کورونا اور حکومتی حماقتیں

اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں جتنی جہالت سائنس اور ٹیکنالوجی اور وزارت صحت نے دکھائی وہ سنہرے حروف سے لکھا جانے والا کارنامہ ہے

سرور معز

ابھی تک تو میں خاموش تھا کہ جو ہورہا ہے اور حکومت کی جو حرکتیں ہیں انہیں برداشت کیا جائے کہ قسمت میں شاید یہی لکھا تھا، اور دوسری وجہ شاید یہ رہی کہ جن ہاتھوں سے پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ پر مہر لگائی، اب انہی ہاتھوں سے ان کی حرکتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس ہورہی تھی۔ مگر آج وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری کا بیان پڑھا جو ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق تھا تو رہا نہیں گیا۔ ان کا بیان ہے کہ ’’کورونا مذہبی جہالت کی وجہ سے پھیلا‘‘۔
اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں جتنی جہالت سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں دکھائی گئی، اور وزارتِ صحت کے حکام نے کورونا کو پھیلانے میں اپنی جتنی کوششیں لگادیں وہ سنہرے حروف سے لکھا جانے والا کارنامہ ہے۔ ان دونوں وزارتوں کی اتنی بڑی جہالت کے باوجود بھی اگر ابھی تک کورونا نسبتاً محدود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی و مذہبی صفائی کے طریقے اور علمائے کرام کی دعائوں کی بدولت اللہ تعالیٰ کا رحم ہے، ورنہ ہمارے حکام نے تو پورے پاکستان کو اس میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اپنے بیان میں صرف ایک جملہ موصوف وزیر صاحب کا صحیح ہے کہ ’’جہالت اللہ کے عذاب کی صورت میں ہمارے اوپر مسلط ہے‘‘۔ اور واقعی ہم پر جو حکمران مسلط ہیں وہ جہالت کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ وہ خود اپنی جاہلیت اور نااہلی کی وجہ سے کورونا کو بڑھانے کا سبب بنے ہیں، اور مذہبی جاہلیت کی اصطلاح وضع کرکے الزام علماء اور مذہبی جماعتوں پر ڈالنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔ اب ذرا تفصیل سے ساری صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ پتا چلے کہ کس کی جہالت کی سزا یہ قوم بھگت رہی ہے۔
ایک انگریزی کہاوت کا ترجمہ ہے: ’’وقت پر ایک ٹانکا نو ٹانکوں سے بچاتا ہے‘‘۔ کورونا جن جن ممالک میں شروع ہوا، سمجھا گیا کہ ارے صرف پانچ کیس ہیں، ارے صرف دس کیس ہیں، اس پر کنٹرول تو بہت آسان ہے۔ احتیاطی تدابیر بروقت اختیار نہ کی گئیں جس کا نتیجہ بھگتنا پڑا، سوائے چین کے جہاں پر یہ ایک نئی بیماری تھی اور کوئی مثال پہلے سے موجود نہ تھی، مگر انہوں نے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگی بنیادوں پر اس کے خلاف کام شروع کیا۔ سارے متعلقہ لوگوں اور میڈیکل سائنس کے ماہرین کو ایک جگہ بٹھایا اور اُن کی سفارشات کی روشنی میں عملی اقدامات کیے۔ اس کے برعکس اٹلی کی مثال ہے۔ شروع شروع میں وہاں دو چار کیس ہوئے تو زیادہ توجہ نہ دی گئی اور چین پر تبصرے کرتے رہے۔ اور جب ہوش آیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ جہاں جہاں بھی کورونا پھیلا وہاں صورتِ حال یہی رہی کہ شروع کے دو تین ہفتے غیر سنجیدگی اور کاہلی میں ضائع کردیے، اور چوتھے ہفتے صورتِ حال بے قابو ہوگئی اور حالت یہ ہوگئی تھی کہ ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا‘‘۔
