ڈارونیت،اسلام اورعالمی وبا

پاکستانی دانشور پرویز ہودبھوئے کے کالم پر ایرانی نژاد امریکی اسکالر کا تبصرہ

دانیال حقیقت جو
پاکستانی سیکولر جدیدیت پسند پرویز ہودبھوئے نے کورونا آفت کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دفعہ پھر ڈارون، مودی، محمد بن سلمان اور خاص طور پر ”روشن خیال“ مغرب کی خوب تعریف کی۔ جبکہ دوسری طرف ہم مسلمان تو ٹھیرے ”دقیانوس“ کہ ہم نے ڈارون کو رد کردیا، کیونکہ ہم پورے وثوق سے جانتے ہیں کہ ہر شے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کی قدرت میں ہے۔
پرویز ہودبھوئے اسلام کے بارے میں تو جاہل ہیں ہی، لیکن ان کی سائنس کے بارے میں جہالت ان کی اسلام کے بارے میں جہالت سے بھی زیادہ ہے۔
مختصر یہ کہ پرویز ہود بھوئے کا کہنا ہے:۔
”چارلس ڈارون ایک ایسا نام ہے جس سے پاکستانیوں کو نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے۔ اسکول اور یونیورسٹی کے اساتذہ جن کو یہ تھیوری پڑھانا پڑے، وہ یا تو اس موضوع کو سرے سے ہی نظرانداز کردیتے ہیں، یا پھر پڑھانا ہی پڑے تو ڈارون کو خوب برا بھلا کہتے ہیں۔“
بھئی ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان میں ایسا ہے- میں اس بات پر خوش ہوں کہ پاکستان میں لوگ عرصۂ دراز سے ڈارون ازم کے مسترد شدہ ڈھکوسلے کے خلاف ہیں۔ کیا پرویز ہود بھوئے نے حیاتیات میں ہونے والی جدید تحقیقات سے خود کو آگاہ نہیں رکھا، کہ اب تو نظریہ ارتقا پر یقین رکھنے والے محقق بھی خود اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ ڈارون ازم نے زندگی کی ابتدا کو سمجھنے میں کوئی قابلِ تحسین کردار ادا نہیں کیا۔
ڈینس نوبیل نے جو کہ آکسفورڈ میں بائیولوجسٹ ہیں، ڈارون ازم کے دعوے پر بہت صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ:۔
”نیو-ڈارون ازم کا جینیاتی ماڈل فیل ہوچکا ہے“۔
بیالوجسٹ کیون لالینڈ اور ان کے ساتھیوں نے دنیا کے انتہائی مستند مانے جانے والے سائنسی مجلّے ”نیچر“ میں شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں قدرتی انتخاب (یعنی نیچرل سلیکشن) کے نظریے کے غلط ہونے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا ”کیا ارتقائی نظریے پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے؟ اور پھر خود ہی جواب دیا کہ ”بالکل، ہمیں اس (تھیوری پر نئے سرے سے غور کرنے) کی فوری اور اشد ضرورت ہے“۔
ملحد فلاسفر جیری فوڈور اور بیالوجسٹ ماسیمو پیاٹلی پالمارینی نے ایک پوری کتاب لکھ ڈالی جس کا موضوع ہی یہ تھا کہ ”ڈارون سے کہاں غلطی ہوگئی“۔ اور اس کتاب میں انہوں نے ڈارون کی تھیوری کو بالآخر مسترد کردیا۔
مشہورِ زمانہ ملحد فلاسفر تھامس نیگل نے ایک کتابچہ لکھ کر ہلچل مچا دی جس کا عنوان تھا: ”ذہن اور کائنات (موجودات) … مادیت پرست ڈاروینی نظریۂ قدرت کا غلط ہونا کیونکر یقینی ہے“۔
” Mind and Cosmos: Why the Materialist Neo-Darwinian Conception of Nature is Almost Certainly False.”
