ہم کیا، پوری دُنیا جس کورونا وائرس کی گرفت میں ہے، اس طرح کی مشکل سے نکلنے کا طریقہ ہمیں ہمارے ہادیِ برحق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا اور دوا کا بتایا ہے۔ دوا اس کی ابھی تک میل جول میں فاصلہ رکھنے کی احتیاط اختیار کرنے کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے رب کریم، جو ربِ کائنات ہے، اُس سے استغفار طلب کرتے ہیں اور احتیاط پر عمل پیرا رہنے کی توفیق۔ ربِ کریم سے اس گناہ گار و خطاکار کی بھی التجا ہے کہ وہ ہمیں بہ حیثیت قوم اس آفت کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ہمت بخش دے، اور پوری دنیا کو اس وبا سے نجات دلاکر اپنی ساری مخلوق پر رحم فرما، اور جن کے ہاتھ میں ہماری قیادت کی باگ ڈور ہے ان کو وہ فہم عطا فرما جس کی اِس وقت ضرورت ہے، تاکہ اجتماعی دانش سے اس سے نکلنے کی راہیں کھل پائیں، کیوں کہ قوم یک جان دو قالب کے مصداق تب ہی نظر آئے گی جب قیادت کے منصب پر فائز اس راہ پر گامزن ہوگا، جو اس منصب کا تقاضا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم نے تب ہی کوئی معرکہ سر کیا ہے جب پوری قوم یک جان دو قالب کے مصداق کھڑی نظر آئی۔ ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب ذاتی و گروہی مفادات، سیاسی ضرورتوں اور وقتی مصلحتوں سے بلند ہوکر آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں گے۔ قیادت نے اس کا ادراک نہ کیا تو مجرمانہ غفلت کے مرتکب کسی شخص سے بھی حالات کا جبر اور وقت کا بے رحم کوڑا رعایت نہیں کرے گا۔
بے سروسامانی، اور مطلوبہ سہولیات نہ ہونے کے باوجود کورونا وائرس سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے تمام ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو سلام… اور اُن سب کو بھی سلام جو ملک بھر کی جامعات کی لیب میں اس کی دوا دریافت کرنے میں ہمہ تن سرگرداں ہیں، بطور خاص ملک کے بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز معالج ڈاکٹر طاہر شمسی کو، جنہوں نے سب سے پہلے پلازمہ سے اس کا علاج تجویز کیا تھا۔ یہ طریقۂ علاج جدید طب کا آزمودہ مجرب نسخہ ہے۔ اب چینی ماہرین نے بھی کورونا وائرس میں اس طریقۂ علاج کی افادیت پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ سلام اُن تمام سول اور عسکری اداروںکو، جو قوم کو کورونا وائرس کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سلام ملک کے تمام رفاہی اداروں، گروپوں اور افراد کو، جو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر خالص دینی و ملّی اور انسانیت کی خدمت کے بے لوث جذبے سے سرشار دن رات کسی صلہ و ستائش کی تمنا کیے بغیر اُن کے گھروں میں راشن پہنچانے میں مصروف ہیں، جن کے گھروں کے چولہے کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے لاک ڈائون کے سبب روزی روزگار کمانے کی سہولت ختم ہونے کی وجہ سے ٹھنڈے ہورہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان تو ابھی اس سلسلے میں اپنی ٹائیگر فورس رجسٹریشن کے مرحلے سے بھی نہیں نکلے، جب کہ دوسری طرف دکھی انسانیت کے بے لوث خدمت گزاروں نے اپنے ذاتی وسائل اور عوام کے عطیات سے لاکھوں متاثرہ خاندانوں کو گھر گھر جاکر ایک ایک ماہ کا راشن بھی تقسیم کردیا ہے، جس پر ہم اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ اس نے مسلم معاشرے کو خلافتِ راشدہ کا مقدس دور ختم ہونے کے بعد بھی کسی دور میں ایسے نیک طینت افراد، گروہوں اور جماعتوں سے کبھی خالی نہیں رکھا ہے، جو بلا امتیازِ زبان و نسل اور فقہی مسلک و عقیدے کے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کو بہترین عبادت سمجھتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خدمتِ خلق کے بعض دائروں میں تو مسلم اور غیر مسلم کی تمیز رکھنے کی بھی ہمارا دین اجازت نہیں دیتا۔ مسلم سماج میں غریب اور بے سہارا لوگوں کی کفالت میں اوقاف وقف ٹرسٹ کا تصور بہت قدیم ہے۔ بنو عباس میں تو اسے سرکاری ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ محروم طبقات کی کفالت میں ایک اہم کردار ہمارے روحانی سلسلوں سے جڑے خانقاہی نظام نے بھی ادا کیا ہے۔ دینی مدارس، یتیم خانے اور اہلِ خیر صاحبِ ثروت لوگوںکے قائم کردہ وقف املاک کے ٹرسٹ، اور عصرِ حاضر میں دینی و سیاسی جماعتوں میں خدمتِ خلق کے شعبے اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
