حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟
عبدالعلیم خان دوبارہ پنجاب کابینہ کا حصہ بن گئے ہیں، کابینہ میں ان کی سینئر وزیر کی حیثیت بھی بحال کردی گئی ہے، اور اطلاعات یہ ہیں کہ بلدیات اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ان کی سابقہ وزارتیں بھی ان کے سپرد کی جائیں گی، تاہم فی الوقت انہیں خوراک کی وزارت کا قلمدان سونپا گیا ہے جو آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا کی تیارکردہ رپورٹ میں نااہلی کا مظاہرہ کرنے کے الزام کے بعد سمیع اللہ خان کے استعفے کے بعد خالی ہوئی تھی، اور چند ماہ قبل کے آٹا بحران اور آج کل کورونا بحران کے باعث آٹے کی قلت کے خدشات کے باعث خاصی اہمیت اختیار کرچکی ہے، کیونکہ ملک بھر میں گندم کے سلسلے میں ذرا سی کوتاہی آئندہ پورا سال ملک میں خوراک کی قلت اور مسائل کا سبب بن سکتی ہے، یوں اس مرحلے پر عبدالعلیم خان کو خوراک کی وزارت سپرد کیا جانا اُن کے لیے ایک امتحان اور آزمائش سے کم نہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ، وزیراعظم عمران خان کے لیے انتخابات سے قبل اور بعد میں خصوصاً حکومت سازی کے دوران جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان بہت اہم رہے ہیں، ان دونوں کو عمران خان کے لیے سرمائے کی فراہمی کی خودکار مشینیں یعنی اے ٹی ایم قرار دیا جاتا تھا۔ حکومت سازی کے مرحلے میں عبدالعلیم خان کا نام پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر سب سے نمایاں تھا، کیونکہ اس منصب کے ایک اہم امیدوار جناب شاہ محمود قریشی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے تھے، یا انہیں ہروا دیا گیا تھا، اور دلچسپ صورت یہ بھی تھی کہ صوبائی نشست پر شاہ محمود قریشی کو جس شخص نے ہرایا تھا وہ انتخابات کے فوری بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگیا تھا۔ بہرحال شاہ محمود قریشی کے وزارتِ اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہوجانے کے بعد عبدالعلیم خان اس منصب کے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرے تھے۔ مگر پھر اچانک یوں ہوا کہ عمران خان نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک قطعی غیر معروف رکنِ صوبائی اسمبلی عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کرکے تمام سیاسی مبصرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ عبدالعلیم خان کو وزیراعلیٰ نہ بنانے کے لیے یہ جواز پیش کیا گیا کہ اُن کے خلاف ایک ریفرنس نیب کے پاس زیرالتوا ہے۔ کابینہ میں سینئر وزیر کا درجہ دے کر اہم وزارتوں کے قلمدان اُن کے سپرد کردیئے گئے، اور عبدالعلیم خان نے بڑی حد تک نیک نیتی سے اپنی اس حیثیت کو تسلیم کرلیا اور کابینہ کے متحرک، بااختیار اور مؤثر ترین وزیر کے طور پر صوبے میں فعال ہوگئے، بلکہ بعض حلقوں کے نزدیک صوبے کے اصل وزیراعلیٰ تو وہی تھے، اور عثمان بزدار کا چہرہ محض دکھاوے کی حد تک تھا۔
پھر اچانک 6 فروری 2019ء کو عبدالعلیم خان زیر التوا ریفرنس میں پیشی کے لیے گئے تو نیب حکام نے انہیں گرفتار کرلیا، اور یوں انہیں وزارت سے استعفیٰ دے کر صوبائی کابینہ سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ کچھ عرصے بعد اگرچہ نیب ریفرنس میں ان کی ضمانت ہوگئی، مگر کورونا کے متاثرہ مریض کی طرح وہ ازخود سیاسی قرنطینہ میں چلے گئے۔ حکومتی جماعت کا اہم رہنما ہونے کے باوجود ان کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئیں۔ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق ضمانت پر رہائی کے بعد انہیں دوبارہ صوبائی کابینہ میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی، مگر انہوں نے معذرت کرلی۔ اب گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی بڑی ’’اے ٹی ایم‘‘ جہانگیر خان ترین کے چینی، آٹا بحران میں ملوث ہونے کے الزامات کے بعد دوری کے باعث شاید انہیں دوسری اے ٹی ایم کی ضرورت کا احساس زیادہ شدت سے ہونے لگا تو انہوں نے عبدالعلیم خان کو اسلام آباد بلاکر خصوصی ملاقات کی، اور بہت سی یقین دہانیوں کے ساتھ انہیں دوبارہ صوبائی کابینہ میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔ چنانچہ 13 اپریل کو انہوں نے دوبارہ صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا، صوبائی گورنر چودھری محمد سرور نے حلف لیا۔ کورونا کی وبا سے پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث تقریبِ حلف برداری نہایت محدود رکھی گئی اور اس کے شرکاء کی تعداد جو ماضی میں سینکڑوں میں ہوا کرتی تھی، ایک درجن سے بھی کم صرف گیارہ افراد تک محدود رکھی گئی، جن میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی شامل تھے۔ انہوں نے عبدالعلیم خان کو حلف برداری پر مبارک بھی دی اور کابینہ میں خوش آمدید بھی کہا۔ فوری طور پر انہیں وزارتِ خوراک کا قلمدان سپرد کیا گیا، اور حلف برداری کے اگلے روز 14 اپریل کو ان کے کابینہ کا سینئر وزیر ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
عبدالعلیم خان کے قریبی سیاسی و صحافتی حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ثالثی کے نتیجے میں ان کی کابینہ میں دوبارہ شمولیت ماضی کے مقابلے میں زیادہ مؤثر، مضبوط اور طاقت ور حیثیت میں ہے، کیونکہ وزیراعظم کی مداخلت سے اب وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور سینئر وزیر عبدالعلیم خان میں ’’پکی دوستی‘‘ ہوگئی ہے، اور دونوں کے مابین شکوک و شبہات اور احساسِ عدم تحفظ دور ہوچکا ہے، اور وزیراعلیٰ کو یہ یقین دہانی بھی کروا دی گئی ہے کہ ان کی موجودگی میں عبدالعلیم خان وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار نہیں ہیں۔ تاہم ابھی دیکھنا ہوگا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اور باہمی یقین دہانیاں اور ’’پکی دوستی‘‘ کب تک قائم رہتی ہے؟ کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت بننے تک جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان بھی ایک ہی جہاز میں ارکانِ اسمبلی کی مطلوبہ تعداد پوری کرنے کے لیے محوِ پرواز رہا کرتے تھے، مگر پھر عبدالعلیم خان سردار عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان سے اپنی دوری اور سیاسی قرنطینہ کا سب سے زیادہ ذمہ دار اپنے پرانے دوست جہانگیر ترین ہی کو قرار دیتے تھے۔