بچوں کو گھر میں کیسے پڑھایاجائے؟۔

پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں بچے اس وقت کورونا وبا کے خوف سے گھروں میں محدود ہیں۔ لیکن انہیں اگر پڑھایا نہ گیا تو وہ بہت تیزی سے اپنا سبق بھولتے جائیں گے۔
اس ضمن میں امریکہ اور یورپ کے ممتاز اساتذہ نے بعض طریقے بیان کیے ہیں جو اُن والدین کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں جو اپنے بچوں کی تعلیم کے متعلق فکرمند رہتے ہیں۔ آئیے باری باری ان امور کا جائزہ لیتے ہیں:
1۔ اسکول سجائیں، معمول بنائیں
گھر کا ایک کمرہ مجازی اسکول کے لیے مختص کیجیے۔ اگر ممکن ہو تو بچوں کو یونیفارم پہناکر بٹھائیں تاکہ وہ نفسیاتی طور پر اسے اسکول کے اوقات سمجھیں۔ یہ مشورہ ایک استاد برائن گیلون کا ہے، جو کہتے ہیں کہ بچے عادتوں کی قید میں ہوتے ہیں، اس کا فائدہ اٹھائیں۔ اس کے علاوہ ٹائم ٹیبل اور شیڈول کا اعلان بھی کیجیے۔ اس ضمن میں بچوں سے مشورہ بھی کیا جاسکتا ہے، تاکہ وہ اس میں دلچسپی لے سکیں۔
آٹھویں جماعت کو معاشرتی علوم پڑھانے والی استانی میکا شیپی کہتی ہیں کہ گھر کے اسکول کا دورانیہ اصل اسکول سے نصف ہونا چاہیے۔ اگر وہ اسکول میں 6 گھنٹے پڑھتے ہیں تو آپ گھریلو اسکول کے اوقات 3 گھنٹے کردیجیے۔
2۔ پلانر استعمال کیجیے
بچوں سے لکھوائیں اور پلانر کے تحت انہیں کام دیں۔ چھٹی جماعت کو انگریزی پڑھانے والی کرسٹینا کہتی ہیں کہ ہر بچے کی روزانہ کی روداد ایک پلانر میں لکھیں جس سے بچوں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ مزید کام پر راغب ہوں گے۔
3۔ اسباق کے دوران وقفہ
پانچویں جماعت کے بچوں کی استانی کیٹلن ڈولفن کہتی ہیں کہ اگرچہ اسکول میں کھیلنے یا نصف چھٹی کے اوقات ان کے اپنے لحاظ سے ہوتے ہیں، لیکن گھر میں ہر سبق کے بعد انہیں فراغت کے کچھ لمحات دیجیے۔ اس کے بعد دوسرے مضمون کا سبق پڑھائیں۔
4: اساتذہ سے مدد لیجیے
کیٹلن کا ایک اور مشورہ ہے کہ تمام والدین استاد نہیں ہوسکتے کیونکہ تعلیمی نفسیات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ نہ ہی والدین چند دنوں میں استاد بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اپنے اردگرد یا آن لائن استاد سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ فیس بک پر بھی بہت سے استاد ایسے ہیں جو مدد کے لیے موجود ہیں۔
5: بچوں کی دماغی صحت کا خیال رکھیے
اس میں شک نہیں کہ وبا کا یہ دور ہم سب کے لیے نفسیاتی مسائل کی وجہ بھی بنا ہوا ہے۔ اسی لیے بچوں کی دماغی صحت کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے، کیونکہ وہ خود کو قید میں محسوس کررہے ہیں۔ اس ضمن میں انہیں ہر ممکن حد تک مثبت رکھنے کی کوشش کیجیے۔
اگر وہ کچھ وقت آپ کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں تو انکار نہ کیجیے۔ گھر میں چہل قدمی کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کیجیے۔
6۔ اکتسابی رجحان پر دھیان دیجیے
یاد رہے کہ ہر طالب علم اپنے انداز سے سیکھتا ہے اور اس کی اکتسابی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے مسلسل غور کرتے رہیں کہ بچے کو کس طرح پڑھایا جائے۔ اگر کوئی طریقہ کام نہیں کررہا تو دوسری راہ اختیار کیجیے۔ لیکن یاد رہے کہ بچوں کی ہوم اسکولنگ بہت زیادہ مؤثر ہے، بس ضرورت ہے کہ اسے بچے کی ضرورت، اقدار اور طرزِ زندگی سے ہم آہنگ کیا جائے۔
7۔ آن لائن مدد حاصل کیجیے
یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارم پر بہت سے مستند اساتذہ کے لیکچر موجود ہیں جو گھر میں پڑھنے اور پڑھانے کے متعلق ہیں۔ آپ ان سے بھی رہنمائی لے سکتے ہیں۔ ان ویب سائٹس میں نیوز ای ایل اے اور ریڈ ورکس کی ویب سائٹ نمایاں ہیں۔ جبکہ سائنس پڑھانے کے لیے برین پاپ کی ویب سائٹ یاد رکھیں۔ ریاضی کے لیے ڈریم باکس اور زرن کی ویب سائٹ مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
8۔ تدریس میں سب شامل ہوں
اگر والدین خود بھی بچے کو پڑھائیں تو اس سے بچوں کا حوصلہ بڑھے گا اور آپ خود بھی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں گے۔ تعلیمی نفسیات کے ایک ماہر کریگ کنیر کہتے ہیں کہ والد اور والدہ دونوں ہی بچوں کو پڑھائیں۔ جیسے ہی آپ بچوں کی تدریس میں شامل ہوں گے عین اسی لمحے سے اس کے بہترین نتائج سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔
9۔ بچوں کی رائے مقدم رکھیں
یہ وقت ہے کہ آپ بچوں کے رجحان معلوم کرسکتے ہیں۔ کس مضمون میں وہ کتنی دلچسپی لیتے ہیں، یہ راز بھی آپ پر کھلتا جائے گا۔ گھریلو تدریس کے پورے عمل میں بچوں سے پوچھتے رہیں کہ وہ کیا کچھ سیکھ رہے ہیں اور کس شے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
10۔ قرآن، سیرت اور تاریخ
یہ تو یورپ اور امریکہ کے ماہرین کی رائے تھی کہ بچوں کا دن بھر کا شیڈول کیسا ہو اور کیسے پڑھا جائے۔ بحیثیت مسلمان بچوں کو قرآن پڑھانے، سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہؓ اور اہم تاریخی شخصیات سے آشنا کرانے کو بھی اپنے روز کے شیڈول میں شامل رکھیں۔ یاد رکھیں اس وقت کو اگر ہم نے ٹھیک استعمال کرلیا تو یہ آزمائش ہمارے لیے رحمت میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