رمضان، مبارک

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
(متفق علیہ )
۔ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروئوں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘‘ (البقرہ2 :183) ۔
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے۔ اگر پہلے سے تقویٰ ہے تو اس کو مزید نشوونما دینا مقصود ہے۔ تقویٰ نومسلم یا عامی مسلمان کے لیے جس قدر ضروری ہے، اتنا ہی ایک عالم یا ولی اللہ کے لیے بھی ضروری ہے۔ تقویٰ کی کوئی حد یا انتہا نہیں۔ موت کے آنے تک زندگی کے ہر لمحے میں اس کا ہونا لازمی امر ہے۔ قرآن پاک میں تقویٰ کا لفظ 15مرتبہ آیا ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات، سب کی بنیاد تقویٰ ہے۔ اس سے مشتق الفاظ متقین 32 مرتبہ، متقون 19مرتبہ، یتق6 مرتبہ اور یتقون 18 مرتبہ استعمال ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ جنت میں داخلہ بھی تقویٰ سے مشروط ہے۔
مختصر الفاظ میں تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے خوف سے کوئی کام چھوڑ دینا، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے نفس پہ جبر کرنا، اپنے ظاہر اور باطن کو بہتر سے بہترین بنانے کی پوری کوشش کرنا۔
جس طرح انسان کا بدن لباس سے زینت پاتا ہے، اسی طرح تقویٰ سے روح مزین ہوتی ہے۔ روح کی زینت کا ایک مکمل تربیتی کورس رمضان المبارک میں کروایا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں تقویٰ پیدا کرنے کے دو واضح مقاصد ہیں:۔
-1 گزشتہ 11 مہینوں میں ہونے والی کوتاہیوں کا ادراک اور اصلاح کرنا۔
-2 آئندہ 11مہینوں کے لیے تعلیماتِ دین پر عمل کا جذبہ بیدار کرنا اور نیکیوں میں سبقت کے لیے تازہ دم ہونا۔
روزہ انسان کے باطنی رذائل کی اصلاح اور ظاہری اعمال و عادات کی نشوونما کا نام ہے۔ رمضان المبارک کا استقبال کرنے سے پہلے اپنا دل ٹٹول کر دیکھنا ہوگا کہ ہم روزے کی کون سی قسم رکھنے جارہے ہیں۔ جس قسم کا روزہ رکھنے کی خواہش ہوگی، اسی قدر تقویٰ ہمارے اندر پیدا ہوگا۔
روزے کی تین اقسام ہیں۔ جب روزے کا تعین کرلیا جائے گا تو ظاہری و باطنی کیفیات بھی اس کا ساتھ دیں گی۔

(1) عام/رسمی/انفرادی روزہ

اس کی تیاری کے لیے گھر کی صفائی، کچن میں خورونوش کی اضافی اشیاء، سحری افطاری کے خاص اہتمام، نماز تراویح اور قرآن پاک کی تلاوت، فارغ وقت میں سونے، ٹی وی دیکھنے وغیرہ سے کام چل جائے گا… یہ ایک رسمی روزہ ہے، اس لیے بھی کہ اس میں صرف اپنی ذات کو اپنے یا اپنے گھر تک محدود کیا گیا ہے۔ یہ انفرادی روزہ ہے۔
عام یا رسمی روزے سے تو عام سا تقویٰ یا رسمی تقویٰ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ اصلاح کی گنجائش ہے، نہ آئندہ کے لیے کوئی امید افزا صورت۔

