لاہور کی صحافتی دنیا کی رونق سعید اظہر

برسوں پہلے نامور بیوروکریٹ اور ممتاز لکھاری جناب قدرت اللہ شہاب کی سوانح عمری ’’شہاب نامہ‘‘ شائع ہوئی تو ادبی حلقوں اور کتب مارکیٹ میں تہلکہ مچ گیا۔ اس کتاب میں قدرت اللہ شہاب کی یادداشتوںکے علاوہ اُن کے افسانے اور زندگی بھرکی تحریریں جمع کردی گئی تھیں۔ 1100 صفحات پر مشتمل اس سوانح حیات میں ’’یا خدا‘‘ کے نام سے قدرت اللہ شہاب کا معرکۃ الآرا افسانہ بھی شامل تھا۔ جب کہ ’’یاخدا‘‘ پر ڈیڑھ پیرا کا ایک تبصرہ بھی شامل کیا گیا تھا۔ اظہر سہیل مرحوم کا لکھا ہوا یہ تبصرہ پورے شہاب نامہ پر بھاری ثابت ہوا۔ انہی دنوں ممتاز صحافی اور منفرد انداز کے انٹرویو نگار جناب منیر احمد منیر کی کتاب ’’آئوٹ آف ڈیٹ‘‘ بھی شائع ہوئی جس میں ماضی کے سات ممتاز فلمی ستاروں کے انٹرویوز شامل تھے۔ کتاب کی ابتدا میں کتاب کے مواد اور مندرجات کے بارے میں دو پیروں کی ایک تعارفی تحریر بھی شامل تھی، اور یہ ایک منہ بولتی حقیقت ہے کہ یہ تعارفی تحریر بھی پوری کتاب پر بھاری رہی۔ یہ تعارفی تحریر مصنف کے ہمدم دیرینہ جناب سعیداظہر کی ہے جو 9 اپریل 2020ء کو ہم سے رخصت ہوگئے۔
جناب سعید اظہر جو ایک زمانے میں علامہ سعید اظہر اور پھر مولوی سعید اظہر کے نام سے معروف ہوئے، صحافتی دنیا کی رونق اور لاہور شہر کا ایک چلتا پھرتا کردار تھے۔ میں جب صحافت کی دنیا میں داخل ہوا تو شہر کے صحافتی، سیاسی، علمی اور ادبی حلقوں میں جن صحافیوں کے ناموں کا ڈنکا بجتا تھا اُن میں جناب سعید اظہر شامل تھے۔ غائبانہ تعارف کے باوجود میری اُن سے ملاقات ذرا تاخیر سے ہوئی، لیکن پہلی ہی ملاقات میں وہ اس تپاک سے ملے اور بھرپور تاثر یہ دیا کہ وہ میرے پہلے سے شناسا ہیں، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ یہ صرف اُن کی وضع داری، عالی ظرفی اور حوصلہ افزائی کا ایک انداز تھا۔ ان کے مزاج کا غالب وصف یہ تھا کہ وہ بزرگ اور سینئر صحافیوں کے ساتھ احترام پر مبنی بے تکلفی سے پیش آتے اور نوآموزوں کے ساتھ اس انداز میں شفقت فرماتے کہ نہ تو ان پر اپنی سینیارٹی اور علمیت کا رعب گانٹھتے، اور نہ انہیں اپنے ساتھ فری ہونے کا موقع دیتے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو وہ اچانک لاہور کی کسی سڑک پر خراماں خراماں چلتے ہوئے یا کسی رکشہ سے اترتے یا سوار ہوتے ہوئے نظر آجاتے تو جیسے اٹکے ہوئے گلوں شکووں کو زبان مل جاتی۔ وہ کھڑے کھڑے شکوہ سنتے، کبھی اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتے، کبھی دوسرے کی غیر ذمہ داری کی نشاندہی کرتے اور جلد ملاقات کا وعدہ کرکے آگے بڑھ جاتے۔ وہ دوستوں کے ساتھ اپنائیت اور محبت سے گفتگو کرتے، لیکن اہلِ علم کی مجلس میں ایسے ایسے دانشورانہ نکات نکال کر لاتے کہ سب ان کی علمی وجاہت کے قائل ہوجاتے۔ انہیں گفتگو کا فن آتا تھا، جب کہ ان کی تحریر کی کاٹ اور اثر پذیری کمال کی تھی۔ وہ اپنی تحریر میں جتنے Blunt اور بے باک تھے، باہمی تعلقات اور میل جول میں اتنے ہی فراخ دل اور Accmodatie تھے۔ وہ زندگی بھر قدردانی اور ناقدری کے درمیان گرتے اور سنبھلتے رہے، بار بار گر گر کر سنبھلے، اور ہربار سنبھل سنبھل کر گرے۔ وہ جس قدردانی کے مستحق تھے بڑے افراد اور اداروں نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ وہ اپنی محنت اور صلاحیت کے بل پر اپنے آپ کو منواتے رہے، لیکن اس بے نام سی ناقدری کا کبھی گلہ نہیں کیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک سخی انسان تھے۔ اپنی زبان سے بھی سخاوت کرتے، اپنے رویّے میں بھی اس وصف کو بالاتر رکھتے، اور عام زندگی میں بھی اس خوبی کا بار بار ثبوت فراہم کرتے تھے۔ ان کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ ضرورت کے وقت اچانک مل جانے والے کسی بے تکلف دوست سے تلاشی دینے کا مطالبہ کردیتے اور اُس کی جیب میں جو رقم ہوتی، پورے انصاف کے ساتھ آدھی اُسے دے دیتے اور آدھی اپنی جیب میں ڈال لیتے۔ دو، چار دن کے بعد جب خود ان کے پاس اپنی مشقت کی کوئی کمائی آتی تو اس دوست کو ڈھونڈ کر ازخود اسے اپنی تلاشی دیتے اور ایک بار پھر پورے انصاف کے ساتھ آدھی آدھی رقم کرلیتے۔ بسا اوقات یہ رقم لی گئی رقم سے کئی گنا زیادہ ہوتی، مگر وہ ایک ہی بات اصرار کے ساتھ کرتے کہ اصول، اصول ہوتا ہے، جب تمہاری جیب کی رقم نصف ہوئی تھی تو میری جیب کی رقم بھی آدھی ہی ہوگی۔
سعید اظہر نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز جناب شریف فاروق کے روزنامہ ’’جہاں نما‘‘ سے کیا تھا، بعد میں انھوں نے روزنامہ کوہستان، جمہور، آزاد، پاکستان ٹائمز، نوائے وقت، مشرق، مساوات اور روزنامہ پاکستان میں بھی کام کیا، اور عمر کے آخری حصے میں روزنامہ جنگ سے بطور کالم نویس وابستہ ہوگئے۔ ان اخبارات میں انھوں نے مترجم اور سب ایڈیٹر سے لے کر نیوز ایڈیٹر، میگزین ایڈیٹر، ڈپٹی ایڈیٹر اور کئی بار ایڈیٹر کے پُرشکوہ عہدے تک کام کیا، لیکن ان کی اصل صلاحیتوں کا اظہار ہفت روزہ جرائد میں ہوا، ان کی تحریر کے جوہر آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان، مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ شہاب، سرور سکھیرا کے ماہنامہ دھنک، اور مجیب الرحمٰن شامی کے ہفت روزہ زندگی میں زیادہ کھل کر سامنے آئے۔ ایک زمانے میں انہوں نے سعادت خیالی کے ساتھ مل کر ہفت روزہ حالات اور حسن نثار اور مظفر محمد علی کی معاونت میں ہفت روزہ زنجیر بھی نکالا، جو اپنے اعلیٰ معیار کے باوجود مارکیٹ کے تقاضے پورے نہ کرسکنے کے باعث بند ہوگئے۔ سعید اظہر کی زندگی کا بڑا حصہ اخبارات میں خبروں کی تراش خراش اور قطع برید کرتے ہوئے گزر گیا۔ ان اخبارات نے اُن کی جان دار تحریر سے فائدہ اٹھانے کی بوجوہ کوشش نہیں کی، بعض لوگوں کا خیال تھا کہ آغا شورش کاشمیری کے تلامذہ میں اظہر سہیل، ہارون الرشید اور سعید اظہر سب سے نمایاں نام تھے، اور ان تینوں میں سب سے باصلاحیت اور کاٹ دار تحریر کے مالک سعید اظہر مرحوم تھے جنہیں اپنی صلاحیتوںکے اظہار کا وہ موقع نہ مل سکا جو باقی لوگوں کو مل گیا۔ میری دانست میں ان کی تحریر میں فیچرکا رنگ بہت نمایاں تھا لیکن کسی اخبار نے انہیں فیچر لکھنے کا موقع نہ دیا۔ اور شاید خود انہوں نے اس کے لیے کوئی کوشش بھی نہیں کی۔ یہ رنگ ان کے آخری عمر کے کالموں میں کچھ کچھ نظر آتا ہے، لیکن اس وقت تک ان کے اندر کیآتش اپنی تپش کھو چکی تھی۔ ایک دور میں جب راقم ایک قومی اخبار کا سٹی ایڈیٹر تھا تو اس اخبارنے نیوز فیچر شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کام کے لیے منو بھائی اور سعید اظہر کے نام پیش ہوئے۔ منوبھائی نے پہلے ہی مرحلے میں معذرت کرلی۔ سعید اظہر میری درخواست پر رضامند ہوگئے، لیکن دفتری پیچیدگیوں کے باعث یہ منصوبہ روبہ عمل نہ ہوسکا۔ سعید اظہر مرحوم کی تحریر کا ایک اور وصف Story Telling کا انداز تھا جسے وہ جاسوسی ناولوں کی طرح اٹھان دیتے اور اپنی مرضی کا نتیجہ نکال لیتے تھے۔
وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ذوالفقار علی بھٹو دونوں کے پرستار تھے۔ ایک زمانے میں وہ دائیں بازو کے لیے سرگرم تھے، مگر ان کے اپنے بقول بھٹو کی پھانسی کے بعد انہوں نے اپنا وزن بائیں بازو کے پلڑے میں ڈال دیا۔ درحقیقت وہ جب جماعت اسلامی کے ذہنی پس منظر کے ساتھ لاہور آئے تھے تب ہی سے ان کا اٹھنا بیٹھنا بائیں بازو کے اخبار نویسوں اور دانشوروں کے ساتھ ہوگیا تھا، جو رفتہ رفتہ مضبوط تعلق اور دوستی میں تبدیل ہوتا گیا۔ پھر صبح شام کا یہی تعلق ان کی سیاسی سوچ میں تبدیلی کا باعث بن گیا۔
سعید اظہر کی موت میرے لیے ذاتی نقصان بھی ہے۔ جب موقع ہوتا اور ان کی جیب اجازت دیتی، وہ مجھے کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے یا پارٹی کے لیے طلب کرتے، اور کھانے اور چائے کے ساتھ خوب صورت اور متاثر کن گفتگو سے نوازتے۔ پریس کلب اور صحافتی یونین کے معاملات میں وہ ہمیشہ ہماری سرپرستی فرماتے۔ ہماری تقریبات یا دعوت پر وقت نکال کر تشریف لاتے۔ ایک زمانے میں، میں کچھ شخصی خاکے لکھ رہا تھا۔ ایک آدھ خاکہ ان کی نظر سے گزرا۔ ملاقات ہونے پر بڑی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ پچاس خاکے مکمل ہو جائیں تو انہیں کتابی شکل دے دینا۔ میرے ذہن میں ایک خواہش سر اٹھا رہی تھی جسے میں ابھی زبان پر نہیں لا سکا تھا کہ انہوں نے یہ کہہ کر میری زبان پر آئے ہوئے الفاظ اچک لیے کہ یہ کام مکمل ہو جائے تو ایک کاپی مجھے دینا، میں اس پر تعارفی تحریر لکھوں گا۔ میری یہ خواہش ’’آئوٹ آف ڈیٹ‘‘ پر ان کی تحریر پڑھنے کے بعد سے ذہن میں کلبلارہی تھی، جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے اتنی آسانی سے ایسی پیشکش کر دی جو میری اوقات سے کہیں زیادہ تھی۔ میں اس پیشکش کے لیے ان کا ہمیشہ احسان مند رہوںگا۔لیکن مختار مسعود کی زبان میں ’’شاید انہیں جانے کی جلدی تھی یا پھر میں نے لکھنے میں دیر کردی‘‘۔
سعید اظہر کے ذہن میں ہمیشہ نت نئے منصوبے ہوتے تھے لیکن ان منصوبوں سے فائدہ اٹھانے والا انہیں کوئی نہ مل سکا۔
سعید اظہر اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی کُل سیاست چار شخصیات کی حمایت یا مخالفت کے گرد گھومتی ہے اور اگلی دو، تین دہائیوں میں بھی یہی کیفیت رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ چار شخصیات قائداعظم محمد علی جناح، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق ہیں۔ ان کی یہ بات بڑی حد تک درست لگتی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر کبھی مستقبل کے مؤرخ نے ہماری صحافت کو 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں آنے والے چار عامل صحافیوں کے گرد گھومتا ہوا محسوس کیا تو یقینی طور پر ان میں سے ایک علامہ سعید اظہر ہوں گے۔ رہے نام اللہ کا۔