لاک ڈاؤن تیسرا ہفتہ،عدالت عظمیٰ کا ازخود نوٹس

سیاسی حلقوں میں عام انتخابات یا نئے سیاسی سیٹ اپ کے لیے چہ مگوئیاں

کورونا وائرس کے متعلق ہر شخص گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے کہ نہ جانے اس سے کب نجات ملے گی! کہا جارہا ہے کہ طویل عرصہ اس سے نبردآزما رہنا پڑے گا۔ اس خطرے سے ہم تبھی باہر نکل سکیں گے جب اس وائرس کی ویکسین تیار ہوگی، جس میں کم از کم ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ویکسین کی دستیابی کے بعد حکومت اقوام عالم کی پیروی کرتے ہوئے شہریوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک نیا سماجی نظم و ضبط جاری کرے گی، اور مستقبل میں ہر قسم کے سفر، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کے وقت کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ مستقبل میں زندگی کورونا ٹیسٹ کے ہتھیار تھرمو گن کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اقوام عالم میں اس وبا کے خلاف ردعمل کیا تھا، کیسا ہونا چاہیے تھا یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ اس وبا کے خلاف حکومتی اقدامات اور ردعمل سے متعلق ہے۔ سماجی فاصلہ رکھنے کی ہدایت، مساجد میں نماز کے لیے نمازیوں کی محدود تعداد کا فیصلہ حکومت کا اپنا نہیں تھا، بلکہ فتویٰ جامعہ الازہر سے منگوایا گیا، اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اس معاملے میں کس حد تک اعتماد میں لیا گیا اس بارے میںکونسل کی آزادانہ رائے پارلیمنٹ میں آنی چاہیے۔ درجنوں علمائے کرام کی رائے اب بھی مختلف ہے۔ حکومت نے مساجد کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد نوٹیفکیشن کے بجائے پولیس کے ذریعے کرایا، یہی وجہ ہے کہ فیصلے کی مزاحمت ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ نے بروقت سوال اٹھایا کہ فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ کا فورم کیوں استعمال نہیں ہوا؟ پارلیمنٹ میں اس معاملے کو زیر بحث لانا حکومت کی ذمہ داری تھی۔ حکومت اس لیے مطمئن ہے کہ خوف کی فضا میں اپوزیشن جماعتیں بھی سماجی فاصلہ رکھنے اور اس کے نتیجے میں مساجد میں بھی نمازیوں کی تعداد محدود کرنے پر اُس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ بہرحال ملک میں لاک ڈائون جاری ہے اور اس میں 30 اپریل تک مزید توسیع کردی گئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ لاک ڈائون نشیب و فراز سے گزرتا ہوا سختی اور نرمی کے ماحول میں مزید ڈیڑھ سال تک جاری رہے گا۔ عالمی ادارۂ صحت دنیا کے ہر ملک کو ویکسین کی تیاری تک لاک ڈائون کی ہدایت دے چکا ہے، اور دفتر خارجہ کی رائے کی روشنی میں حکومت اقوام متحدہ اور اُس کے اداروں کی کسی بھی ہدایت کو نظرانداز نہیں کرے گی۔ حکومت اس وقت ملک میں کاروباری سرگرمیاں شروع کرنا چاہتی ہے، جس کے لیے پہلے مرحلے میں اندرونِ ملک پروازیں شروع کی جائیں گی، اور مسافروں کے لیے کورونا ٹیسٹ، سینی ٹائزر، ہاتھوں پر دستانے اور چہرے پر ماسک لازمی قرار دیا جائے گا۔
اس پورے بحران میں حکومت پر بہت سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں جو بے معنی نہیں ہیں۔ ان سوالات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بحران ایک طبقے کے لیے باقاعدہ کاروبار بن گیا ہے۔ حفاظتی کٹس، ماسک اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس بحران کا دوسرا تلخ پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ہسپتالوں میں دیگر امراض سے ہونے والی اموات بھی خوف بڑھانے کے لیے کورونا کے کھاتے میں ڈالی جانے لگی ہیں۔ خوف کی وجہ سے پورا ملک اس وقت صدمے کی کیفیت میں چلا گیا ہے۔ لاک ڈائون کے تیسرے ہفتے میں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے۔ تیسرے ہفتے تک حکومت کی کمزور حکمت عملی کے باعث ملکی معیشت کو پانچ سو ارب کا نقصان پہنچ چکا ہے، صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اس وقت تک بائیس ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ کراچی میں ہر روز بندرگاہ پر بیرونِ ملک سے دو ہزار سے زائد کنٹینر پہنچتے ہیں۔ درآمد اور برآمدکنندگان کا نقصان اب تک چار سو ارب روپے سے زائد ہے۔ بہرحال اس نوٹس کے بعد حکومت کے سامنے پانچ بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے حکومت اب سپریم کورٹ کے کٹہرے میں جاکھڑی ہوئی ہے۔ حکومت کی ایک ٹیم نے سپریم کورٹ میں ایک بریفنگ بھی دی تھی، جس میں اُن اقدامات کی تفصیل بتائی گئی تھی، جو حکومت نے اب تک کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے اور مریضوں کے علاج معالجے کے سلسلے میں کیے ہیں۔ چیف جسٹس، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ سپریم کورٹ نے اب کے پی کے اور پنجاب سے بھی انتظامات کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد کا یہ پہلا سوموٹو نوٹس ہے، جس کی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا ہے۔ فاضل عدالت نے دریافت کیا ہے ’’کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پارلیمان کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟‘‘ عدالت نے بہت سخت ریمارکس دیے ہیں کہ ’’حکومتی معاونین خصوصی کی فوج ہے، 50 لوگوں پر مشتمل بڑی کابینہ ہے، ان 50 لوگوں پر مبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کے بھی الزامات ہیں، ہمارے خدشات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں، مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا، مبینہ طور پر کرپٹ لوگو ں کو مشیر رکھا گیا۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں، ظفرمرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا، وزیراعظم نے خودکو لوگوں سے دورکیا ہوا ہے، مشیروں اور معاونینِ خصوصی کی ٹیم نے وفاقی کابینہ کو غیر مؤثرکررکھا ہے، کابینہ کا حجم دیکھیں، 49 ارکان کی کیا ضرورت ہے؟ مشیروں اور معاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کررکھاہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کچھ جانتے ہی نہیں، عدالت کا مقصد آرٹیکل 9کا اطلاق ہے‘‘ ان ریمارکس کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ دیا اور پنجاب میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع جانے اور پنجاب سے دوسرے صوبے میں جانے پر پابندی کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ آئین کے عین مطابق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی زندگی اور آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دیتا ہے، لہٰذا سپریم کورٹ نے اس حکم کو آئین کے منافی سمجھا اور کالعدم قرار دے دیا۔ یہ بھی سوال اٹھا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں آمنے سامنے ہیں۔ عدالت کے روبرو اٹارنی جنرل نے وضاحت دی کہ ایسا اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ حکومتی مشیران اور وزرائے مملکت پرکتنی رقم خرچ کی جارہی ہے؟ کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں، کیا پارلیمنٹیرینز پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہے ہیں؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کی طاقت ہوتی ہے، اس کی نمائندگی کرتی ہے، لوگوں کو گھروں میں بندکردیا گیا ہے، حکومت ان تک پہنچے۔ کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے، صدرِ مملکت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے؟ حکومت کو خود عوام تک رسائی یقینی بنانا ہوگی۔ فاضل عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ظفرمرزا کے خلاف ایف آئی اے میں جو انکوائری چل رہی ہے وہ کیاہے؟ عدالت کے سوالات صرف سندھ نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں، وزیراعظم کی ایمان داری پر کوئی شک و شبہ نہیں، وزیراعظم صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے ساتھ مؤثر حکمت ِعملی وضع کریں گے۔ سندھ حکومت آٹھ ارب کا راشن تقسیم کرنے کے شواہد بھی نہ پیش کرسکی۔ عدالت نے رسیدیں طلب کی ہیں اور جواب مانگا ہے کہ سندھ حکومت بتائے کتنا راشن کس کو دیا؟ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ راشن کہاں سے اورکتنے میں خریدا گیا؟ یہ سب تفصیلات بہت اہم ہیں، مگر حکومت کے پاس تو اعدادو شمار ہی نہیں ہیں۔ جو اعدادو شمار دستیاب ہیں وہ قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 144 ارب روپے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں تقسیم ہوں گے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس ایک کروڑ 20 لاکھ خاندان رجسٹرڈ ہیں جنہیں احساس پروگرام کے ڈیٹا کے ذریعے کیش ٹرانسفر کیا جائے گا۔