(2) خاص/شعوری/اجتماعی روزہ

یہ خاص اس لیے ہے کہ روح کی بالیدگی کے لیے کچھ خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ مادی جسم کے خورونوش سے زیادہ، سحری و افطاری پر شکم پُری کرنے سے زیادہ روح کے خلاف کو پُر کرنے کی بابت غور و فکر ہوتا ہے۔ اس میں اپنے اردگرد کے لوگوں کی ضروریات کا خیال، اپنے شہر، محلہ، وطن کے بارے میں کوئی فکر تو لاحق ہوتی ہی ہے، چاہے کچھ نہ کرسکتے ہوں ۔ دعائوں میں خاص حصہ ہوتا ہے۔
شعوری/ خاص روزہ ہوگا تو تقویٰ کی صفت بھی شعوری انداز سے بڑھے گی، اس سے ایک مسلمان کی شعوری سطح پر مسلمان بن کر چلنے کی تربیت ہوگی۔ فرد کی تربیت ہی اسلام کے نظام تربیت کی بنیادی اینٹ ہے، بالخصوص جب یہ تربیت شعوری سطح پر ہوگی تو ایسے افراد کا مجموعہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کو وجود میں لانے کا باعث بنے گا۔

(3) خاص الخاص روزہ/ امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس رکھتے ہوئے روزہ

دل ہر وقت قربِ الٰہی کے احساس کے ساتھ دھڑک رہا ہو۔ اسی احساس کو لے کر جب خون سارے جسم میں گردش کرے تو خون میں گردش کی طرح پھرنے والا دشمن یعنی شیطان اپنی جگہ نہ پاسکے…اور فکر، قول اور عمل تقویٰ سے مزین ہورہے ہوں۔
رمضان المبارک پوری امتِ مسلمہ پر بیک وقت آتا ہے۔ یہ اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ میرا وجود پوری امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ رحمت، موجب رونق اور سببِ زینت بن رہا ہے۔ جب ہر مومن اپنے روزے کے عمل سے امتِ مسلمہ کی تقویت کا باعث بنے گا تو پوری امتِ مسلمہ اجتماعی تقویٰ کے خوب صورت حصار میں ہوگی… امتِ مسلمہ میں ایک نئی روح بیدار ہوگی اور وہ گزشتہ ہونے والے قصوروں کی تلافی کرنے اور آئندہ کی اصلاح کے لیے کچھ تو سوچے گی۔ اجتماعی روزے، خاص الخاص روزے سے ایسے ہی تقویٰ کے پیدا ہونے کی امید دلائی گئی ہے جسے روزے کے بنیادی مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
جب ہم نے تعین کرلیا کہ کون سا روزہ رکھنا ہے، تو پھر ساتھ ہی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک روزہ وہ ہے جو ہم شعور اور خاص جذبے سے رکھتے ہیں جو رمضان المبارک کے ساتھ منسوب ہے… اور یہی روزہ ایک بڑے روزے کی تربیت کرتا ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے، شعورکے ساتھ، پوری یکسوئی کے ساتھ، ہر لمحے تقویٰ کا حصول زندگی کا مقصد ہے۔ پوری زندگی کو قرآن پاک کے ضابطے کے مطابق بنانے کی جدوجہد…قرآن کو پوری دنیا پہ نافذ کرنے کی جدوجہد…
۔’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں…‘‘ (بقرہ2 :185)۔
ماہِ صیام کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس مقدس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوا… جس دن، مہینے، شخصیت، کام سے قرآن کی وابستگی ہوجائے وہ اہم ہوجاتا ہے۔
قرآن پاک اُس وقت اتارا گیا جب انسانیت سسک رہی تھی۔ انسان کو اپنا انسان ہونا ہی بھولتا جارہا تھا…روح کی بیماریوں نے اولادِ آدم کو صحت سے مایوس کردیا تھا۔ روحانی وجود کے ارتقا کے لیے قرآن پاک آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نسخہ شفا بناکر دیا گیا… ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
٭ قرآن ہدایت ہے، شفا ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لیے۔ (بنی اسرائیل 17 :821)۔
شفا ہے گزشتہ بیماریوں کے لیے، انسانیت کی بیمار روح کے لیے… گناہوںکی بخشش کے لیے۔
ہدایت ہے آئندہ صحیح راہ پہ چلنے کے لیے…۔
رحمت ہے، اس راہ پہ چلنے والوں کے لیے، دنیا اور آخرت میں۔