ابو صفا۔ بھٹکل
۔2 اپریل 2020ء کی سہ پر کو خبر آئی کہ مولانا سراج الحسن صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، ابھی جنوری میں ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب ۔ امیر حلقہ کرناٹک سے ملاقات میں معلوم ہوا تھا کہ وہ گر گئے ہیں ، اور ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، اور وہ اس حالت میں نہیں ہیں کہ رائچور سے بنگلور کسی ترقی یافتہ اسپتال میں منتقل کرکے ان کا علاج کیا جائے ، اسی وقت ذہن ٹھٹھک کر رہ گیا تھا اور ایک انجانا سا خوف دل ودماغ پر طاری ہوگیا تھا۔ کیونکہ وہ اٹھاسی سال کی عمر میں تھے، اور کچھ عرصہ سے پیرانہ عمری کی وجہ سے صاحب فراش تھے۔ آپ کی پیدائش مارچ ۱۹۳۲ء کو کرناٹک کے ایک پس ماندہ قصبہ جوال گیرا ۔ رائے چور میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام ابو الحسن تھا۔
بلگامی صاحب سے ہم نے تذکرہ کیا کہ تحریکیں شخصیات سے بنتی ہیں، ان کے عملی نمونے آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ بنتے ہیں، جب ہم نے شعور سنبھالا تو جماعت سے بڑی قد آور شخصیات وابستہ تھیں، جن کے فہم وفراست ، قربانی وللہیت کا زمانہ قسم کھاتا تھا، مولانا ابواللیث اصلاحی، محمد یوسف، صدر الدین اصلاحی، سید حامد حسین، سید احمد عروج قادری، محمد مسلم، محمد یوسف صدیقی، اختر حسن اصلاحی، جلیل احسن ندوی وغیرہ کیسے کیسے عظیم لوگ اس میں تھے، جنہوں نے بڑی بے نفسی اور شہرت سے بلند ہوکر خدمات انجام دیں، آج ہم ان کی سوانح اور حالات اور ان کی تحریروں کے نمونے تلاش کرتے ہیں تو نہیں ملتے ، جماعت کی موجودہ نسل تنظیم اور دستور سے تو واقف ہے، لیکن ان کے عملی نمونوں اور اپنی بلند وبالا شخصیات سے زیادہ تر ناواقف ہے۔ اور صورت حال کچھ یوں بنتی جارہی ہے کہ ان کی نئی نسل کے لئے اب اردو اجنبی ہوتی جارہی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو سہ روزہ دعوت کے بند ہونے کی نوبت نہ آتی۔ ڈاکٹر صاحب بڑے سلجھے اور سنجیدہ آدمی ہیں، ہماری بات ٹھنڈے دل سے سنتے رہے اور ایک طرح سے تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم مولانا سراج الحسن کی زندگی میں قدردانی کرتے ہوئے ان پر کوئی یادگار مجلہ نکالنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لئے ہمیں ڈھنگ سے کوئی مواد نہیں مل رہا ہے۔
مولانا سراج الحسن صاحب کو ہم نے پہلے پہل ۱۹۶۵ء میں ان کے رفیق کار مولانا محمد عبد العزیز مرحوم کے ساتھ بھٹکل کی جامع مسجد میں خطاب کرتے ہوئے دیکھا تھا، یہ ان کی بھر پور جوانی اور حوصلے کے دن تھے، عمر ابھی تینتیس کے آس پاس رہی ہوگی۔ یہ اس ناچیز کا لڑکپن تھا، شعور ابھی ناپختہ تھا، اس زمانے میں بھٹکل کے جو افراد منگلور، چنئی ، اور وجے واڑدہ میں تجارت اور معاش سے وابستہ تھے، ان میں سے زیادہ تر جماعت سے انس رکھتے تھے،اور اس کی شخصیات کے ساتھ بڑے احترام اور محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ یہاں کے علماء حضرات کا رویہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ لیکن یہاں کے مزاج کے مطابق جماعت کے نظم سے لوگوں کی وابستگی نہ ہونے کے برابر تھی۔