برصغیر میں انفرادی سطح پر بھی، اور کچھ خیراتی ادارے قائم کرکے بے سہارا افراد کی امداد کا سلسلہ تو ہمیشہ سے رہا ہے، البتہ برصغیر کی دینی اور سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں جماعت اسلامی پہلی دینی سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اپنے تنظیمی ڈھانچے میں باقاعدہ خدمتِ خلق کا شعبہ قائم کیا، جسے اس کی تنظیم میں بنیادی اہمیت حاصل رہی۔ بانیِ جماعت سید مودودیؒ نے اپنے پیروکاروںکو اسی کام کی اہمیت ذہن نشین کرنے کے لیے کہا تھا کہ خلقِ خدا کی خدمت کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ خود مقصدِ دین کا تقاضا اور قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور اس شعبے میں جماعت اسلامی کی پُرخلوص خدمات کا اعتراف اس کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے بھی کرتے ہیں۔ حالات کتنے بھی نامساعد ہوں، اس شعبے میں جماعت اسلامی کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ سب سے زیادہ تربیت یافتہ رضا کار کارکن اسی کے پاس ہیں۔ ملک بھر میں کتنے ہی فلاحی ادارے ایسے ہیں جن کے ذمے داروں نے خدمتِ خلق کے کام کی ابتدا جماعت کے شعبۂ خدمتِ خلق سے کی۔ ملک کیا، بیرونِ ملک بھی لاتعداد رفاہی اداروں کی بنیاد رکھنے والوں نے اس کی تربیت یہیں سے حاصل کی تھی۔ ایدھی فائونڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی مرحوم پچاس کے عشرے میں اوائلِ جوانی میں جماعت کے شعبۂ خدمتِ خلق سے برسوں وابستہ رہے۔ 1958ء کے مارشل لا میں جب جماعت اسلامی پر پابندی کے ساتھ اس کا شعبۂ خدمتِ خلق مع تمام اثاثوں کے بحق سرکار ضبط کرلیا گیا تو ایدھی مرحوم نے اپنے طور پر دکھی انسانیت کے لیے کام شروع کیا۔ ایدھی مرحوم 1958ء کے بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر بلدیاتی کونسلر بھی منتخب ہوئے تھے۔
مسلمان اگر اپنے چیریٹی کے نظام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح مربوط کرلیں اور اپنے نظام حکومت میں اداروں کی سطح پر غربت کے خاتمے کی اسکیموں کا قابلِ عمل نظام وضع کرلیں جو عصرِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو تو مسلم سماج میں چیریٹی کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ بہتر نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں جو دوسری اقوام نے اپنے چیریٹی کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے برآمد کیے ہیں۔
اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج بھی اپنی زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے اس میدان میں سب سے آگے ہیں۔ جب تک ہم باقاعدہ کوئی نظام وضع نہ کرلیں، اُس وقت تک وسائل سے محروم طبقات کی داد رسی اور خلقِ خدا کی خدمت کا فریضہ یہی افراد، گروہ اور جماعتیں ادا کریں گی۔ معروف بیوروکریٹ ڈاکٹر امجد ثاقب نے سول سروس کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی خلق خدا کے لیے وقف کررکھی ہے۔ انہوں نے وسائل سے محروم طبقات کو قرضِِ حسنہ کے ذریعے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے بڑا کامیاب تجربہ کیا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں نے دورِ غلامی میں بھی اپنے عطیات سے چھوٹے بڑے رفاہی ادارے اور بڑے بڑے جدید و قدیم علوم کے تعلیمی ادارے قائم کردیے تھے۔ یہ علی گڑھ، جامعہ ملیہ، نروہ، فرنگی محل مکتبہ فکر کے تعلیمی ادارے اور دیوبند اور بریلوی مکتبہ فکر کی اتنی بڑی درس گاہ، سندھ مدرسہ، اسلامیہ کالج پشاور، اسلامیہ کالج لاہور اور دیگر جگہ اسلامیہ ہائی اسکولز اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کے عطیات سے بنے تھے۔
