کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور بیوروکریسی میں اپنے اہلِ خاندان یا من پسند افراد کو شامل کرکے نظام پر اپنا کنٹرول مضبوط بنایا ہوا ہے، اور ان کو لگتا ہے کہ ہماری اجارہ داری اسی دولت کی بنیاد پر قائم رہے گی۔
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کی سیاست اور جمہوریت میں ایک لفظ ’’کارپوریٹ سیاست اور جمہوریت‘‘ بھی سننے کو ملتا ہے۔ اس فلسفے کے تحت سیاست اب سیاسی جماعتیں کم اور کاروباری طبقہ یا کمپنیاں زیادہ کرتی ہیں۔ دولت کے اس کھیل میں سیاسی جماعتیں بھی اس طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ کارپوریٹ جمہوریت یا سیاست سے مراد ایسی سیاست ہے جو عوامی مفادات کے بجائے منافع یا ایک مخصوص طبقے کے کاروباری مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسی سیاست میں عام آدمی کے حصے میں محرومی، معاشی بدحالی… یا سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر تفریق پر مبنی سیاست کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سیاست میں اگر جمہوریت، قانون اور شفافیت یا جوابدہی پر مبنی حکمرانی کو طاقت دینی ہے تو پھر کاروبار سے جڑی اس سیاست کے سامنے ایک مضبوط بند باندھنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں، اور اس کھیل کو سیاسی حکمتِ عملیوں کی بنیاد پر جیتا بھی جاسکتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت ور مافیا یا مفاداتی گروپ کس طریقے سے ہماری سیاست، جمہوریت، پارلیمنٹ، کابینہ، ارکانِ اسمبلی، عدالتوں، میڈیا اور بیوروکریسی کو اپنے تابع بناکر انہیں مفلوج کرتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں فرد کے مقابلے میں اداروں کی حکمرانی ہونی چاہیے، تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان طاقت ور طبقات کو قانون کے دائرۂ کار میں لایا جائے، اور وہ قانون کی حکمرانی کے سامنے خود کو جوابدہی کے لیے پیش کریں۔ سیاسی کارکنوں کو اس غلط فہمی سے باہر نکلنا چاہیے کہ ان کی جماعتیں، ان پر قابض یہ دولت مند طبقہ ان کے لیے جمہوریت، انسانی حقوق اور عوامی مفادات کی جنگ لڑرہا ہے۔ اب وقت ہے کہ تبدیلی کی جو بھی صورتیں کسی نہ کسی شکل یا کمزوری کے طور پر نظر آرہی ہیں ان کے ساتھ ہمیں خود کو کھڑا کرنا ہوگا۔ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کے تناظر میں اس بحث کو آگے بڑھانا ہوگا کہ ہماری سیاست کو ان طاقت ور مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بننے سے بچایا جائے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ یہاں یہ کام محض ایک کمزور جمہوری نظام نہیںکرسکے گا۔ جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ ریاستی نظام کو بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ کیونکہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ریاست سے جڑے مفادات کا ہے۔ اگر ہم نے اس مفاداتی یا باہمی گٹھ جوڑ کے کھیل کو یہاں چیلنج نہ کیا تو پھر یہی لوگ ہوں گے جو ہماری سیاست اور جمہوریت میں بالادست ہوں گے، اور ہم ان کے ہاتھوں یرغمال بھی بنیں گے۔ معلوم نہیں آٹے اور چینی کے بحران کے کرداروں کو کس حد تک احتساب کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے، یا ان کو سزائیں ملتی ہیں۔ کیونکہ ماضی میں یہ طاقت ور طبقہ اپنے مضبوط نظام کے باعث احتساب کے کسی مضبوط شکنجے میں نہیں آسکا، اور اب بھی یہ کام مشکل ہوگا۔ لیکن اگر اِس دفعہ بھی ہماری حکومت، ریاست سے جڑے ادارے اور قانون ان لوگوں کے سامنے اپنی کمزوری دکھاتے ہیں تو یہ ایک بڑا سانحہ ہوگا۔
یہ سب کچھ اس لیے بھی توڑنا، یا کمزور کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں اس ملک میں منصفانہ ترقی اور مواقع سمیت کمزور طبقات کو سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام دینا ہے اور ان میں سیاسی نظام میں ملکیت کا احساس پیدا کرنا ہے تو روایتی طرز کی سیاست کے چنگل سے خود بھی باہر نکلنا ہوگا اور دوسروں کو بھی باہر نکالنا ہوگا۔ یہی پاکستان کے ریاستی مفاد میں ہے کہ ہم منصفانہ اور شفاف سیاست کی طرف پیش قدمی کریں۔