حال ہی میں ییل یونیورسٹی (Yale University) کا پروفیسر اور کمپیوٹر سائنٹسٹ ڈیوڈ گلرنٹر ایک مضمون لکھنے کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا، مضمون کا عنوان تھا “Giving Up Darwin” یعنی ”ترکِ ڈارون“
ایسی اور بہت سی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر ہود بھوئے نے ان ساری تحقیقات سے نابلد رہنے کی قسم کھا رکھی ہے، اور یہ پاکستان کو ایک عرصے سے گرے پڑے الحاد کی مادیت پرستی کے بت کی طرف گھسیٹنے کے درپے ہیں۔
پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے:۔
”ڈارون کی قدرتی انتخاب کی تھیوری بیالوجی کے لیے ایسے ہی بنیادی حیثیت کی حامل ہے جیسے فزکس کے لیے نیوٹن کے قوانین۔ اگر کوئی انسان کشش ثقل کی تھیوری کا انکار کرتا ہے تو اس سے کشش ثقل ختم نہیں ہوجاتی (یعنی ڈارون کی تھیوری کا وجود ایسا ہے جیسا کشش ثقل کا)“۔
یہاں بھی لگتا ہے ہود بھوئے کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ جدید فزکس میں نیوٹن کے قوانین کی اب وہ اہمیت نہیں رہی، کیونکہ جدید فزکس میں نیوٹن کے قوانین کو قدرے مفید لیکن کشش ثقل کی قوت کی تعریف کے لیے غلط ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اب اس کی جگہ جنرل ریلیٹیویٹی (عمومی نظریۂ اضافیت) کو مادی فلکیاتی اجسام میں اس کشش کا ماخذ سمجھا جاتا ہے جس کو کشش ثقل کہتے ہیں۔
ہود بھوئے کا کہنا ہے:۔
”ڈارون کی تھیوری کے بغیر نہ تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جرثومے کیسے میزبان خلیے کے ساتھ جڑتے ہیں، نہ وائرس وغیرہ کے ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اس تھیوری کے بغیر کوئی دوا یا ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔“
ہود بھوئے کی اس بات پر محض ہنسا ہی جاسکتا ہے، کیونکہ یہ صریح جھوٹ ہے۔ تاریخ کے سرسری مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بیماری کے خلاف ویکسین وغیرہ کا استعمال چین میں دسویں صدی سے ہورہا ہے۔ ویکسین کی جدید شکل ایڈورڈ جینر نامی فزیشن نے 1796ء میں چیچک کے خلاف ایجاد کی تھی۔ جبکہ یہ ایجاد ڈارون کی پیدائش سے بھی تیرہ سال پہلے کی بات ہے۔ (یعنی چیچک کے خلاف ویکسین پہلے آگئی اور ڈارون بعد میں پیدا ہوا)- ایڈورڈ کی تیار کی ہوئی ویکسین نے حیران کن طور پر چیچک کی وبا کو ختم کردیا تھا، حالانکہ وہ ڈارون کی تھیوری کے متعلق کچھ نہ جانتا تھا۔
دلچسپی کی بات ہے کہ ایڈورڈ جینر کوئی مادہ پرست ملحد نہیں تھا بلکہ ایک مذہب پرست عیسائی تھا۔ اس کا اپنا بیان ہے کہ ”میں اس بات پر حیران نہیں کہ لوگ اس ویکسین کو بنانے میں میرے شکر گزار نہیں، بلکہ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ وہ خدا کے بھی شکرگزار نہیں جس نے مجھے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔“
جدید ویکسین کے موجد کو اس بات کا ادراک تھا کہ خدا ہی ہر بھلائی کا منبع ہے- کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آج مادہ پرست لوگ ربِ کائنات کی بارگاہ میں وقف ہونے اور اس کے سامنے عاجزی کو تو تسلیم نہیں کرتے، لیکن وباؤں سے نجات کا سہرا اپنے پِدّے سروں پر بڑے شوق سے باندھ لیتے ہیں (چہ پدی اورچہ پدی کا شوربہ)