عدلیہ میں جو سوالات حکومت سے پوچھے جارہے ہیں یہ بہت اہم ہیں، کیونکہ خیال یہ ہے کہ کورونا وائرس ایک ایسا موقع تھا جب وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ اپنی کارکردگی سے ثابت کرسکتے تھے کہ وہ ملک کے انتظامی امور چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن پچھلے تین چار ہفتوں سے زائد عرصے میں حکومت نے انتہائی غیر ذمہ دارانہ طرزِعمل اختیار کرتے ہوئے ثابت کردیا ہے کہ اُسے عوامی مسائل کا قطعی طور پر ادراک نہیں ہے، اور اگر ہے تو مسائل حل کرنے میں لاپروائی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ سیاسی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آئندہ وفاقی بجٹ عمران خان حکومت کا آخری بجٹ ہوگا، کیونکہ اب پلان بی پر عمل درآمد کا کام شروع ہوچکا ہے، حکومت کی رخصتی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنا استعفیٰ اور اسمبلیاں توڑنے کی تحریر بھی صدرِ پاکستان کو بھجوا دی ہے۔ اسمبلیاں توڑنے کے لیے تو کوئی سمری نہیں گئی، جب بھی ایسی کوئی سمری جاتی ہے تو صدر کو اس پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ صدر فیصلہ نہ بھی کرے تو آئینی طور پر ازخود اڑتالیس گھنٹوں میں اسمبلی تحلیل ہوجاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی عادات اور مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ کسی قیمت پر پیچھے ہٹیں گے نہ ہار تسلیم کریں گے، بلکہ آخری وقت تک حالتِ جنگ میں رہیں گے، اور یہی ان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔ اسمبلیاں توڑنے کی بات حقیقت نہیں ہے، تاہم دھواں ضرور اٹھ رہا ہے۔ اس کی وجہ پنجاب اور مرکز کے لیے شہبازشریف کی وہ تجاویز ہیں جنہیں ابتدا میں حکومت مسلسل نظرانداز کرتی رہی، اور بعد میں طاقت وروں کی جانب سے توجہ دلانے پر ان تجاویز پر عمل کیا گیا۔ یہ ایک بڑی سیاسی پیش رفت سمجھی گئی ہے، اس لیے سیاسی حلقوں میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک میں نئے عام انتخابات یا نئے سیاسی سیٹ اَپ کے لیے ضرور کہیں نہ کہیں کھچڑی پک رہی ہے۔ اس کی وجہ ملک کے ابتر ہوتے معاشی حالات ہیں۔ اب تک پوری دنیا کو کورونا کی وجہ سے 10کھرب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور دنیا بھر میں نصف ارب لوگ غربت کا شکار ہوسکتے ہیں، پاکستان میں معاشی نقصان کا تخمینہ پانچ سو ارب کے قریب قریب ہے۔ ملک میں ابتر ہوتی ہوئی معیشت کے ماحول میں خلیجی ممالک میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی بھی بے روزگار ہونے کی صورت میں ملک واپس آنے والے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بے روزگاری کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی تو پاکستان جیسا ملک یہ بوجھ کیسے برداشت کرے گا؟ حکومت نے 50 لاکھ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، اب تو ایک کروڑ افراد کے بے روزگار ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے، جس سے تنخواہ دار طبقہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے محروم ہوجائے گا۔ اس بحران کے باعث ملکی معیشت شدید دبائو میں آچکی ہے، ملک کی کُل قومی پیداوار 1.3 فیصد کی سطح پر آرہی ہے، ہماری برآمدات بتدریج کم ہورہی ہیں، ملک میں صنعتیں بند پڑی ہیں، بے روزگاری کا جن بوتل سے باہر نکل چکا ہے، ان حالات میں وزیراعظم بیرونِ ملک پاکستانیوں سے فنڈز کی اپیل کررہے ہیں، دوسری جانب ڈاکٹروں کو حفاظتی کٹس فراہم کرنے کے بجائے ٹائیگر فورس بناکر انہیں شرٹس دینے پر ایک محتاط اندازے کے مطابق 45کروڑ روپے اخراجات کا تخمینہ ہے، جب کہ احساس پروگرام کے تحت امدادی رقم تقسیم کرنے کے لیے ایک منصوبہ دیا اور اس کی تشہیر کی گئی، مگر اب خاموشی سے یہ منصوبہ ہی تبدیل کردیا گیا ہے، تشہیر کی رقم بھی ضائع کی گئی ہے۔ ابھی تو پورا ملک صرف لاک ڈائون کے حصار میں ہے، اس وجہ سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچا، یہ تخمینہ سامنے آنے والا ہے، اور اس سے بھی بڑا اور خطر ناک بحران اُس وقت شروع ہوگا جب بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانی شہری ملازمتیں ختم ہوجانے پر ملک واپس آئیں گے۔ خلیجی ممالک سے کم و بیش پانچ لاکھ افراد وطن واپس آسکتے ہیں، ان کی وجہ سے ملک کو10 ارب ڈالر کا زرِمبادلہ مل رہا ہے۔ پانچ لاکھ پاکستانیوں کی واپسی کا مطلب ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانا ہے۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے میں بڑا مالیاتی پیکیج دے تو دیا ہے لیکن یہ پیکیج بھی عام آدمی کے لیے نہیں ہے، یہ بہت ہی محدود بلکہ انگلیوں پر گنے جانے والے اُن چند لوگوں کے لیے ہے جو حکومت کی اجازت سے اپنا کالا دھن اس مارکیٹ میں لانے کو تیار ہوں گے ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت یہ پیکیج مسترد کرچکی ہے۔ خوفناک حقائق یہ ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعدملک سے پونے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نکل چکی ہے، روپے کی قدر اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں مسلسل کمی آ رہی ہے، کاروبار بند ہونے سے تیل، گیس اور بجلی کی کھپت میں30 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے جس سے توانائی کے شعبے پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