حکومت اتفاق رائے سے قومی بیانیہ دینے میں ناکام
وزیراعظم عمران خان، جو میڈیائی پروپیگنڈے کے ذریعے اب تک ہر طرح کے حالات سے لڑنے کا خودساختہ امیج بنائے ہوئے تھے، کورونا سے لڑنے میں پے درپے ناکامیوں، اور سب سے بڑھ کر پوری قوم کے لیے اتفاقِ رائے سے کوئی قومی بیانیہ تشکیل دینے اور ملک کی تمام سیاسی قیادت کی راہنمائی میں بری طرح ناکام نظر آتے ہیں۔ کورونا کے خلاف ان کی کمزور حکمت عملی اُس وقت سامنے آئی جب وہ پہلے ایران سے آنے والے زائرین، نیز بیرونی ممالک سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کے لیے بروقت کوئی لائحہ عمل بنانے میں ناکام رہے۔ اسی طرح انہوں نے سندھ حکومت کی بار بار کی اپیلوں پر بھی محض اس وجہ سے کان نہیں دھرا کیونکہ وہاں ان کی مخالف سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ ان کا یہ بچکانہ طرزِعمل ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر تو قابلِ فہم ہے، لیکن ملک کے وزیراعظم کے شایانِ شان ہرگز نہیں۔ ان کی ایک اور بڑی کمزوری نہ صرف قوم کے سامنے بلکہ ان کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھانے والوں کے سامنے اُس وقت آئی جب انہوں نے ساری دنیا کے طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے پہلے لاک ڈائون سے انکار کیا، اور بعدازاں جب ان پر مبینہ طور پر مقتدر اداروں کی جانب سے دبائو ڈالا گیا تو وہ اگر مگر جیسے الفاظ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے رہے۔
عمران خان سے اپوزیشن جماعتوں نے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے کورونا سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ قومی ایجنڈا بنانے کی غرض سے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا مخلصانہ مطالبہ ایک نہیں باربارکیا۔ یہ عمران خان کے پاس ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اپوزیشن کی تمام سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ بٹھاکر اس جان لیوا وبا سے نمٹنے کے لیے اتفاقِ رائے سے کوئی پروگرام تشکیل دیتے، لیکن انہوں نے اس موقع پرجب ان کو سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے جہاں ملک بھر میں پھیلے ہوئے الخدمت فائونڈیشن کے فلاحی نیٹ ورک کے استعمال کی کھلی پیشکش کی، اسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے تمام تر اختلافات کے باوجود حکومت کی جانب دستِ تعاون بڑھایا، اور مسلم لیگ(ن) جو موجودہ حکومت کے سیاسی انتقام کے براہِ راست نشانے پر ہے، کی جانب سے بھی جہاں حکومت کو کورونا سے نبردآزما ہونے کی پیشکش کی گئی بلکہ شہبازشریف نے حکومتی پروپیگنڈے اور ممکنہ سیاسی انتقام کے خدشات کے باوجود وطن واپس لوٹ کر قومی یکجہتی برقرار رکھنے کا حکومت کو جوکھلا پیغام دیا، حکومت اور خاص کر وزیراعظم نے اس کا بھی نہ تو کوئی مثبت جواب دینا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ڈائیلاگ یا قومی کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت محسوس کی، جس سے کورونا سے نمٹنے میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے لے دے کر قوم سے جو دوخطابات کیے اُن میں بھی وہ نہ تو قوم کو حفاظتی نقطہ نظر سے کوئی لائحہ عمل دے سکے، اور نہ ہی ریلیف اور بحالی کے ضمن میں کوئی ایسا پیغام دے پائے جس پر تنقید کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ انہوں نے مستحقین کی مالی امداد کے لیے آٹھ ارب ڈالر کے مالیاتی پیکیج کا اعلان تو کردیا ہے، لیکن یہ پیکیج مستحقین تک پہنچے گا کیسے؟ اور ان مستحقین کی نشاندہی کون کس پیمانے پر کرے گا؟ اس حوالے سے بھی حکومت کاکوئی واضح وژن سامنے نہیں آیا، جب کہ رہی سہی کسر ٹائیگر فورس کے اعلان کی صورت میں پوری کردی گئی ہے، جس پر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ غیر جانب دار ذرائع کی جانب سے بھی شدید اعتراضات اور تحفظات کااظہار کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی مشاورتی بورڈ نے میاں شہبازشریف کی مشاورت سے حکومت کے غیر سنجیدہ طرزعمل کے خلاف چھے نکاتی مطالبات پیش کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان نکات کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ کورونا پر پارلیمانی کمیٹی کو پارلیمانی مانیٹرنگ کمیٹی کا درجہ دے دیا جائے، جن ہسپتالوں میں او پی ڈی بند کی گئی ہیں انہیں فی الفور بحال کردیا جا ئے۔ کورونا ریلیف فنڈ کے سلسلے میں وفاق چاروں صوبائی حکومتوں، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو آن بورڈ لے، اس سلسلے میں ان کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر امداد فراہم کرنی چاہیے، ٹائیگر فورس فی الفور ختم کرکے ریلیف کا کام عوام کے منتخب نمائندوں کی وساطت سے کیا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ہیلتھ سسٹم کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پی ایم ڈی سی کو فی الفور بحال کیا جائے۔