پاکستان میں کورونا زیادہ تر ایران سے آیا۔ حالاں کہ اصل خوف چین سے آنے کا تھا مگر چین نے اپنی سرحدیں بند کرکے اور لوگوں کی آمدورفت پر پابندی لگا کر اچھا کیا جس کی وجہ سے ہم بھی محفوظ ہوگئے۔ مگر ایران کا معاملہ اس لحاظ سے ذرا مختلف رہا کہ ایران اپنے معاشی حالات کی وجہ سے پاکستانی زائرین کو اپنے ہاں رکھنے پر تیار نہیں تھا اور پاکستان واپس بھیج رہا تھا۔ جبکہ چین نے پاکستانیوں کو اپنے ہاں روکے رکھا۔ بہرحال امرِ واقع یہ تھا کہ لوگ بسوں کے ذریعے ایران سے آئے اور ان سب کو تفتان میں روک لیا گیا۔ کرنے کا کام صرف یہ تھا کہ تفتان کے زمینی راستے سے آئے ہوئے زائرین اور ائرپورٹ پر آنے والے مسافروں کے لیے طبی ماہرین کے ذریعے مستعدی سے ایسا نظام بناتے کہ ہر شخص کو وہیں چیک کیا جاتا اور شک کی صورت میں بہت ہی اچھے طریقے سے ان کو قرنطینہ میں رکھتے۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ ایران سے تفتان پہنچنے کے بعد سب کو ایک ساتھ ایک ایسی جگہ پر بند کردیا گیا کہ جہاں نہ صفائی کا انتظام تھا اور نہ بیت الخلا کا مناسب انتظام تھا۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا کہ تین ہزار افراد کے لیے صرف 4 سے 8 بیت الخلا تھے۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اس طرح تین ہزار افراد کے لیے چار سے آٹھ بیت الخلاء کافی ہوسکتے اور وہ بھی مکمل صفائی کے ساتھ! شاید بیت الخلاء کی گندگی بھی کورونا وائرس کے پھیلائو کا سبب بنی ہو۔
اب ذرا تفصیل سے ساری صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب ایران میں کورونا وائرس پھیلا اور پاکستانی زائرین وہاں سے واپس بھیجے گئے کیوں کہ انہیں وہاں رکھنے کا انتظام نہ تھا، اُس وقت تک دنیا کو چین کی وجہ سے خاصی معلومات مل چکی تھیں اور اس کی ہلاکت خیزی اور تیزی سے پھیلنے کے بارے میں سب کو پتا چل چکا تھا۔ اس وقت ہم چین کی طرح بروقت انتظام کرلیتے تو یہ ہمارے لیے کوئی ناگہانی آفت نہ تھی۔ آفت تھی اور بہت بڑی، مگر ناگہانی اس وجہ سے نہیں تھی کہ یہ چین اور ایران میں تباہی پھیلا چکی تھی اور اس کے پھیلنے کی وجوہات اور اس سے نمٹنے کا طریقہ کار بھی سامنے آچکا تھا:
(الف) چین نے تو اپنا ووہان شہر فوراً بند کردیا کہ لوگ وہاں سے نہ نکلیں، اور نہ وہاں جائیں۔
(ب) پورے ملک سے ماہرین اور ڈاکٹروں کی بہت بڑی تعداد وہاں بلالی۔
(ج) اپنے پری فیب (prefab) تعمیرات کے ماہرین کو بلا کر راتوں رات نئے اسپتال بنادیے۔ ہر مریض کو وی آئی پی سمجھا اور اسی طرح علاج کیا۔ ہر اسپتال کو ہدایت تھی کہ اپنا دس فیصد عملہ ووہان بھیج دے۔ جب 80 ہزار مریض ہوگئے اُس وقت بھی ہر دو مریضوں پر ایک ڈاکٹر تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرض مزید نہ پھیلا اور دو مہینوں کے بعد یہ حال ہے کہ اب روز کے دو چار ہی نئے مریض آرہے ہیں اور اموات کی شرح بھی روزانہ سیکڑوں سے ایک آدھ پر آگئی ہے۔ بروقت توجہ دینے کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ان کے ہاں اموات کی شرح بھی تقریباً تین فیصد رہی، جبکہ اٹلی میں یہ شرح تقریباً 10 فیصد ہے جبکہ اس کا صحت کا شعبہ یورپ میں بہترین ہے۔
ساتھ ہی ساتھ چین میں طبی عملے کو بھی وی آئی پی کا درجہ دیا گیا۔ اُن کے لیے مکمل حفاظتی لباس کا انتظام کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طبی عملے نے بھی اپنی جان لڑا دی، دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا۔ ڈاکٹروں کی اس انتھک محنت کا نتیجہ جلد سامنے آیا، اور جب کام مکمل کرکے طبی ماہرین واپس جانے لگے تو کیا فوج، کیا عوام… سب عقیدت سے ان کو سلیوٹ کررہے تھے۔
