وزیراعلیٰ بلوچستان کی صحافیوں سے مشاورتی نشست
بلوچستان حکومت کی کوتاہیاں اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے مشکل کی اس گھڑی میں بروقت صوبے کی کوئی مدد نہ کی، اور دیگر صوبے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر رہے۔ ایران کی حکومت نے اپنے ہاں تمام پاکستانیوں بشمول زائرین کے پاسپورٹ پر ایگزٹ مہر لگا کر پاک ایران سرحد پر بفر زون میں چھوڑ دیا، جس کے بعد سارا بوجھ بلوچستان پر آن پڑا۔ جو ہوا سب نے دیکھا اور سنا۔ اس صورتِ حال کو وفاقی حکومت اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو صوبائی حکومت کی معاونت سے دیکھنا چاہیے تھا، مگر تاسف کا مقام ہے کہ وفاق سمیت این ڈی ایم اے نے جرم و خیانت کا ارتکاب کیا، اور ایک پائی بلوچستان کو نہ دی گئی۔ لاجسٹک معاونت قطعی نہ ہوئی، اور پھر تمام صوبوں کے افراد کو جو تفتان میں موجود تھے، بلوچستان حکومت نے اپنے وسائل کے تحت پہلے قرنطینہ میں رکھا اور اس کے بعد خصوصی ٹرانسپورٹ کے ذریعے ان کے صوبوں کی سرحدوں تک پہنچایا۔ یعنی یہاں بھی وفاق یا کسی صوبے نے بلوچستان کی مالی یا دیگر ضروریات کے ضمن میں مدد نہ کی۔ ہونا یہ چاہیے کہ بلوچستان ہونے والے اخراجات ان صوبوں سے طلب کرے۔ پنجاب حکومت نے بلوچستان کے لیے ایک ارب روپے امداد کا اعلان کیا ہے جو مستحسن قدم ہے۔ اب تک بلوچستان حکومت درپیش صورت حال کے تناظر میں محکمہ صحت، پی ڈی ایم اے، محکمہ مواصلات و تعمیرات وغیرہ کو دو ارب سے زائد رقم جاری کرچکی ہے۔ 30 مارچ کو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے صحافیوں سے مشاورتی نشست میں بتایا کہ ہنوز بلوچستان وفاق کی امداد اور معاونت کا منتظر ہے۔ جام کمال کے مطابق انہوں نے بلوچستان کے صنعتی علاقے حب میں قائم دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے صنعت کاروں کا واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں پندرہ یوم تک ان بڑے صنعت کاروں کو بلوچستان کی مشکلات اور ضروریات کی جانب توجہ دلائی جاتی رہی، مگر ان صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں نے آخر تک کوئی جواب نہ دیا، جس کے بعد انہیں گروپ ختم کرنا پڑا۔ دیکھا جائے تو ان فیکٹری مالکان و صنعت کاروں کے مسائل پر بلوچستان حکومت متوجہ ہے، انہیں جب بھی کوئی مشکل یا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو وزیراعلیٰ بلوچستان سے خود یا دوسرے ذرائع سے رابطہ کرتے ہیں۔ گویا بلوچستان حکومت ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی پالیسی رکھتی ہے، مگر یہ سرمایہ دار مشکل وقت میں جام کمال کی بارہا درخواستوں کے باوجود آگے نہ بڑھے۔ چناں چہ ہونا یہ چاہیے کہ بلوچستان حکومت بھی ان کے بجائے صوبے کے مفاد کو مقدم رکھے۔ بلوچستان کے صنعت کاروں، تاجروں کو میدان میں لے کر آئے تاکہ وہ اس ضمن میں کارِخیر میں حصہ لیں۔ بقول وزیراعلیٰ بلوچستان: حکومتِ چین ڈاکٹر اور ماہرین بلوچستان بھیج رہی ہے جو یہاں محکمہ صحت کی مدد کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کے لیے اضافی تنخواہ کا اعلان کیا ہے۔ یہ کورونا وائرس فنڈز کے لیے کٹوتی سے بھی مستثنیٰ ہوں گے۔