گزشتہ صدی میں سنہ ساٹھ کی دہائی مسلمانان ہند کے لئے قیامت بن کر آئی تھی، وطن عزیز کے طول وعرض میں آگ وخون کا کھیل کھیلا جارہا تھا، جہاں پر بھی مسلمان کچھ خوش حال تھے اور ان کے کاروبار تھے انہیں تباہ اور خاکستر کیا جارہا تھا، اس زمانے میں جن جماعتوں اور اداروں نے ملت کی ڈھارس بندھائی تھی ، ان میں جماعت اسلامی ہند سرفہرست تھی، اسی زمانے میں مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا تھا، اور اسے تقویت پہنچانے میں جماعت ہی آگے آگے تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جماعت کے سکریٹری سید حامد حسین مرحوم کا طوطی بول رہا تھا، ان کی گھن گرج سے پورا ملک گونج رہا تھا، اور آپ کے نقش پر چلتے ہوئے جماعت کے جوانوں میں سے مولانا عبد الرزاق لطیفی ، عبد العزیز، اور سراج الحسن صاحب ہراول دستے کی حیثیت سے آگے بڑھ رہے تھے، اور اپنے جوش خطابت کا لوہا منوا رہے تھے۔
۱۹۷۰ء میں جب اعلی تعلیم کے لئے ہمارا چنئی جانا ہوا تو کبھی کبھار بنگلور سے گذر ہوتا، اس کے لئے شیموگہ بس پر جاتے وہاں سے ٹرین کے ذریعہ بنگلور۔ ایک مرتبہ بس پر شیموگہ کے مرحوم عبد المجید صاحب سے ملاقات ہوئی جو بعد میں کرناٹک کے امیر حلقہ بھی شاید منتخب ہوئے تھے، یہاں سے ہمارا بنگلور سٹی مارکیٹ کے قریب واقع جماعت کے پرانے مرکز سفرکی تھکاوٹ دور کرنے اور سستانے کے لئے آنا جانا ہوا، جہاں سراج الحسن صاحب کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا، مرحوم(۱۹) سال کی عمر میں جماعت سے متعارف ہوئے تھے، ۱۹۵۷ء میں اس کے رکن، اور ۱۹۵۸ء سے ۱۹۸۴ءتک جملہ ( ۲۴ ) سال تک امیر حلقہ رہے تھے۔ انہیں اعلی تعلیم کے مواقع نہ مل سکے تھے ، شاید میٹرک بھی نہ کرسکے تھے، لیکن گھر یلو تربیت ، اور بڑوں کی صحبت اور دعوت اور قربانی کے جذبہ نے انہیں بڑے اعلیٰ مقام تک پہنچادیا تھا، ان کی شخصیت متشرع تھی، لباس اور وضع قطع بڑی موثر تھی، ان کی باتوں میں ایک اپنائیت محسوس ہوتی تھی، بڑے محنتی تھے، تہجد اور سنتوں کی پابندی تھی، تھک تھکا کر آتے تو کسی لکڑی کے تختے پر پڑے سوجا تے، انہیں نرم بستر اور گدے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی تھی، انہوں نے مشاورت ہو، یا پرسنل لابورڈ، مسلمانوں پر آنے والے ہر کڑے وقت میں مجاہدانہ کردا ادا کیا، ایمرجنسی کے دور میں سنت یوسفی بھی ادا کی، ان کی جد وجہد کا یہ عالم تھا کہ سفر وحضرمیں ان کے ایک ساتھی اعجاز اسلم صاحب نے ہمیں بتایا کہ شاہ بانو کیس کے زمانے میں جب کہ ملک بھر میں جلسوں اور تقریروں کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا، پیروں میں جیسے چکر لگے ہوئے تھے او ر دن دن بھر چند گھنٹے بھی آرام کے نہیں ملتے تھے، ان پر بڑے بڑے اجتماعات کی نظامت کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی، لیکن نیند پر ان کا اتنا کنٹرول تھا، کہ جلسہ چل رہا ہے، ایک مقرر کو دعوت دی ، پھر جاکر سو گئے، انہیں خراٹے دار نیند بھی آگئی، لیکن مقرر کے تقریر ختم کرنے سے پہلے خود ہی اٹھ کر اسٹیج پر آگئے اور نئے مقرر کو دعوت دی۔ ذمہ داری کا ایسا احساس اور نیند پر ایسا کنٹرول انہوں نے کسی اور میں نہیں دیکھا۔
