یہ شارع عام نہیں۔ کراچی کی یادگار سڑکیں

شاہ ولی اللہ میرے اُستاد زادے بھی ہیں اور چھوٹے بھائی بھی۔ جب میں نے گلستانِ خلیل میں قدم رکھا تو یہ سات برس کے تھے، لیکن استاذی کی تربیت سے یہ اُس وقت بھی اپنے قد سے بڑی باتیں کرتے۔ میرے محترم استادِ مکرم شاہ خلیل اللہ ندیمؒ غازی پوری (مدنی) نہ صرف اہل اللہ تھے بلکہ بلند پایہ ادیب، شاعر اور حق گو و بے باک صحافی بھی تھے۔ شاہ صاحبؒ کو گھر میں سب ابا کہہ کر پکارتے۔ ابا ہمارے بہترین دوست رہے، اپنی زندگی کے یادگار واقعات ہمیں اس طرح سناتے کہ لگتا ہم بھی اُن واقعات میں ابا کے ساتھ رہے ہیں۔ جونہی ابا کی بات پوری ہوتی، ولی سوالوں کی بوچھاڑ کردیتا، ابا مسکرا کر کہتے: ولی تو ہونہار صحافی ہے۔ اور آج ولی ایک سچے صحافی کی حیثیت سے نمایاں ہے۔
کراچی کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ان کا نام نیا نہیں۔ شہر کی تاریخ پر ان کے مضامین اخبارات و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ’’نارتھ کراچی نصف صدی کا قصہ‘‘ 2017ء میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔ سندھ کے نامور فرزند پیر علی محمد راشدی اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’جو کراچی ہم نے دیکھا تھا اُس کا اب نام و نشان باقی نہ رہا۔ کیا حال سنائوں پرانے کراچی کا، لفظوں کے لباس میں اُس ماحول کو سامنے نہیں لاسکتا۔ وہ کراچی شہر نہ تھا گلشن تھا، گلستان تھا۔ آبادی ڈھائی تین لاکھ تھی۔ صفائی میں پورے برصغیر میں پہلے نمبر پر تھا۔ آبادی خوش حال، صاف ستھری اور عمدہ تھی جسے اپنے شہر کی شان کا پورا احساس تھا۔ لوگ سڑکوں پر نرمی سے قدم رکھتے تھے جیسے پیروں کے نیچے پھول بچھے ہوں۔ یعنی سڑکوں تک کا احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا‘‘۔
’’حرفِ اول‘‘ میں تحریر ہے: ’’الغرض 1980ء تک کراچی کی سڑکوں پر راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کراچی کی ترقی کا سنہری دور برطانوی عہد تھا، اور کراچی کی تاریخ کا بدترین دور آج ہے، جس کے ہم شاید ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے کراچی کو برصغیر کے پہلے بہترین شہروں کی صف میں شامل کیا، اور پاکستانی حکمرانوں نے ایسے بدترین گڑھے میں دھکیل دیا ہے ۔
معروف صحافی نادر شاہ عادل ’’اظہارِ خیال‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’کہتے ہیں شہر تو صرف استعارہ ہوتے ہیں، اصل چیز ان کی سڑکیں ہیں جو ملکی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہوتی ہیں۔ بے نام سڑک کبھی منزل آشنا نہیں ہوتی۔ مشہور روسی ٹینس اسٹار ماریہ شیراپوا کہتی ہیں ’’ایسی سیکڑوں سڑکیں ہیں جن پر آدمی دھیان دیے بغیر چل کر منزل سے دور ہوجاتا ہے‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سڑکیں شعور کی منزل سے بھی آگاہ کرتی ہیں، لیکن وہ شاہراہیں، سڑکیں بقول خواجہ رضی حیدر کچرے اور غلاظتوں کے ڈھیر میں شہریوں کے لیے سوہانِ روح بن چکی ہیں، اربابِ اختیار سے فریاد کناں ہیں۔
اس کتاب نے ایک بنیادی سوال اُٹھایا ہے کہ سڑکیں کیوں تعمیر ہوتی ہیں اور ان کو نامور لوگوں سے کیوں منسوب کیا جاتا ہے؟ اس کتاب میں متعلقہ شخصیات کی مختصر سوانح حیات اور حوالوں سے یہ حقیقت خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ سڑکیں منزل کا پتا دیتی ہیں، جس طرح بے نام انسان کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اسی طرح شہر اپنی سڑکوں پر کندہ عالی شان ناموں سے شناخت پاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی اس کتاب نے شہر کی حرمت، اس کے تشخص، تمدنی ورثے اور حکومت اور شہریوں کے کمٹمنٹ کی تکمیل کی ہے جو اس شہر کی یادگار سڑکوں کے تحفظ اور نگہداشت کے حوالے سے ہم سب کا فرض ہے۔‘‘