پرویز ہود بھوئے کا کہنا ہے:۔
۔”حتیٰ کہ دنیا کے انتہائی رجعت پرست اور سائنس کو مسترد کرنے والے لیڈر بھی آج سائنس دانوں کی منتیں کررہے ہیں کہ ہمیں اس مصیبت سے جلد نجات دلاؤ۔“
یہاں بھی کس واضح طریقے سے ہود بھوئے نے اپنے عدم تحفظ اور کمتری کے احساس کو رب کو ماننے والوں پر تھوپ دیا ہے۔ (دراصل ہود بھوئے کا یہ بیان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود اہلِ ایمان کی طرف سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔)۔
مسلمان آج بھی اللہ کے سوا کسی کی منت سماجت نہیں کررہے۔ جبکہ وہ لوگ جن کا کوئی ایمان نہیں، اور الله کی الہامی تقدیر کا فہم نہیں رکھتے، اصل میں یہی لوگ ہیں جن کے پاس دوسرے انسانوں سے مدد کی بھیک مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ ان کو بچا لیں۔ پوری دنیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی مل کر بھی اللہ کی بنائی ہوئی ایک انتہائی چھوٹی سی مخلوق کا مقابلہ نہ کرسکی اور اس نے انسانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اگر سائنس نجات دہندہ ہے اور اس میں ہر مسئلے کا حل ہے تو سائنس نے انسان کو اس ہلاکت سے ابھی تک نجات کیوں نہ دلائی؟ سائنس اور جدید تہذیب کی یہ ”شاندار عمارت“ اتنی ہی کمزور اور بوسیدہ ہے کہ ایک معمولی سا وائرس اس کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے؟
سوچنے کی بات تو یہ ہے اللہ کی کیسی کیسی مخلوقات موجود ہیں، یا مستقبل میں وجود میں آئیں گی جو انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور اگر وہ ظاہر ہوجائیں تو کورونا ان کے مقابلے میں محض ایک کھلونا معلوم ہو۔ سائنس ان سوالوں کے جوابات نہیں دے سکتی، کیونکہ سائنس (جس کو یہ اپنا بت بنائے ہوئے ہیں، اس) کو تو اپنی لاعلمی کا ادراک تک نہیں ہے۔ پھر بھی پرویز ہودبھوئے اور ان جیسے مادہ پرست اپنے ٹوٹے پھوٹے اور ناکافی فہم کو پوری دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں!۔
براہِ مہربانی اپنا ”فہم“ اپنے پاس رکھیں۔ہمیں ایسے نظریات کی بالکل کوئی ضرورت نہیں۔
اللہ قرآن میں فرماتا ہے: ”بے شک انسان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا-“(سورۃ الانسان:1)۔
اور اس ”ناقابلِ ذکر شے“ کی یہ مجال کہ یہ سمجھتی ہے کہ قدرت کے بارے میں اس کے الل ٹپ نظریات ہی ”عقلِ کُل“ اور واحد نجات دہندہ ہیں؟
کتنی مناسب بات ہے کہ ایک وائرس نے متکبر اور گناہوں کے بارے میں لاپروا جدید انسان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے ہیں!
یقینا ًاہلِ ایمان، مادہ پرست لوگوں کی خود فریبی کی نفی کرتے ہوئے اپنے تمام معاملات اپنے خالق و مالک کے سپرد کرتے ہیں جو اکیلا ہی کسی مصیبت کے آغاز اور انجام پر قدرت رکھتا ہے، کہ جب اور جس اسلوب پر وہ مناسب سمجھے وہ کرے۔
اللہ ہمارے دِلوں اور ذہنوں کا تزکیہ فرمائے اور اپنے غصے سے بچائے، آمین
(دانیال حقیقت جو کے انگریزی مضمون
Pervez Hoodbhoy Fails in Science and in Islam
سے ترجمہ کیا گیاhttps://muslimskeptic.com )
مترجم : Rehan Qurashi
نظر ثانی : Usman EM