کورونا وائرس 2019 نے پوری دنیا ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ افراد، خاندان، قبیلے اور ملک بدل گئے ہیں۔ وہ سب کچھ جو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، ہورہا ہے… اور وہ سب کچھ جسے چھوڑے جانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا، ایسا چُھٹا ہے کہ اب محض یادِ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ یہ دنیا اتنی تیزی سے بدل جائے گی، کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے، رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
وہ قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
پوری دنیا پر تکبر و نخوت کے ساتھ حکمرانی کرنے والے بے بس ہوگئے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں زمیں بوس ہونے کو ہیں۔ انسانی آنکھ سے نظر بھی نہ آنے والے اس جرثومے نے سائنس دانوں کے چھکے چھڑا دیے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں بچانے والے خود موت کا نوالہ بن رہے ہیں۔ لوگ اپنے چاند جیسے معصوموں کو گلے لگا سکتے ہیں، نہ آگے بڑھ کر بزرگوں کی قدم بوسی کرسکتے ہیں۔ چھے، چھے ماہ تک غسل نہ کرنے والے لوگ، اور ٹشو پیپر پر زندگی گزارنے والی اقوام دن میں دس، دس بار ہینڈ واش کررہی ہیں، مساجد پر تالے پڑ گئے ہیں، کلیسائوں میں ہُو کا عالم ہے، مندروں کی گھنٹیاں خاموش ہیں، اور گوردواروں کے بھجن بے کیف ہوگئے ہیں۔ قطب شمالی و جنوبی کے برفیلے علاقوں، افریقہ کے تپتے صحرائوں، یورپ کی چکا چوند روشنیوں، ساحلِ سمندر کی مرطوب ہوائوں، ہمالیہ کی ترائیوں اور سندربن کے گھنے جنگلوں میں موت کا خوف طاری ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے روحانی مراکز حرمِ کعبہ اور روضۂ رسولؐ خالی کرا لیے گئے ہیں، عیسائیت کا مرکز ویٹی کن سٹی اور یہودیت کا روحانی منبع دیوارِ گریہ بند ہیں۔ کاروبار ختم، کارخانے بند، دفاتر کو تالے، تعلیمی اداروں میں جبری چھٹیاں، زمینی، فضائی اور سمندری سفر محدود، دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج زمیں بوس، اور ائرلائنز دیوالیہ ہوچکیں، تیل کی قیمتیں نصف سے بھی کم سطح پر آگئیں۔ لاس ویگاس کے جوئے خانے، ایمسٹرڈیم میں جسم فروشی کے بازار، اور دنیا کے نائٹ کلب بند پڑے ہیں۔ امریکہ جیسا ملک سود کی شرح میں کمی کررہا ہے۔ امریکی اسلحہ کے خریدار اور چین کی کنزیومر مارکیٹ کے تجاتی مافیا خود قرنطینہ میں ہیں۔ دنیا کے 190 سے زائد ممالک میں لاک ڈائون ہے، آدھی دنیا اپنی اپنی جگہوں پر قید ہے اور باقی مجبوری اور خوف کے زیراثر برائے نام موومنٹ میں ہے۔ روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا خوف کے سائے مزید گہرے کررہے ہیں۔ حقیقت میں کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کوئی اسے قہرِ خداوندی قرار دے رہا ہے، کوئی احکامِ خداوندی سے بغاوت کا شاخسانہ کہہ رہا ہے، کوئی بے بس کشمیریوں کے 246 دنوں کے لاک ڈائون کی سزا کہہ رہا ہے، کچھ لوگ عالمی معیشت پر قبضے کی نئی چال، اور کچھ اسے کیمیائی یا حیاتیاتی حملہ کہتے ہیں۔ ایک عام مسلمان کے مطابق یہ انسانوں اور انسانی معاشروں کی بداعمالیوں پر اللہ کی پکڑ ہے، اور مادی دنیا اس کے سائنسی جواز تلاش کرتی پھر رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وائرس کے بعد کیا ہونے جارہا ہے؟ کیا ایک نئی دنیا وجود میں آجائے گی، یا ایک بدلی ہوئی دنیا ہماری منتظر ہے؟ حالات بتاتے ہیں کہ اگلے دو، تین ماہ میں ایک بدلی ہوئی دنیا ہمارے سامنے ہوگی، شاید زیادہ مشکلات میں گھری ہوئی دنیا۔ آج پوری دنیا کورونا کے باعث جس بے پناہ مالی نقصان سے دوچار ہے اُس سے نکلنے اور اپنی اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ایک نئی اور بڑی معاشی جنگ میں الجھ جائے گی، وسائل پر قبضے کا رجحان شاید مزید بڑھ جائے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں وسائل محدود، مشکلات لامحدود، گورننس کے معاملات مشکوک اور ویژن کا فقدان پہلے ہی موجود تھا، کورونا کے حملے اور اس کے مابعد اثرات ہمیں مزید بے حال کرسکتے ہیں۔
اس وقت ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ وزیراعظم یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنی تقریروں اور خطابات کے ذریعے وائرس اور حالات دونوں پر قابو پالیں گے۔ ان کی یہی سوچ کشمیر کے معاملے پر بھی تھی، ان کی تقریروں سے کشمیریوں کی مشکلات تو کم نہیں ہوسکیں، البتہ وہ تاریخ کی بدترین مشکلات اور لاک ڈائون سے دوچار ضرور ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب پوری حکومت کے ویژن کا عالم یہ ہے کہ اس سنگین صورتِ حال میں بھی حکومت نے نہ تو اپوزیشن سے کوئی مشاورت کی، اور نہ ہی اسے اعتماد میں لینا ضروری سمجھا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو جماعتیں ریلیف کا کام کرکے اصل میں حکومت کا بوجھ بٹا رہی ہیں، حکومت نے اُن سے بھی کسی طرح کے رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ سوچ اور طرزِعمل جھوٹی انا کی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے، مسائل کے حل میں کارگر نہیں ہوسکتا۔
ایک طرف حکومت یہ اعلانات کررہی ہے کہ وائرس پر قابو پانے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے وہ انقلابی پالیسیاں بنا رہی ہے، دوسری جانب اخبارات، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا ان اطلاعات سے بھرے پڑے ہیں کہ دونوں میدانوں میں کوئی کام نظر نہیں آرہا۔ لوگ امدادی پیکیج کے لیے پریشان پھر رہے ہیں،کئی ہفتوں سے قید غریب، متوسط اور سفید پوش افراد کے گھروں کا راشن ختم ہوچکا ہے، دہاڑی دار لوگ فاقوں پر آگئے ہیں۔ ان بے چاروں کا کوئی ڈیٹا بھی حکومت کے پاس نہیں، ان میں سے بیشتر گائوں دیہات سے بڑے شہروں میں آئے ہوئے لوگ ہیں، ان کے شناختی کارڈ ان دیہات کے ہیں جہاں اب یہ آباد ہی نہیں۔ ان تک امدادی سامان کس طرح پہنچے گا؟ حکومت نے تاحال نجی اداروں اور صنعتوں کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ وہ کم از کم رواں ماہ کی تنخواہ ہی اپنے ملازمین کو ادا کردیں، یہ الگ بات کہ نجی اداروں اور صنعتوں کے نصف سے زائد ملازمین کا تو ان اداروں کے ریکارڈ اور کھاتوں میں اندراج ہی نہیں، اور خود حکومت کے پاس بھی ان کی کوئی رجسٹریشن نہیں، ان تک امدادی سامان کون اور کیسے پہنچائے گا؟ جبکہ حکومت اس معاملے میں نجی اداروں یا صنعتوں کا کسی طرح سے ہاتھ بٹانے کا بھی کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔
حال ہی میں حکومت نے میڈیا انڈسٹری کے اشتہارات کی مد میں 4 ارب 52 کروڑ روپے کے واجبات ادا کرنے کا اعلان کیا ہے جو اگلے چند روز میں اخبارات، چینلز اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو پہنچ جائیں گے، مگر ان کو بھی اس بات کا پابند نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے ملازمین کو دو، دو ماہ کی تنخواہ ہی ادا کردیں، ان کے واجبات دے دیں، اور گزشتہ دو سال کے عرصے میں نکالے گئے ملازمین کو اگر کوئی امدادی پیکیج نہ بھی دیں تو اُن کے واجبات تو اُن کے حوالے کردیں۔ جب کہ اس انڈسٹری میں اِس وقت بھی ہزاروں افراد بلاتنخواہ یا انتہائی قلیل معاوضے پر کام کررہے ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق وزیراعظم نے اپنے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں حکومت کے فراہم کردہ امدادی سامان کی تقسیم کو آئندہ انتخابات کی تیاری سمجھیں۔ جہاں نیت اور سوچ یہ ہو، وہاں نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کام میں سرکاری اہلکاروں اور دوسرے عملے کی خوردبرد کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں اگر یہ امدادی سامان 70 سے 80 فیصد تک بھی مستحق لوگوں تک پہنچ جائے تو غنیمت ہوگا۔ دوسری جانب حکومت اربوں روپے کے یہ پیکیج کس طرح دے پائے گی جب کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کمی سے حکومتی محصولات میں بھی کمی آئی ہے، غیر ملکی ترسیلِ زر کی شرح بھی صفر ہے، تین ماہ تک تو یوٹیلٹی بل جمع نہ کرانے کی سہولت بھی دے دی گئی ہے، انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کی وصولی بھی فطری طور پر متاثر ہوگی۔
معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زندگی معمول پر آجانے کے بعد تاجر اور صنعت کار اپنا موجودہ نقصان یا منافع میں موجودہ کمی پوری کرنے کے لیے اشیاء اور سروسز کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیں گے، جب کہ اسی بہانے معاوضوں میں کمی کردیں گے۔ کچھ ادارے اور صنعتیں شاید دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑی ہی نہ ہوسکیں، اس طرح بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے ۔ جن عام لوگوں کے تین تین ماہ کے یوٹیلٹی بل اکٹھے ہوجائیں گے، وہ انہیں کہاں سے ادا کرپائیںگے؟ بچوں کی تین، تین ماہ کی تعلیمی فیسیں کہاں سے لائیں گے؟ کرایہ دار لوگ کرایہ کس طرح ادا کریں گے؟
اس لیے ضروری ہے کہ ان عملی مشکلات سے عہدہ برا ہونے کے لیے حکومت اپوزیشن اور ماہرین کو اعتماد میں لے کر کوئی جامع پالیسی بنائے۔ ہماری نظر میں حکومت ایک سال کے لیے یوٹیلٹی بل کی ایک خاص شرح مکمل معاف کردے، یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں نصف کردے۔ اس طرح یوٹیلٹی اسٹور فعال ہوجائیں گے، اور ان کی سپلائی اور ڈیمانڈ بڑھنے سے وہاں روزگار کے مزید مواقع نکل آئیں گے۔ حکومت نجی صنعتی و تجارتی اداروں کو پابند کرے کہ وہ اپنے ملازمین کے لیے سستے ماہانہ راشن کا بندوبست کریں، جب کہ دہاڑی دار مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن کرکے انہیں کسی ڈسپلن میں لائیں، تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اُن تک رسائی آسان ہو۔ حکومت اس موقع پر تعلیمی اداروں کو دو سے تین ماہ کی فیسیں نہ لینے لیکن ملازمین کو معاوضہ ادا کرنے، اور مالکانِ جائداد کو دکانوں اور مکانوں کا کرایہ کم کرنے یا دو ماہ کا کرایہ نہ لینے کا پابند کرے۔ اگر حکومت یہ اقدامات کرلے تو نہ صرف ہم موجودہ بحران سے نکل آئیں گے، بلکہ آئندہ بھی کسی ایمرجنسی کی صورت میں یہ ڈیٹا کام آسکے گا۔