پاکستان کے سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف کا حصہ ہوں، وہ سیاسی نظام کی حقیقی وارث ہوتی ہیں۔ لوگوں کی توقعات بھی سیاسی جماعتوں، اُن کی قیادتوں اور سیاسی کارکنوں سے جڑی ہوتی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑتی ہے اور مشکل وقت میں عوام، بالخصوص کمزور طبقات کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا لاکھوں کی تعداد میں ووٹ بینک اور سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی فوج سمیت وفاقی، صوبائی، ضلعی، تحصیل اور یونین کی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ بھی ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے نعروں میں ایک بنیادی نعرہ جمہوریت، انسانی حقوق، اور انصاف پر مبنی معاشرہ بھی ہوتا ہے۔
پاکستان اس وقت کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے، اور اس بحران نے ہمیں بڑے سیاسی، سماجی، انتظامی، کاروباری، معاشی اور نفسیاتی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ ایسے میں کمزور اور محدود آمدنی کے حامل افراد، یا روزانہ کی بنیاد پر کام یا مزدوری کرنے والے حالیہ بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ ریاست، حکومت اور اس سے جڑے ادارے اپنے محدود وسائل اور اچھی یا بری صلاحیت کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر بہت تنقید کی جاسکتی ہے، اورکی بھی جانی چاہیے کہ عملاً ہمارے حکمران طبقات چاہے وہ ماضی کے ہوں یا حال کے، سب نے حکمرانی کے نظام میں کوئی اچھی مثالیں قائم نہیں کیں۔ اس لیے وہ ہر سطح پر جواب دہ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس بحران میں کہاں کھڑی ہیں؟ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں براہِ راست حکومت میں ہے۔ اس کی اتحادی جماعتیں مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی اور سندھ گرینڈ الائنس بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار ہے، جبکہ بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ایک بڑی اور مضبوط حزبِ اختلاف کے طور پر موجود ہے۔ لیکن ان سیاسی جماعتوں کا عملی کردار بہت کم نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کی وفاق، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حیثیت پارٹی سے زیادہ حکومت کی ہے، اور پارٹی ہمیں عملی میدان میں بہت کم سرگرم نظر آتی ہے۔ یہی رویہ پیپلز پارٹی کا ہے، وہ سندھ میں بطور حکومت تو کام کررہی ہے، مگر اس بحران میں پارٹی کی فعالیت بہت کم ہے۔ اسی طرح پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی پیپلز پارٹی کا کوئی عملی کام نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ (ن) ایک مضبوط حزبِ اختلاف ہے جو پنجاب میں ایک بڑا سیاسی ڈھانچہ اور افرادی قوت رکھتی ہے، مگر پارٹی کی فعالیت پر سوالیہ نشان ہے۔ شہبازشریف کی پھرتیاں نظر تو آتی ہیں مگر عملی سطح پر اُن کی پارٹی اور ارکانِ اسمبلی اور سابقہ ضلعی حکومتوں کے چیئرمینوں کا کردار کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی اس بحران میںکہیں گم ہوکر رہ گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ابھی تک امداد یا خوراک کی فراہمی کے منصوبے یا حکمت ِعملیاں ہی ترتیب دے رہی ہیں، اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر بدحالی ان کی سیاست میں گم نظر آتی ہے۔
البتہ سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی اس وقت سب سے زیادہ فعال اور متحرک نظر آتی ہے۔ اس کے ضلعی اور صوبائی یونٹ باقاعدگی سے گلیوں اور محلو ں کی سطح پر متحرک ہیں۔ سراج الحق نے واقعی اس بحران میں کمزور لوگوں کے لیے ایک بڑا اور مثالی کام کیا ہے۔ ان کے اسپتال، ماسک اور سینی ٹائزر کی فراہمی، خوراک اور دیگر اشیا کی فراہمی، اور خاص طور پر غریب اور سفید پوش لوگوں تک امداد پہنچانا یا کورونا سے نمٹنے کے حوالے سے آگاہی پروگرام یقیناً قابلِ تعریف ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور صوبائی و ضلعی امرا خود براہِ راست ان معاملات کی اپنے آپریشن سینٹرز سے نگرانی کررہے ہیں۔ ماضی میں بھی جماعت اسلامی قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے حوالے سے پیش پیش رہی ہے اور اب بھی اس نے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ فوراً عملی طور پر میدانِ عمل میں کود پڑی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ جماعت اسلامی کا سماجی شعبہ ہے جو مستقل بنیادوں پر کام کرتا ہے۔