بہرحال ڈاکٹر اور محکمہ صحت کے ملازمین غیر محفوظ ہیں، جس کی وجہ حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی ہے۔ بات سچ بھی ہے کہ اب تک کئی ڈاکٹر کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں ۔6 اپریل کو ینگ ڈاکٹرز نے ریلی نکالی ،ریڈ زون کی طرف گئے جنہیں وزیراعلیٰ ہائوس کی جانب بڑھنے نہیں دیا گیا ۔ان پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا،پکڑ دھکڑ ہوئی، ڈاکٹروں کو حراست میں لیا گیا،جس کے بعد ڈاکٹروں نے اسپتالوں میں ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ۔ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کو وارڈ کی سطح پر راشن اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء ان کے گھروں تک پہنچائی جائیں۔ یہ کام سابق کونسلر (جن میں چند اِس وقت بھی سرگرم ہیں) اور سوشل ویلفیئر پر رجسٹرڈ انجمنوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کر کیا جائے، اِن شاء اللہ مستحق افراد کو اشیائے خوردنی کی ترسیل تسلسل سے ہونا شروع ہوجائے گی۔
ہم بارہا وزیراعلیٰ جام کمال کو توجہ دلاچکے ہیں کہ حکومتوں کے اندر شفافیت بہت ضروری ہے۔ نیک نام اور اچھی شہرت کے حامل افسران سے کام لیا جائے۔ اُن افسران کو قریب بھی آنے نہ دیا جائے جن پر ماضی میں نیب مقدمات بنے ہیں، یا جو اب بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ سرحدوں پر لوگوں کی آمد و رفت اب بھی جاری ہے، خصوصاً پاک افغان چمن سرحد پر رقم لے کر بغیر طبی معائنے کے لوگوں کو جانے اور آنے دیا جارہا ہے۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب اور پشین کے راستوں سے بھی لوگ آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق ایران میں اس وقت بھی ساڑھے سات سے آٹھ ہزار پاکستانی موجود ہیں۔ صوبائی حکومت کے دعوے کے مطابق ان افراد کے لیے تفتان میں پندرہ ایکڑ رقبے اور چھے سو کنٹینرز پر مشتمل بڑا قرنطینہ مرکز بنایا جارہا ہے جس میں تمام سہولیات دی جائیں گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو۔ اسی طرح چمن میں نو سو افراد کے قرنطینہ کے لیے خیمہ بستی بنائی جارہی ہے۔ کوئٹہ میں بھی دشت کے قریب پچاس ایکڑ رقبے پر کنٹینرز کی مدد سے قرنطینہ بنایا جائے گا۔ مجموعی طور پر صوبائی حکومت کوئٹہ، تفتان اور چمن میں قرنطینہ مراکز پر پچاس کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ حکومت کو تفتان کی خیمہ بستی کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے قرنطینہ کے معیارات کو پورا کرنا چاہیے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ سرکاری افسران بالخصوص ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی وزرا، مشیروں یا دوسروں کی خواہش و مرضی کے مطابق مزید نہ ہو۔ یہ سب کچھ سرکاری مفاد اور ضابطے کے تحت ہو۔ عالم یہ ہے کہ کوئی بھی ڈپٹی کمشنر بغیر سفارش یا کسی وزیر و مشیرکی طلب کے بغیر تعینات نہیں ہے۔ بعض دوسرے حلقے بھی اس تناظر میں مداخلت کررہے ہیں، یعنی بیورو کریسی کے تبادلوں میں ان کی اتھارٹی چلتی ہے، جہاں جو ڈپٹی کمشنرنا پسند ہو اُس کا تبادلہ کرا دیا جاتا ہے۔ بہت پہلے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل اس بارے میں ڈپٹی کمشنرز اور افسران کو کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں ایسی صورت حال کا سامنا ہو تو عدالت سے رجوع کریں۔ چناں چہ 30 مارچ کو عدالتِ عالیہ میں بلوچستان کے چیف جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بینچ نے مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے تبادلے کے نوٹیفکیشنز کو معطل کردیا۔ ایسی صورت میں سرکاری عملے و حکام کو بھی چاہیے کہ وہ فوراً بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا کریں۔ صوبائی حکومت بھی اس تماشے سے خود کو بچائے۔ جس حکومت کی رٹ نہ ہو وہ عوام کی نمائندہ نہیںکہی جاسکتی۔ سول افسران کو کسی کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ یقیناً بیوروکریسی کے اندر بے چینی اور خوف کا ماحول بنا ہوا ہے۔