خیبرپختون خوا…کورونا اور حکومتی کارکردگی

پاکستان کے مؤقر تحقیقاتی ادارے گیلپ پاکستان کے حال ہی میں کورونا کے حوالے سے چاروں صوبائی حکومتوں کی کارکردگی جاننے کی غرض سے کیے گئے ایک ملک گیر سروے کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختون خوا کے 90 فیصد لوگوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صوبائی حکومت کے اقدامات اور انتظامات پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ صوبے کے صرف 7 فیصد لوگوں نے حکومتی اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ، جبکہ باقی 3 فیصد لوگوں نے اس حوالے سے کوئی رائے نہیں دی۔ اس سروے میں شامل لوگوں کو عمر کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں 30 سال سے کم، 30 سے50 سال، اور 50 سال سے زائد عمر کے لوگ شامل تھے۔
اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات پر عوام کے بھرپور اعتماد نے ہمیں اس مشکل صورت حال سے مزید مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے حوصلہ دیا ہے، اور ہم عوام کے تعاون سے اس آزمائش میں سرخرو ہونے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اس مشکل وقت میں صوبے کے عوام نے انتظامیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا ہے جس کے لیے میں تہِ دل سے عوام کا مشکور ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ حکومت اس وبا سے لوگوں کی جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر کوششیں جاری رکھے گی۔
ملک بھر کی طرح خیبرپختون خوا میں بھی اس مہلک وائرس میں مبتلا مریضوں میں سے 20کی حالت مزید خراب ہوگئی ہے جنہیں صوبے کے مختلف ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں داخل کردیا گیا ہے، ہسپتالوں میں کورونا کے داخل مریضوں کی تعداد بھی تادم تحریر 181 تک پہنچ گئی ہے، جبکہ دیگر قرنطینہ سینٹروں یا پھر اپنے گھروں میں قرنٹائن ہیں۔ تشویش ناک حالت میں ہسپتالوں میں داخل ان مریضوں میں 2 ایچ ایم سی، 12 ایل آر ایچ، 2کوہاٹ، ایک مردان، ایک بی کے ایم سی صوابی اور 2 سوات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل 6 مریضوں کی حالت تشویش ناک تھی جن میں اب اضافہ ہوگیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے صوبے کے 12 ہسپتالوں کو ضروری سامان فراہم کردیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم کے مطابق یہ حفاظتی سامان ایل آر ایچ، کے ٹی ایچ، پولیس سروسز ہسپتال، مردان میڈیکل کمپلیکس، ڈی ایچ کیو بونیر، چارسدہ، مردان، ٹانک، ملاکنڈ، دیر، ایس جی ٹی ایچ سوات، اور نوازشریف کڈنی ہسپتال سوات کو مہیا کیا گیا ہے۔ این ڈی ایم اے کے تعاون سے موصول شدہ سامان سے 1462 این 95 ماسک متعلقہ ہسپتالوں کو بھیج دیے گئے ہیں جس میں ایل آر ایچ کو 590، کے ٹی ایچ کو222، مردان میڈیکل کمپلیکس کو 154، ایس جی ٹی ایچ سوات کو 120 اور دیر لوئر کے لیے 162 این 95 ماسک بھیجے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق 23363 سرجیکل فیس ماسک اور 20713 دستانوں کے ساتھ دیگر حفاظتی سامان متعلقہ ہسپتالوں کو ترجیحی بنیادوں پر مہیا کردیا گیا ہے جس میں 2765 حفاظتی سوٹ، 633 گاؤن اور 1315 شوزکور شامل ہیں۔
اسی اثناء خیبر پختون خوا حکومت نے کورونا وائرس سے جاں بحق صحافیوں کے اہلِ خانہ کے لیے 10لاکھ روپے، جبکہ وائرس کا شکار ہونے والوں کا سرکاری خرچ پر مکمل علاج کرانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ مشیر اطلاعات اجمل وزیر کا پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا میں مجموعی طور پر 275 قرنطینہ سینٹر ہیں، جن میں 18ہزار افراد کی گنجائش ہے، جبکہ مختلف ہسپتالوں میں ایچ ڈی یوز بنائے گئے ہیں جن میں 480 افراد کی گنجائش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں 110 آئیسولیشن سینٹروں میں 3 ہزار افراد کی گنجائش ہے، جبکہ 583 وینٹی لیٹر موجود ہیں جن کی تعداد میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ صحت کے عملے کے بیک اَپ کے طور پر لوکم اسکیم متعارف کرائی گئی ہے جس میں اب تک 9ہزار 500افراد نے رجسٹریشن کرائی ہے جن میں اسپیشلسٹ اور جنرل ڈاکٹر، پیرا میڈکس اور نرسیں بھی شامل ہیں۔ اجمل وزیر نے کہا کہ صوبے میں روزانہ 450 سے زائد ٹیسٹ ہورہے ہیں اور اس ماہ کے اختتام تک ہم اسے ایک ہزار، اور نجی ہسپتالوں کی مدد سے اس تعداد کو یومیہ پانچ ہزار تک پہنچائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے 32 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے جس میں 8 ارب محکمہ صحت، 6 ارب ریلیف ڈپارٹمنٹ، اور 5 ارب صوبے میں ٹیکسوں کی مد میں ریلیف دیا گیا ہے، جبکہ وفاق کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکیج کے لیے 3600 پوائنٹس رکھے گئے ہیں جہاں اس پروگرام کے تحت یکمشت 12ہزار روپے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے اعلان کردہ امداد کے علاوہ تین ماہ کے لیے 6 ہزار روپے یکمشت بھی صوبے کے مستحق عوام کو دیے جائیں گے، جبکہ اس کے علاوہ ایک لاکھ مستحق خاندانوں کو زکوٰۃ کی مد میں 12ہزار روپے الگ سے دیے جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ محمود خان کی قیادت میں ہمارے دو اہداف ہیں، پہلا یہ کہ ہمیں عوام کو تحفظ دینا ہے، اور دوسرا ہدف غریب مسکین، دہاڑی دار مزدوروںکے مسائل کو حل کرنا ہے جس کے لیے مختلف پیکیج زیر غور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا کے عوام متعلقہ اداروںسے بہت اچھے طریقے سے تعاون کررہے ہیں اور ہمارے اس محاذ کے اصل ہیرو ڈاکٹر بہترین انداز میں فرائض انجام دے رہے ہیں، جبکہ ہمارا ریلیف ڈپارٹمنٹ اور پولیس بھی بہت محنت کررہی ہے۔ مشیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی صحافی خدانخواستہ کورونا وائرس سے جاں بحق ہوتا ہے تو اس کے لواحقین کو 10لاکھ روپے دیے جائیں گے، اور اگر کوئی بیمار ہوا تو اس کے اخراجات بھی حکومت ہی برداشت کرے گی۔ اس موقع پر انہوں نے صوبے کے صحافیوں میں 750 ماسک، ایک ہزار سینی ٹائزر اور 100 حفاظتی آلات بھی فراہم کیے، جبکہ متعلقہ حکام کو میڈیا ہاؤسز کے دفاتر میں جاکر اسپرے کرنے کی بھی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں ایمرجنسی کی صورت حال ہے، میں تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا اپنی سیاست اور سیاسی ایجنڈے کو کچھ عرصے کے لیے قرنطینہ کرلیں، تاکہ ہم مل کر اس کورونا وائرس کی وبا سے نمٹ لیں، اس کے بعد سیاست ہوتی رہے گی۔
گیلپ سروے میں بہترین انتظامات کے حوالے سے باقی تینوں صوبوں پر سبقت لے جانے کے باوجود یہ بات ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث اب تک ملک میں سب سے زیادہ اموات خیبر پختون خوا میں رپورٹ ہوئی ہیں جہاں تادم تحریر 34، جبکہ سندھ 30، پنجاب 19، گلگت بلتستان 3، اسلام آباد اور بلوچستان میں ایک ایک مریض جاں بحق ہوا ہے، جبکہ آزاد کشمیر تاحال کسی بھی ہلاکت سے محفوظ ہے۔ اسی طرح اب تک کورونا سے ہونے والی اموات اور متاثرہ مریضوں میں اضافے کی اطلاعات کے دو پہلو سامنے آئے ہیں، پہلے پہلو کا تعلق ہماری بے حسی اور غیر سنجیدگی سے ہے جس سے متعلق خبریں آج کے اخبارات کی شہ سرخیوں کی صورت میں چیخ چیخ کر پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کررہی ہیں۔ ان خبروں میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ پشاور جوکورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، لاک ڈائون کی پابندیوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے گلی، محلوں اور بازاروں میں نکل آئے ہیں۔ اندرون شہر کے چھوٹے ہوٹل، کھانے پینے اور ہیرڈریسر کی دکانیں بھی کھل گئی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے بعد نوشہرہ سے چار نوجوانوں کے دریائے کابل میں تیراکی کے نتیجے میں ڈوبنے، نیز موٹر سائیکل، راستے، جائداد اور رشتے کے مختلف تنازعات کے پے درپے واقعات میں کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کی اطلاعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ کورونا کی تباہ کاریوں کا ہم پر کتنا اثر ہوا ہے، اور من حیث القوم ہم اس عالمی وبا کو کتنی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ جیسا کہ گیلپ کے متذکرہ سروے میں کہا گیا ہے اور وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا نے اس کی