اس وقت ملک میں قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور کچھ صوبوں میں مقامی حکومت کی منتخب قیادت ہے، اور ان سب کا براہِ راست تعلق کسی نہ کسی شکل میں مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے، لیکن اس پورے کورونا بحران میں ہمیں عوام کے ان منتخب نمائندوں کا بطور سیاسی جماعت کوئی کردار نہیں نظر آتا۔ انفرادی سطح پر کچھ ارکانِ اسمبلی اپنے حلقوں میں فعال نظر آتے ہیں، مگر وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس اس کام کے لیے کوئی عملی منصوبہ موجود نہیں۔ ان منتخب ارکان کا براہِ راست تعلق اپنے مقامی سطح کے ووٹروں سے بنتا ہے، اور لوگ ان کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور توقعات بھی وابستہ کرتے ہیں، مگر جب یہی لوگ عوام اور خاص طور پر کمزور لوگوں کو اپنے عملی اقدامات سے مایوس کرتے ہیں تو سیاست اور جمہوریت کا مقدمہ بھی کمزور ہوتا ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں عملی طور پر انتخابات کے دوران ہی فعال ہوتی ہیں، اور اس کے علاوہ ان جماعتوں کا کوئی بڑا سماجی نیٹ ورک یا سماجی شعبوں سے جڑی خدمات کا نظام نظر نہیں آتا۔ حالانکہ سیاست کا ایک بڑا تعلق سماجی خدمات سے ہوتا ہے، جنہیں بنیاد بناکر سیاسی جماعتیں میدان میں اپنی سیاسی ساکھ قائم کرتی ہیں۔ لیکن ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کی ترجیحات یا ایجنڈے میں سماجی شعبوں میں کام کرنے کا کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کے مقامی نیٹ ورک بھی عملاً کمزور ہوتے ہیں اور ان کی سیاسی ساکھ پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ ہمارے ارکانِ اسمبلی کوئی غریب لوگ نہیں ہیں، ان میں سے بیشتر لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے پارٹی ٹکٹ حاصل کرتے اور انتخاب جیتتے ہیں۔ جو لوگ انتخاب ہار جاتے ہیں وہ بھی دولت مند ہوتے یا لاتعداد وسائل رکھتے ہیں، لیکن جب معاشرے کو ان کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ لوگ فعال ہونے کے بجائے محض ایک دوسرے سے سیاسی مقابلہ بازی، الزام تراشی اور خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔
سبھی سیاسی جماعتیں حکومت پر انحصار کرتی ہیں کہ وہ اس طرز کے بحران میں کچھ کرے۔ یہ بات بجا ہے کہ حکومت یا ریاست کی ذمہ داری زیادہ اہم اور مستند ہوتی ہے۔ لیکن ایسے بحرا ن محض حکومت تنِ تنہا حل نہیں کرسکتی، اس میں حکومت سمیت سبھی سیاسی جماعتوں کومل کر کام کرنا ہوتا ہے، قطع نظر اس کے کہ کون حکومت میں ہے اورکون حزبِ اختلاف میں۔ اگر حکومت زیادہ فعال کردار ادا نہیں کررہی تو محض اس پر تنقید کرکے دیگر سیاسی جماعتیں خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتیں۔ یہ جماعتیں حکومت کی طرف بھی دیکھیں، اس کے کاموں پر تنقید بھی کریں اور دبائو بھی ڈالیں، مگر خود بھی عملی طور پر میدان میں آکر جس حد تک کام کرسکتی ہیں یا وسائل خرچ کرکے کمزور لوگوں کی مدد کرسکتی ہیں اس میں انہیں پیش پیش ہونا چاہیے، اور یہ عمل نظر بھی آنا چاہیے۔
اس کورونا وائرس سے نمٹنے کا ایک بڑا سبق یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں، اور سماجی شعبوں سے جڑے کاموں کو بنیاد بناکر اپنے تعلقات مقامی لوگوں سے مضبوط بنائیں۔ محض جمہوریت، قانون کی حکمرانی، عوام کی طاقت، ووٹ کی طاقت، اصول، نظریات، سوچ اور فکر کے بڑے بڑے سیاسی بھاشن دینے کے بجائے حزبِ اقتدار اورحزبِ اختلاف میں موجود سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے داخلی سیاسی نظام کا بھی احتساب کریں۔ عملی سیاست محض نعروں کی بنیاد پر مضبوط نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے عوامی سطح پر کچھ کرکے دکھانا، اورکمزور طبقات کے ساتھ مشکل حالات میں کھڑا ہونا بھی اہم ہوتا ہے۔ یہی عمل ملک میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور ساکھ کو بھی لوگوں میں قائم کرنے کا سبب بنتا ہے، اور لوگوں میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم تنہا نہیں بلکہ ہماری سیاسی قیادت ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی عمل سیاست، جمہوریت اور اہلِ سیاست سمیت ملک کو ایک ذمہ دار معاشرے کے طور پر پیش کرتا ہے۔