وزیراعظم ٹائیگر فورس پر اپوزیشن کا یہ مؤقف ہے کہ اس اقدام کے ذریعے حکومت اپنے پارٹی کارکنوں کو نوازنا چاہتی ہے۔ حکومت سرکاری خزانے سے کورونا وائرس کے متاثرین کی امداد کا ڈراما رچاکر سیاسی مقاصد حاصل کرے گی۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ٹائیگر فورس کے سلسلے میں کھل کر اپنے دل کی بات کہہ کر ان خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے منتخب ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی سے کہا ہے کہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ حکومت میں ہیں، حکومت کی ریلیف کی ساری کوششیں آپ کے ذریعے ہوں گی اور وہ سب آپ کے کھاتے میں جائیں گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی کی فراہم کردہ فہرستوں پر ’’ٹائیگر فورس‘‘ کا ڈھانچہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر مشتمل ٹائیگر فورس کے ذریعے امداد کی تقسیم دو دھاری تلوار ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ جہاں بھی بروقت امداد تقسیم نہیں ہوگی وہاں سے احتجاج کی آواز بلند ہوگی، بلکہ بعض مقامات پر امداد فراہم کرنے والی ٹیموں پر حملے بھی ہوچکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہاہے کہ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس سیاسی فائدے کے لیے بنانے کا اعتراف کرلیا ہے، قوم کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، جب کہ عمران خان سیاسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں، انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے نام پر 32 سال سیاست کی۔ دل میں اللہ کا خوف رکھنے والے نوٹ اور ووٹ کے ذریعے سوشل ورک کی قیمت وصول نہیں کرتے، عمران خان جن پر فلاحی کام نہ کرنے کا الزام عائدکررہے ہیں انھوں نے فلاحی کام کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو پتا نہیں لگنے دیا۔
حکومت نے وزیراعظم کے اعلان پر وزیراعظم کورونا ریلیف فنڈ آپریشنل کردیا ہے، جب کہ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے الگ الگ ریلیف اکائونٹس کھلوا دئیے ہیں، جس سے یہ انداز ہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں کورونا کی عالمی وبا سے نمٹنے میں کس حد تک بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ دریں اثناء امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کورونا کی صورتِ حال پرکہا ہے کہ حکومت اور قومی قیادت کو ملک کی بقاء کے لیے اپنی اپنی اَنا کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وزیراعظم اور اپوزیشن مل بیٹھ کر مشاورت کریں اور کورونا وبا سے نجات کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اور لائحہ عمل بنایا جائے۔
قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر اتفاقِ رائے اور مربوط حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے تمام فریقین کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اورصوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے کورونا وبا کے ایشو پر حکومتی اعلانات اور ادھورے اقدامات کو سولو فلائٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکمران اپنے ان اقدامات کے ذریعے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انہوں نے نمائندۂ فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وسیع النظر راہنمائوں کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے قومی بحرانوں کے مواقع پر تمام سیاسی راہنمائوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، لیکن موجودہ حکمران اپنی ضد کے اسیر بن کر اپنی ذات اور پارٹی کے تنگ خول سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کو مصیبت کی اس گھڑی میں خیبر پختون خوا کی نہ صرف ہنگامی مالی امداد کرنی چاہیے بلکہ بجلی کے خلاص منافع کی فی الفور ادائیگی کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