طب کے شعبے میں کراچی کا ادارہ برائے امراضِ قلب کراچی کے لوگوں نے اپنے عطیات سے تعمیر کرکے وفاقی حکومت کے سپرد کیا تھا۔ کراچی میں دیگر اداروں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ایس آئی یو ٹی اور انڈس اسپتال کے ڈاکٹر باری کی ٹیم جو خدمت انجام دے رہی ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ملک بھر میں الخدمت کے تحت چلنے والے اسپتال اور لیب میں کم وسائل کے حامل افراد اورمحروم طبقات کے لیے جو سہولتیں میسر ہیں وہ بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس کے علاوہ اندرونِ سندھ سمیت ملک بھر میں بہت سے رفاہی ادارے طب کے شعبے میں دکھی انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اندرونِ سندھ راشدہ آباد کا شاندار میڈیکل کمپلیکس غریب اور پسماندہ طبقات کی گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔ کراچی میں میمن کمیونٹی، چنیوٹ کی شیخ کمیونٹی، جمعیت پنجابی سوداگران کے تحت چلنے والے تعلیمی اور طبی ادارے گراں قدرخدمات انجام دے رہے ہیں۔ عبدالستار ایدھی مرحوم کی ایدھی فائونڈیشن اور جناب رمضان چھیپا کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔
کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتِ سندھ کی کارکردگی وفاق اور دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے قابلِ ستائش ہے۔ اس نے ریلیف کے معاملات میں بھی تمام رفاہی اداروںکو آن بورڈ لیا ہوا ہے، اور سندھ حکومت کے ریلیف پیکیج کی تقسیم میں ایدھی، چھیپا اور ڈاکٹر باری کو شامل کر رکھا ہے۔ کورونا وائرس کے متاثرین کی مدد میں تمام قابلِ ذکر رفاہی اداروں کا کردار شاندار ہے جس پر قوم جتنا فخر کرے، کم ہے۔ سیلانی کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی نے دو ارب روپے کا کچا راشن تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
الخدمت ملک بھر میں اب تک لاکھوں خاندانوں کے گھروں میں ایک، ایک ماہ کا راشن اور دیگر بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچا چکی ہے۔کراچی کی اُن بستیوں میں جہاں لاک ڈائون کی وجہ سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے یا اپنے طور پر محنت مزدوری سے رزق کمانے والے متاثر ہوئے ہیں، ایسے پچاس ہزار سے زائد گھروں میں الخدمت کے رضا کار گھر گھر جا کر ایک ایک ماہ کا راشن تقسیم کر چکے ہیں۔ کراچی میں ایدھی، چھیپا اور عالمگیر ٹرسٹ بھی بڑے پیمانے پر راشن تقسیم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ صاحبِ حیثیت لوگ گروپ بنا کر راشن تقسیم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔
’’اورنج ٹری فائونڈیشن‘‘(Orange Tree Foundation) کے نام سے قائم ادارے نے بھی اب تک دس ہزار سے زائد لوگوں میںراشن تقسیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت پنجابی سوداگران کراچی ریلیف ٹرسٹ کے باہمت نوجوان بھی اس نیک کام میں مصروفِ عمل ہیں۔ معروف ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ جبران ناصر صدیقی بھی اپنے حلقۂ انتخاب کی غریب بستیوںمیں منظم انداز میں ریلیف کا کام کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ جبران ناصر نے 2018ء میں ڈیفنس سے انتخاب لڑا تھا، مگر ناکام رہے تھے۔کاش وزیراعظم عمران خان اب بھی اپنے منصب کے آئینی تقاضے کو سمجھ پائیںاور ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیں تو قوم اس وبا سے پیدا ہونے والے بحران کا بھی با آسانی مقابلہ کر سکتی ہے۔
ہر آنے والا دن اس وبا کے مزید پھیلائو کی خبریں لے کر آرہا ہے۔ اب تو جناب اسد عمر نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کی تعداد میں زیادہ اضافہ ہوا تو اسے ہمارا صحت سیکٹر سہار نہ سکے گا۔ اس صورت میں تو قومی یک جہتی اور اتفاقِ رائے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ وزیراعظم نے شوگر اور آٹا بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اب کورونا وائرس کے خطرے کا بروقت درست اندازہ نہ کرنے والوں کا تعین بھی کریں، اور اُن کا بھی جن کی مداخلت کی وجہ سے بیرونِ ملک سے آنے والوں کو قرنطینہ میں رکھے بغیر ان کے گھروں میں جانے دیا گیا۔