اردو میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ مرکب ہوتے ہیں، یا یوں کہیے کہ جوڑا ہوتے ہیں مثلاً زرِتلافی، جوارِ رحمت، مرض الموت وغیرہ۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ان میں دوسرا لفظ چونکہ مؤنث ہے اس لیے ہمارے صحافی بھائی اس کا لحاظ رکھتے ہوئے پہلے کو بھی مؤنث بنادیتے ہیں، مثلاً ’’کی زرِتلافی‘‘، ’’اپنی جوارِ رحمت‘‘، ’’اپنی مرض الموت‘‘ وغیرہ۔ جبکہ مذکر مؤنث کا تعلق پہلے لفظ سے ہے۔ اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ ترکیب کو الٹ کر دیکھ لیں، مثلاً تلافی کا زر، رحمت کا جوار، موت کا مرض وغیرہ۔ ایسے ہی ’’اپنے زیر نگرانی‘‘ پڑھنے میں آتا ہے۔ یہاں اپنی کا تعلق نگرانی سے ہے، چنانچہ ’اپنی‘ ہونا چاہیے۔ الٹ کر دیکھ لیں ’’اپنی نگرانی کے زیر یا تحت‘‘۔ تھوڑی سی کوشش کریں تو جملہ صحیح ہوجائے گا۔
’جوار‘ عربی کا لفظ ہے اور اردو میں عام ہے، مثلاً قرب و جوار۔ جوار کا مطلب ہے ہمسائیگی، پڑوس۔ عربی میں ’ج‘ پر پیش ہے، تاہم اردو میں بفتح اوّل ہے۔ جوارِ رحمت دعائیہ کلمہ ہے۔ جوار ہندی میں ایک قسم کا غلّہ ہے۔ جوار کی روٹی بنتی ہے۔ سمندر کے اتار کو بھی جوار کہتے ہیں جیسے جوار بھاٹا۔ کہتے ہیں کہ سمندر کے پانی کا اتار چڑھائو چاند کی کشش سے ہوتا ہے۔ فارسی میں جوار کو ’جو‘ کہتے ہیں۔ اقبال کا شعر ہے:۔
جنہیں نانِ جویں بخشا ہے تُو نے
انہیں بازوئے حیدر بھی عطا کر
مقدار میں قلیل کے لیے بھی جو کا لفظ آتا ہے۔ جو بھر یعنی تھوڑا سا، کچھ بھی۔ جویں میں ’’یں‘‘ نسبت کا ہے۔ تھوڑا سا کے معنوں میں ایک شعر:۔
سعیِ رزق ہماری جو ہے سو ہے
جو بھر گھٹے نہیں کبھی تل بھر بڑھے نہیں
ایک محاورہ ہے ’’حساب جو جو، بخشش سوسو‘‘۔
عربی میں جوّ (بتشدید دوم) کا مطلب ہے آسمان اور زمین کے بیچ کا فاصلہ۔
ایک اور دلچسپ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ’’سب سے اوّلین ترجیح، سب سے اوّلین دلچسپی‘‘۔ یہاں اگر صرف ’اوّلین ترجیح، اوّلین دلچسپی‘ کہا اور لکھا جائے تو بھی بات واضح ہوجاتی ہے، ’’سب سے‘‘ کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب اوّلین ہے تو ’’سب سے‘‘ لکھنا اور کہنا ایسا ہی ہے جیسے ’’سب سے بہترین، سب سے بدترین‘‘۔
کورونا کے حوالے سے ’’ایک جراثیم‘‘ عموماً لکھا اور کہا جارہا ہے۔ ’ایک‘ واحد کے لیے آتا ہے اور جراثیم جرثومے کی جمع ہے۔ چنانچہ یا تو ایک جرثومہ کہا جائے، اور اگر اس سے تسلی نہیں ہوتی تو صرف جراثیم کہہ دیں، ’’ایک‘‘ کی ضرورت نہیں۔
ٹی وی چینل پر ’’پیشِ امام‘‘ (پیشے امام) سننے میں آیا، یعنی ’ش‘ کے نیچے زیر۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا ’’امام کے آگے‘‘۔ جب کہ اِمام کا مطلب ہی ’’آگے رہنے والا، قیادت کرنے والا، پیشوا، ہادی، نماز پڑھانے والا‘‘ ہے۔امام کی جمع ’ائمہ‘ ہے جس میں ہم لوگ الف پر مد لگا کر آئمہ کردیتے ہیں۔ امام کا الف بالکسر ہے اور اگر اس پر زبر ہو تو عربی میں اس کا مطلب ہوگا سامنے یا آگے۔ جگر مراد آبادی کا مصرع ہے ’’یہ حرم نہیں ہے شیخ جی، یہاں سب کا ساقی امام ہے‘‘۔ تسبیح میں ایک لمبا سا دانہ ہوتا ہے جس کا شمار تسبیح کے دانوں میں نہیں ہوتا۔ وہ بھی امام کہلاتا ہے، جانے کیوں۔ یہ مصرع غالباً امام بخش ناسخ کا ہے ’’شماردانۂ تسبیح میں امام نہیں‘‘۔