’’یہ شارعِ عام نہیں‘‘، ’’علاقہ ممنوعہ‘‘ کے بورڈ اکثر ہم نے اہم سرکاری عمارات کی طرف جانے والے مخصوص راستوں، فوجی تنصیبات کے حامل علاقوں پر لگے دیکھے ہیں، مگر شاہ ولی اللہ نے ہر عام شاہراہ، سڑک پر تحقیق کرکے اتنا خاص بنادیا ہے کہ آپ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ’’یہ شارعِ عام نہیں‘‘ بلکہ خاص ہے۔ کتاب میں درج چند اہم سڑکوں کا احوال:
ایم اے جناح روڈ (برطانوی دورِ حکومت، اور بعد میں بھی اسے نیپیئر مول روڈ اور بندر روڈ بھی کہا جاتا تھا) کا شمار کراچی کی اہم سڑکوں میں کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں یہ سڑک مزارِ قائد سے شروع ہوکر کراچی کے انتہائی جنوب میں میری ویدر ٹاور پر ختم ہوتی تھی۔ یہ سڑک مزارِ قائد سے ’’عیدگاہ‘‘ تک دوطرفہ ہے، مگر ’’عیدگاہ‘‘ کے بعد یکطرفہ ہوجاتی ہے۔ 1918ء میں جب یہ سڑک بندر روڈ کہلاتی تھی، اس سڑک پر خالقدینا ہال کے سامنے ایک سینما قائم ہوا تھا جو پہلے اسٹار سینما کہلاتا تھا اور بعد میں ’’میجسٹک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1950ء کی دہائی میں ’’لائٹ ہائوس‘‘ سینما کے سامنے کمیونسٹ پارٹی نے اپنا دفتر بنایا جہاں معروف شخصیات بیٹھا کرتی تھیں۔ اسی سڑک پر 30 اپریل 1975ء تک ٹرام بھی چلا کرتی تھی۔ اسی سڑک پر قیام پاکستان سے پہلے لکشمی انشورنس بلڈنگ شہر کی واحد پانچ منزلہ اور سب سے اونچی عمارت تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی آٹھ منزلہ عمارت ’’قمر ہائوس‘‘ تعمیر ہوئی۔ ’’ریڈیو پاکستان‘‘ کے سامنے اقبال سینٹر سے متصل عمارت میں ممتاز فلمی شاعر و ہدایت کار نخشب جارچوی، کچھ فاصلے پر رکن قومی اسمبلی مولانا ظفر احمد انصاری، شاعر و طبیب ڈاکٹر یاور عباس کی رہائش گاہیں تھیں۔ جب کہ سڑک سے ملحقہ لائنز ایریا میں سابق رکن سندھ اسمبلی ظہور الحسن بھوپالی کی رہائش گاہ اور مولانا احتشام الحق کی مسجد تھی۔ اطراف کے علاقوں میں سینیٹر احترام الحق تھانوی، تنویر الحق تھانوی، اسکواش کے لیجنڈ جہانگیر خان، سابق صدر بنگلہ دیش ارشاد احمد، گلوکار اخلاق احمد، ٹیسٹ کرکٹر عبدالباسط، ہاکی کے معروف کھلاڑی ممتاز حیدر، کرکٹر شاہ زیب حسن، کونسلر محفوظ النبی خان، محمود خان، شفیع گجگ والے، رکن قومی اسمبلی قمرالنساء قمر سمیت کئی اہم شخصیات مقیم تھیں۔
’’نیپئر روڈ‘‘ سرچارلس نیپئر کے نام پر ہے کہ وہ اس شہر کا اس قدر خیر خواہ تھا کہ اس نے پہلی فرصت میں کراچی کو سندھ کا دارالحکومت قرار دیا اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سڑک لی مارکیٹ سے شروع ہو کر ڈینسو ہال پر ختم ہوتی ہے۔اس پر واقع ایک عمارت ’’بلبل ہزار داستان‘‘ نہایت معروف ہے۔
’’شاہ خلیل اللہ روڈ‘‘: اُستاذی کے نام سے موسوم یہ سڑک شارع فیصل پر ہوٹل فاران سے شروع ہو کر گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول نمبر 2 پر ختم ہوتی ہے۔ اُستاذی اسی اسکول میں برسوں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
’’اکبر روڈ‘‘: مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے نام سے موسوم یہ سڑک صدر ٹائون میں ریگل چوک سے شروع ہو کر ریڈیو پاکستان کے عقبی حصے رتن تلائو سے گزر کر برنس روڈ پر ختم ہوتی ہے۔ ایک کلو میٹر طویل اس شاہراہ کے نزدیک کراچی کی سب سے بڑی موٹر سائیکل مارکیٹ، کتابوں کی خریدو فروخت کا بڑا مرکز ’’اردو بازار‘‘، ایک پرانا مندر، ایک ویران عمارت ’’امینہ محل‘‘ واقع ہے۔ اسی سڑک پر معروف اسلامی، علمی، ادبی ثقافتی مرکز جمعیت الفلاح کی بلڈنگ ہے جس میں اب روزنامہ جسارت کراچی اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے دفاتر ہیں۔ اسی سڑک پر TITBIT نامی کتابوں کی بڑی دکان کے روحِ رواں سید محمد خلیل اور اُن کے صاحبزادے بک ایمبیسیڈر سید سلطان خلیل کی بھی رہائش گاہ ہے۔
نہایت دلچسپ اسلوب میں لکھی یہ تاریخی اہمیت کی حامل کتاب آپ پڑھیں گے تو پڑھتے ہی چلے جائیں گے ،کتاب عمدہ کاغذ، اچھی طباعت اور رنگین سرورق سے ہے۔