مثبت سوچ رکھیے

پروفیسر اطہر صدیقی
ایک نابینا لڑکا ایک عمارت کی سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے قدموں میں ایک ہیٹ رکھا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں میں ایک سائن بورڈ لیے ہوئے تھا جس پر لکھا تھا:۔
۔’’میں اندھا ہوں، مہربانی کرکے میری مدد کیجیے‘‘۔
اس کے ہیٹ میں چند سکے پڑے ہوئے تھے۔ ایک آدمی چہل قدمی کرتا ہوا ادھر سے گزرا۔ اس نے اپنی جیب سے چند سکے نکلے اور ہیٹ میں ڈال دیے۔ تب اس نے نابینا لڑکے سے سائن بورڈ لیا اور اس پر کچھ الفاظ لکھ دیے اور سائن بورڈ ایسی جگہ رکھ دیا جہاں اس پر لکھی نئی تحریر کو ہر وہ شخص جو ادھر سے گزر رہا تھا، دیکھ سکتا تھا۔ جلد ہی ہیٹ بھرنا شروع ہوگیا۔ بہت زیادہ لوگ اس نابینا لڑکے کو نقدی دے رہے تھے۔ تیسرے پہر کو وہ آدمی جس نے سائن بورڈ پر تحریر بدلی تھی واپس آیا، یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔ نابینا لڑکے نے اس کے قدموں کی چاپ سے اسے پہچان لیا اور دریافت کیا:
’’کیا آپ ہی نے آج صبح میرا سائن بورڈ بدلا تھا؟ آپ نے کیا لکھا تھا؟‘‘
اس نے جواب دیا:۔
’’میں نے صرف سچائی لکھی تھی۔ میں نے وہی لکھا تھا جو تم نے لکھا تھا، لیکن ذرا دوسرے انداز میں‘‘۔
اس نے لکھا تھا:۔
۔’’آج کا دن خوب صورت دن ہے اور میں اسے نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
کیا آپ سوچتے ہیں کہ پہلا سائن اور دوسرا سائن ایک ہی بات کہہ رہا تھا؟ یقیناً دونوں سائن لوگوں کو بتارہے تھے کہ لڑکا نابینا ہے۔ لیکن پہلا سائن کہہ رہا تھا کہ لڑکا اندھا ہے۔ دوسرے سائن نے لوگوں یا راہ گیروں کو بتایا کہ وہ کتنے خوش قسمت ہیں کہ وہ نابینا نہیں ہیں۔ کیا ہمیں دوسرے سائن کے زیادہ پُراثر ہونے پر متعجب ہونا چاہیے؟
کہانی کا حاصل: ہمیں جو کچھ بھی حاصل ہے اس کے لیے شکر گزار ہونا چاہیے۔ تخلیق کیجیے اور نئی راہیں نکالیے۔ فرق اور مثبت سوچ رکھیے۔ جب زندگی رونے کے لیے سو وجوہات دے تو زندگی کو دکھائیے کہ مسکرانے کے لیے آپ کے پاس ایک ہزار وجوہات ہیں۔ اپنا ماضی کسی پچھتاوے کے بغیر یاد رکھیے اور اپنے حال کا مقابلہ اعتماد سے کیجیے۔ مستقبل کے لیے بلاخوف تیار رہیے اور یقین کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ کسی شخص کو مسکراتے ہوئے دیکھنا سب سے خوب صورت منظر ہوتا ہے، اور اس سے بھی زیادہ خوب صورت ہے یہ بات کہ اس مسکراہٹ کی وجہ آپ ہیں۔ اپنے ہر دن سے شکر گزاری کے ساتھ لطف اٹھائیے۔