تائید اور تعریف بھی کی ہے کہ جب تک لوگ اس وبا کو سنجیدہ لے کر لاک ڈائون کی پابندی کرتے ہوئے گھروں تک محدود ہوگئے تھے تب تک کیسز میں اضافے کے حوالے سے حالات قدرے کنٹرول میں نظر آرہے تھے، لیکن اب جب لوگوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ تیزی سے کرنا شروع کردیا ہے تو حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ صرف پشاور میں ایک دن میں چار افراد جان کی بازی ہارگئے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم مزید کسی بڑے نقصان سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں طے شدہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے چنددنوں کے لیے کچھ اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرناہوگا۔
خیبر پختون خوا کے حوالے سے یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ یہاں مجموعی طور پر صرف275 قرنطینہ سینٹر ہیں جن میں محض 18ہزار افراد رکھنے کی گنجائش ہے، جبکہ مختلف ہسپتالوں میں بنائے گئے ایچ ڈی یوز میں 480 افراد کی گنجائش ہے، صوبے میں 110 آئیسولیشن سینٹروں میں 3 ہزار افراد رکھے جاسکتے ہیں، جبکہ سارے صوبے میں صرف 583 وینٹی لیٹر موجود ہیں جو ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں ہیں۔
اس صورتِ حال کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ہمارا طبی عملہ اس وبا سے کم ترین سطح کے حفاظتی آلات کے ساتھ نبرد آزما ہے، اور متاثرہ افراد کی دن رات خدمت میں مصروف ہے۔ واضح رہے کہ فرض شناسی کی تاریخ رقم کرتے ہوئے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرنے والے گلگت بلتستان کے ڈاکٹر اسامہ ریاض اس قافلے کے پہلے سالار قرار پائے تھے، جب کہ اُن کے بعد کراچی کے الخدمت فائونڈیشن ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر عبدالقادر سومرو بھی اس مشن کی تکمیل میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ آج کی تازہ اطلاع یہ ہے کہ نشتر ہسپتال ملتان کے 12 ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے 6 اراکین میں بھی کورونا کی تصدیق ہوچکی ہے، جس کے بعد ان تمام افراد کو قرنطینہ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح پشاور میں واقع حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اور مولوی جی میموریل ہسپتال کے دو سینئر ڈاکٹروں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد ملک بھر میں مجموعی طور پر 170 ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکس اس مہلک وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ طبی عملے کی کورونا کے خلاف بے لوث خدمت کی ویسے تو ہمیں قدم قدم پر ایک سے بڑھ کر ایک مثال نظر آئے گی لیکن چند روز قبل اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بننے والی ایک تصویر نے حقیقی معنوں میں جہاں طبی عملے کا ایک مثبت اور متاثرکن چہرہ دنیا بھر میں روشناس کرایا ہے، وہاں اس تصویر میں خیبر پختون خوا کے قدامت پرست اور رجعت پسند سمجھے جانے والے صوبے میں دو جوان ڈاکٹر بیٹیوں کو کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تیمارداری اور علاج کے لیے ایک شفیق والد جس عزم اور حوصلے کے ساتھ کورونا کے محاذ پر روانہ کررہے ہیں اُس نے واقعتاً پورے اہلِ پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ یہ والد کوئی اور نہیں بلکہ اس صوبے کی جانی پہچانی علمی شخصیت اور پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ پشاور کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام ہیں، جنہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ قوم کے سپوت اپنی اعلیٰ تربیت یافتہ اولاد کے ہمراہ کسی بھی قومی مصیبت کے خلاف فرنٹ لائن پر کس عزم اور حوصلے سے لڑتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی بچیوں نے خیبرپختون خوا کے طبی عملے بشمول ڈاکٹروں، نرسوںاور پیرامیڈیکس کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیاکو انسانیت دوستی اور خدمتِ خلق کا جو پیغام دیاہے اس پرپوری قوم اُن کودل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلامِ عقیدت پیش کرتی ہے۔