’’نذر‘‘ اور’’ نظر‘‘ میں ہمارے صحافی بھی گڑبڑا جاتے ہیں۔ ایک خبر میں ’’سیاست کی نظر‘‘ پڑا۔ گوکہ سب کچھ سیاست کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن یہاں ’’نذر‘‘ ہونا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کورونا بھی سیاست کی نذر ہورہا ہے۔ عجیب تماشا یہ ہے کہ کورونا کا املا ایک ہی اخبار میں بلکہ ایک صفحہ پر کہیں ’کورونا‘ ہے اور کہیں ’کرونا‘۔ اس سے لڑنے کے لیے املا درست ہونا ضروری نہیں لیکن اخبارات کو ایک املا پر متفق ہوجانا چاہیے۔ یہ صورتِ حال ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں بھی نظر آتی ہے، یہاں تک کہ سرورق پر بھی یہ دونوں املا جگمگا رہے ہیں یعنی کرونا اور کورونا۔
’’سبوتاژ‘‘۔ یہ لفظ کبھی اردو میں نووارد تھا مگر اب تو اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ آج کل بہت سبوتاژ ہورہا ہے۔ ایک دلچسپ کتاب ’’پردہ اٹھادوں اگر چہرہ الفاظ سے‘‘ کے مصنف ڈاکٹر ف۔ عبدالرحیم اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ فرانسیسی لفظ ہے اور اس کا املا SABOTAGE ہے، اور تلفظ وہی ہے جو اردو میں ہے۔ اس کا اصل SABOT ہے جس کا معنی ہے کھڑائوں۔ اور تلفظ ہے ’’سابو‘‘۔ اس کے آخر میں لفظ T پڑھا نہیںجاتا۔ کھڑائوں تو اب نظر ہی نہیں آتی۔ بچپن میں جب کئی چپل توڑے تو ہمیں کھڑائوں پہنادی گئی، تکلیف دہ جوتا ہے جسے جوتا کہنا ہی نہیں چاہیے۔ لکڑی کی ہوتی ہے اور چلتے ہوئے خوب کھٹ کھٹ کرتی بلکہ کھڑکھڑ کرتی تھی۔ شاید اسی لیے کھڑائوں کہلائی۔ بدھ بھکشوئوں کے پیروں میں اب بھی نظر آجاتی ہے، بشرطیکہ بھکشو نظر آئیں۔
کھڑائوں میں تخریب کاری (سبوتاژ) کا مفہوم کیسے پیدا ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار فرانس کے ہڑتالی مزدوروں نے اپنے مالک کے کارخانے کی مشینوں میں کھڑاویں پھینک کر انہیں بے کار کردیا تھا۔ شاید اسی لیے کھڑاووں کا رواج ختم ہوگیا ،یعنی نہ ہوگی کھڑائوں نہ ٹوٹیں گی مشینیں۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ کہ انگریزی کے بعض زبان شناسوں کا خیال ہے کہ فرانسیسی لفظ ABOT عربی لفظ ’’سباط‘‘ سے ماخوذ ہے۔ گوکہ لفظ سباط قدیم عربی میں نہیں پایا جاتا مگر آج کل بعض عرب ملکوں میں رائج ہے اور معتبر عربی لغت’’ محیط المحیط‘‘ میں بھی مرکوز ہے۔ ہسپانوی کاZAPATO جس کے معنی جوتے کے ہیں شاید اسی لفظ سے ماخوذ ہے۔
آج کل کورونا سے بچنے کے لیے بار بار ہاتھ دھونے پر زور دیا جارہا ہے ورنہ زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا۔ بال دھونے کے لیے مغربی تہذیب کی علامت ’’شیمپو‘‘ ہے۔ کبھی سر دھونے کے لیے بال چھڑ، سیکاکائی، ہڑ وغیرہ کا آمیزہ استعمال کیا جاتا تھا اور اب بھی اس کو بہتر سمجھا جاتا ہے، بلکہ بعض شیمپو کے اشتہار میں یہ چیزیں بھی شامل ہیں۔ جہاں تک شیمپو کا تعلق ہے تو یہ خالص دیسی چیز ہے۔ ہندی لفظ ’’چانپو‘‘ کوانگریزوں نے ہیٹ پہنا کر شیمپو (SHAMPOO) بنالیا۔ دراصل چانپو فعل امر ہے یعنی ’’مالش کرو‘‘۔ پہلے پہل شیمپو چمپی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ 1823ء کی انگریزی کی ایک عبارت میں مالش کے معنوں میں شیمپو کا لفظ استعمال ہوا ہے ’’اس عورت نے پہلے اپنے شوہر کو شیمپو کیا یعنی مالش کی پھر گھوڑے کی‘‘۔
لفظ SHAMPOO انگریزی سے بہت سی یورپی زبانوں میں داخل ہوچکا ہے۔ فرانسیسی نے اسے ہو بہو اپنالیا ہے۔ ہسپانوی کا CHAMPU ہندی لفظ چانپو سے بہت قریب ہے۔ آج کی عبرانی زبان میں بھی یہ لفظ شیمپو کی شکل میں داخل ہوچکا ہے۔ ایک پرانی فلم میں مزاحیہ اداکار جانی واکر پر ایک گانا فلمایا گیا جس میں وہ تیل مالشیے کا کردار ادا کرتا ہے اور چمپی کرانے کی دعوت دیتا ہے۔ اردو میں ایک لفظ ’’چمپو‘‘ داخل ہوگیا ہے جو لغت کا تو نہیں لیکن عوامی لفظ ہے اور طنزاً بے وقوف کو کہتے ہیں، جانے کیوں۔ ویسے ہندی میں چمپو بڑی کشتی کو کہتے ہیں۔