دسمبر ۱۹۷۸ء میں کیرالہ چمناڈ عالیہ عربک کالج کا ایک تعلیمی سیمینار تھا، جس میں نئی عمارتوں کا سنگ بنیاد بھی ڈالا جارہا تھا، اس وقت بیرون ملک ، خلیجی ممالک سے بھی مہمان شریک ہورہے تھے۔ اس وقت میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس سے وابستہ تھا، جامعہ کے وفد میں اس ناچیز کو بھی شامل کیا گیا تھا، وہاں مولانا سراج الحسن صاحب سے ملاقات ہوئی، مولانا اس وقت دبئی ہوکر آئے تھے، انہیں ہمارے استاد احمد نوری مرحوم کے کنڑ ترجمہ قرآن (( دیویا قرآن)) کی اشاعت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا تھا، جسے وہ بھٹکل کے ایک صاحب خیر سعید حسین دامودی کے تعاون سے انجام دے رہے تھے۔ سراج الحسن صاحب نے ہمیں ذمہ داری سونپی کہ امارات کے مہمان شیخ علی بن عمیر مدیر اوقاف ام القیوین ، اور شیخ عبد اللہ المدنی مدیر اوقاف الفجیرۃ اور ان کے ساتھ ایک او رمعزز مہمان کو لے کر بھٹکل جاؤں اوروہاں سے جوگ فال(آبشار) ، ساگر، شیموگہ، بھدراوتی سے ہوتے ہوئے، بنگلور لے جاؤں،یہ سفر تقریبا دس دن پر محیط تھا، حافظ شبیر قدوسی مرحوم اس دوران شریک سفر رہے، جگہ جگہ جلسے اور خاطر داریاں ہوئی، اور مقامی لوگوں کے جنہوں نے شاید کبھی عربوں کو دیکھا نہیں تھا جذبات دیکھنے کو ملے، وہ ان سے ایسے مل رہے تھے، جیسے صحابہ کے دور کے کسی آدمی کو دیکھ رہے ہوں ، ان کی آنکھیں بھی شدت جذبات سے اشکبار ہورہی تھیں، بنگلور میں مولانا کا ساتھ رہا، ترجمانی کے لئے انہوں نے اس وقت عمرآباد کے ایک مدینہ منورہ کے فارغ استاد کو بلا یا تھا، لیکن انہیں اپنے جذبات کی ترجمانی اس ناچیز کے ترجمۃ میں زیادہ محسوس ہوئی، اور اس پر بڑی ہمت افزائی کی۔
چمناڈ کا ایک اور منظر بھی ہماری آنکھوں میں محفوظ ہے، یہ ادارہ اس زمانے میں جماعت کے وابستگان کا تھا، اور شاید اب بھی ہو، اس میں شرکت کے لئے اس وقت کے امیر جماعت مولانا محمد یوسف مرحوم بھی تشریف لائے ہوئے تھے، دھان پان آدمی، گورا چٹا بدن ، ڈاڑھی بزرگان دین کی ایک مشت سے زیادہ، کبھی الہ آباد ہائی کورٹ میں رجسٹرار رہے تھے، اس زمانے میں انہیں دیکھنے والے ایک اہل علم نے ہمیں بتایا کہ بڑے ہی خوبصورت انداز میں اس طرح انگریزی لباس کوٹ پتلون پہنا کرتے تھے کہ انگریز شرما جائیں، لیکن جب تحریک سے وابستہ ہوئے تو ایسی تبدیلی آئی اور مغربی تہذیب سے اتنی نفرت ہوگئی کہ لباس میں اگر کوٹ پہنتے تو نیچے پتلون کے بجائے شلوار پہنتے اور پتلون پہنے ہوئے ہیں تو اوپر جبہ نظر آتا ، یعنی بلکہ الٹا، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب مسجد میں فوٹوگرافر تصویریں اتارنے لگا تو آپ غصے میں آگئے اور بھرے اجتماع میں ڈانٹ کر اسے تصویر کشی سے روک دیا، آپ نے باقاعدہ عربی زبان سیکھی تھی، عربی میںلکھے خطوط کی نوک پلک بڑی باریک بینی سے درست کرتے تھے، یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے۔ ایمرجنسی کے زمانے میں دہلی کے گورنر جگ موہن کسی زمانے میں الہ آباد میں آپ کے ماتحت رہے تھے۔ جس روز ایمرجنسی لگی تھی اسی روز یوسف صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا،لوگوں نے کہا کہ جگومن کو بتائیںکہ جنازہ میں شرکت کی اجازت دے، لیکن آپ کی عزت نفس نے اسے گوارہ نہیں کیا ، آپ نے گورنر سے درخواست کرنے کے مشورے کو ٹھکرادیا، آپ کے گھر کی دہلیز سے ایک طرف چہیتی رفیق حیات کا جنازہ جارہا تھا، دوسری طرف آپ ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے پولیس گاڑی میں بند رفیق حیات کی قبر کو مٹی دئے بغیر تہاڑ جیل کی طرف روانہ ہورہے تھے۔
مولانا ابو اللیث ندوی رحمۃ اللہ علیہ جب دوبارہ امیر جماعت منتخب ہوئے تو سراج الحسن صاحب کی کرناٹک حلقے سے مرکز میں منتقلی ہوئی ،اور یہاں آپ کو مرکزی سکریٹری منتخب کیا گیا ۔ امیر جماعت کی علالت کے دوران ۱۹۸۹۔۱۹۹۰ء آپ قائم مقام مرکزی امیر جماعت رہے، یہاں تک کہ ۱۹۹۰ء میں امیر جماعت منتخب کیا گیا ، جس پر آپ ۲۰۰۳ء تک فائز رہے۔
مولانا سراج الحسن صاحب کی مجلس مشاورت ، آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی تشکیل کے زمانے میں ان اداروں میں فعال شرکت رہی تھی، لہذا ان اداروں سے وابستہ علماء واکابر سے ان کے روابط و تعلقات استوار تھے، اور ان حضرات کے دل میں آپ کا بڑا احترام تھا، آپ کی امارت کے زمانے میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا،جماعت نے تقسیم ہند کے بعد سے ابتک مسلمانان ہند کی رہنمائی کے لئے بڑا فعال کردا ر ادا کیا تھا، فسادات کے موقعوں پر ریلیف کے لئے جماعت ہی کے کارکنان کی طرف نگاہیں اٹھتی تھیں، یہاں پر ابتک جماعت کی قیادت بڑا حکیمانہ رویہ اپنا کر خود کو بہت سے فقہی اور مسلکی اختلافات سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی، لیکن بد قسمتی سے بابری مسجد کے قضئے زمانے میںجماعت اپنا وہ کردار ادا نہ کرسکی جس کی اس سے امید تھی۔ ہماری ناقص رائے میںاس کا سبب اس زمانے میں جماعت انتخابی سیاست میں داخل ہونے کے سلسلے میں جماعت کا فیصلہ تھا، جو اس سے وابستہ پرانی بعض شخصیات کو مطمئن نہ کرسکا تھا، جماعت میں یہ مسئلہ پہلی مرتبہ ۲۱؍مئی ۱۹۷۷ء میں ایمرجنسی کے ہٹائے جانے اور جماعت کے ممبران کے جیلوں سے چھوٹنے کے بعد ابھرا تھا، اس وقت امیرحلقہ مہاراشٹر مولانا شمس پیرزادہ ، اور ناگپور سے حفیظ اللہ خان جیسی شخصیات نے انتخابی سیاست میں داخلہ کی ممانعت کی وجہ سے جماعت سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن جب مولانا ابواللیث صاحب کی امارت کے آخری ایام میں جب شوری نے انتخابی سیاست میں شرکت کا فیصلہ کیا توجماعت کی کئی ایک قد آور شخصیات نے اس فیصلے سے اختلاف کیا، یہی زمانہ تھا جب بابری مسجد کا قضیہ اٹھا،اور مولانا سراج الحسن پر بحیثیت امیر جماعت ذمہ داری عائد ہوئی کہ وہ شوری کے فیصلے سے ارکان جماعت کو مطمئن کریں، لہذا جماعت اس داخلی مسئلے کی صفائی میں الجھ گئی اور بابری مسجد کے قضیے میں اس کے وزن کے مطابق فعال کردا ر ادا نہ کرسکی، ہماری ناقص رائے میں یہ مسلمانان ہند کی بڑی بد قسمتی تھی۔ لیکن حالات ایسے تھے ، اس کا کسی پر الزام دینا مناسب نہیں، اب لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟
جب مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے ممبر تھے تو ایک استفسار پر مولانا نے فرمایا تھاکہ جماعت اسلامی ہند ملک کے مسلمانوں کی واحد ایسی جماعت ہے جس کے ارکان کم ہوں یا زیادہ ملک کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں، ممکن ہے جماعت کا عامۃ الناس پر ویسا اثر نہ ہو، لیکن اجتماعی طور کسی ایجنڈے کو حرکت دینے کے لئے پورے ملک سے مربوط جماعت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہماری ذاتی رائے میں جماعت کی یہ صورت حال مولانا سراج الحسن کی امارت تک باقی تھی، دور رہ کر صحیح حقائق کا ہمیں علم ہونا ضروری نہیں، لیکن چند روز قبل باتوں باتوں میں ایک بڑی دینی شخصیت نے ہمیں بتایا کہ اب یہ صورت حال باقی نہیں رہی ہے، دوسری ملی جماعتوں نے یہ میدان مار لیا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ پلوں سے اب پانی بہت بہ چکا ہے، مرحوم کے بعد ڈاکٹر عبد الحق، پھر مولانا جلال الدین انصر عمری، پھرنئے حوصلوں کے ساتھ جواں سال امیر جناب سعادت اللہ حسینی صاحب منتخب ہوکر آئے ہیں، اکبر الہ آبادی کے بقول(( امید اچھی خیال اچھا رکھو )) پر عمل لازمی ہے، لیکن ذمہ داران کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ کسی تحریک کی کامیابی کے لئے صرف تنظیم کافی نہیں، سواد اعظم کو متاثر کرنے کے لئے جو تقاضے مطلوب ہیں ، ان کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے۔
مولانا سراج الحسن صاحب نے ایک مومن حقیقی کے طور پر اپنی زندگی گذاری ہے، ان کی زندگی ایک نصب العین سے معمور تھی، جب کرناٹک میں رہے تو یہاں کی مقامی زبان میں اسلام کے تعارف کے لئے بڑے پیمانے پر لٹریچر کی تیاری پربھر پور توانیاں صرف کیں، ہندوستان گیر پیمانے پر ذمہ داری سونپی گئی تو اس کی بجاآوری میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی، اور جب عہدوں سے فارغ ہوئے تو ایک کارکن کی حیثیت سے خدمات پیش کرنے میں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی۔ ایسی شخصیت جب درمیان سے اٹھ جاتی ہے تو ملت ایک خلا محسوس کرتی ہے، اور شدت سے ایسوں کی ضرورت محسوس کرتی ہے، جب ان کے داغ جدائی دینے کی خبریں آتی ہیں تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے، اور ہاتھ دعا ئے مغفرت کے لئے بلند ہوتے ہیں، آئے ہم بھی دعا کریں ، اللہ تعالی مرحوم کی لغزشوں کو درگذر کرے، ان کی خدمات کو قبولیت سے نوازے ، اور اعلی علیین میں انہیں جگہ دے۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ۔