چین کی کامیابی کا صرف ایک راز تھا، سائنس اور ٹیکنالوجی کا کرتا دھرتا جاہل اور بیان باز نہ تھا۔ بہتر سے بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ وزارتِ صحت والے نااہل نہ تھے۔ اب اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کیا ہوا؟ ہم نے جاہلیت اور نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ حکومت نے تفتان میں قرنطینہ کیمپ بنائے، جبکہ بنانے والوں کو قرنطینہ کا مطلب بھی نہیں معلوم تھا کہ ہر آدمی کو دوسرے سے الگ کمرے میں رکھنا ہے۔ ایک ایک ہال میں مریض اور صحت مند سب ساتھ رکھ دیے گئے، سیکڑوں کی تعداد میں ساتھ ساتھ سب کے بستر لگے تھے اور مزید لوگوں کے لیے خیمے لگے تھے، اور 9×9 کے خیمے میں 3 سے 4 افراد ایک ساتھ تھے۔ ایک طرف ذرائع ابلاغ پر اشتہار چلائے جارہے تھے کہ صحت مند لوگ بھی درمیان میں 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں، جبکہ کیمپوں میں بیمار اور صحت مند سب کو برابر برابر لٹا دیا گیا تھا۔ جو خوراک ان کو دی جارہی تھی اس کا حال بھی ناگفتہ بہ تھا۔ جبکہ بیت الخلا اور حمام کا حال بیان کرچکے ہیں۔
کرنے کا کام یہ تھا کہ ماہرین کی ایک ٹیم بلاتے اور اُن کے مشورے اور ہدایات کی روشنی میں قرنطینہ میں رکھنے اور آئیسولیشن کا طریقہ کار طے کرتے، اور علاج کے بارے میں رہنمائی لیتے۔ مگر عملاً کیا یہ گیا کہ لانگو اور شاہوانی جیسے لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی، اب وہ بیچارے کیا کرتے! جس کام کا ذمہ انہیں دیا گیا وہ اس کے لیے نااہل تھے، اور پھر نااہلی کی شکایت اُن سے کرنا عبث ہے۔ انڈس اسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری اور دوسرے ماہرین کو اُس وقت آن بورڈ لیا گیا جب حالات قابو سے باہر ہوگئے تھے۔
تفتان میں ہوا کیا! وہاں بیماری کو باقاعدہ کلچر کیا گیا (لیب میں کلچر کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کو جب کسی بیمار کو اینٹی بائیوٹک دینی ہوتی ہے اور صحیح معلوم نہیں ہوتا کہ کون سے جراثیم ہیں اور کون سی اینٹی بائیوٹک صحیح رہے گی تو وہ مریض کو لیبارٹری بھیجتا ہے، جہاں اس کے خون یا کسی اور رطوبت کا نمونہ لے کر اس کو جراثیم بڑھنے کے موافق حالات میں رکھا جاتا ہے، اور جب جراثیم کی پوری فوج تیار ہوجاتی ہے تو اس کو لیب میں چیک کرکے ڈاکٹر کو رپورٹ بھیجی جاتی ہے۔ اس عمل کو کلچر کرنا کہتے ہیں)۔ ایک طرف تو اس حرکت کی وجہ سے یہ کہانی بن رہی ہے کہ ذرا کورونا بڑھے گا تو بین الاقوامی امداد زیادہ آئے گی، اور یہ کرتے کرتے معاملات ہاتھ سے نکل گئے۔ یہ خیال بھی اس لیے لوگوں کے ذہن میں آیا کہ اس پاکستان میں سب کچھ ممکن ہے۔ مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے، اور معاملہ صرف اور صرف جاہلیت اور نااہلی کا ہے۔ نیم حکیم خطرۂ جان اور نیم ملّا خطرۂ ایمان کے مصداق ہمارے حکومتی عہدیدار اپنے آپ کو افلاطون سمجھنے لگتے ہیں۔ اہل لوگوں کو اُن کا کام کرنے دیا جاتا تو حالات اتنے برے نہ ہوتے۔ حکومت نے پہلے تو بڑھ چڑھ کر کریڈٹ لیا کہ ہم نے بہترین انتظامات کیے ہیں اور بین الاقوامی برادری ہماری بڑی تعریف کررہی ہے۔ تو جناب وہ آپ کے اس اعلان کی تعریف کررہے تھے کہ آپ نے تفتان میں سب کو قرنطینہ اور ہر فرد کو علیحدہ رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کو معلوم نہیں تھا کہ آپ کی ٹیم کو قرنطینہ اور آئیسولیشن کا مطلب بھی معلوم نہیں ہے۔ باہر کا کوئی صحافی یا نمائندہ تفتان جاکر آپ کے انتظامات دیکھ لیتا تو غش کھا کر وہیں گر جاتا۔ جب صحافیوں نے وہاں کے حالات دکھائے تو وزیراعظم کے مشیر صحت (جو ایک دن پہلے تک تفتان میں حکومت کی کارکردگی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے) نے پینترا بدلا اور کہا کہ تفتان بہت دور افتادہ جگہ ہے جو کوئٹہ سے 600 کلومیٹر دور ہے، وہاں انتظامات نہیں کیے جاسکتے تھے۔ ارے بھائی آپ کو بعد میں پتا چلا کہ تفتان کتنی دور ہے اور وہاں کیا کیا جاسکتا تھا اور کیا نہیں! آپ نے فوج کو بھی بہت دیر بعد آن بورڈ لیا۔ اگر اُسی وقت لے لیتے اور ماہرین فوج کو بتادیتے کہ کس قسم کی سہولیات ہمیں درکار ہیں تو یقیناً وہ ساری درکار سہولیات مہیا کردیتے، کہ فوج کو دور افتادہ علاقوں میں لمحوں میں درکار سامان پہنچانے کا تجربہ حاصل ہے۔جو انتظامات آپ نے کیے، اُس سے بہت بہتر انتظامات مختصر نوٹس پر تبلیغی جماعت والے بھی کرلیتے ہیں۔ پھر زائرین کو قرنطینہ کے دوہرے عذاب سے گزارنے کا فیصلہ ہوا۔ شاید ایران سے آنے والوں میں دو یا تین ہی مریض ہوں گے، پھر آپ نے 14 دن وہاں ساتھ رکھ کر اپنی حماقت اور جاہلیت سے پوری کوشش کر ڈالی کہ سو فیصد لوگوں کو ہوجائے۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، صرف نصف تعداد کو ہوا۔ پھر وہاں سے دوبارہ قرنطینہ کرنے کے لیے ڈیرہ غازی خان، کے پی کے اور سکھر منتقل کیا گیا۔ وہاں بھی بسوں میں بھر بھر کر بھیجا گیا، سب ایک دوسرے کے ساتھ مل مل کر بیٹھے۔ اگر کوئی سخت جان کورونا سے کسی طرح تفتان میں بچ گیا ہو تو ڈیڑھ دن کے اس تکلیف دہ سفر میں اس کی قوتِ مدافعت (جو تقریباً پہلے ہی ختم ہوچکی تھی کیمپ کی تکلیفوں میں) اس سلوک سے مزید کمزور ہوجائے اور وہ شخص باآسانی کورونا میں مبتلا ہوجائے۔ یقیناً یہ کوئی شعوری کوشش نہیں ہوگی اور یہ بھی صرف جاہلیت اور نااہلی کا شاہکار تھا۔
پھر اس کے بعد خیال تھا کہ شاید ڈیرہ غازی خان اور سکھر وغیرہ میں شاید سبق سیکھا ہو اور کوئی بہتر سلوک ہوگا کہ تفتان کی حرکتیں سامنے آگئی تھیں۔ مگر جب وہاں سے بھی لوگ بھاگنے لگے تو اندازہ ہوا کہ شاید یہ حماقتیں اور نااہلی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے اور وجہ صرف ایک ہی ہے جاہلیت، جاہلیت۔
بیچارے مریضوں سے ایسا سلوک ہورہا تھا جیسے وہ قتل کے مجرم ہیں۔ ہاں جو تعلقات والے تھے اُن کے لیے تو اوپر سے فون آنے کے بعد کوئی قانون نہ رہا اور تفتان میں بغیر کچھ وقت گزارے وہیں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اب سب سے اہم ملین ڈالر سوال ہے کہ تفتان ایک دور افتادہ علاقہ ہے اور وہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ تو آپ تفتان میں ایرانی بارڈر سے داخلے کی اجازت کیوں دے رہے تھے؟ صرف اس لیے کہ وہ زائرین غریب غرباء تھے اور وہ بس ہی کا کرایہ دے کر گئے تھے اس لیے اُن کو اُن کی اوقات کے مطابق بس سے ہی لانا تھا۔ اور اگر آپ کے پاس یہ بہانہ ہے کہ وہ تفتان بارڈر سے گئے تھے اور وہیں سے واپس آنا تھا تو یہ عذر بھی عذر گناہ بدتراز گناہ کے مصداق ہے۔ آپ کی حکومت ایرانی ذمہ داروں سے بات کرکے سب کو بذریعہ ہوائی جہاز واپس لاتی چاہے ائر فورس کے جہازوں کی سہولت بھی حاصل کرنی پڑتی، اور سب کو متعلقہ صوبوں میں سیدھے پہنچاتی اور بہترین قسم کی سہولیات سے آراستہ قرنطینہ میں رکھتی، اور کوئی جگہ فوری طور پر موجود نہیں تھی تو پارلیمنٹ لاجز خالی کراکے اسلام آباد میں رکھتی اور بقیہ صوبوں میں ایم پی اے ہاسٹل خالی کراکے وہاں رکھتی، اور مزید ضرورت پڑنے پر پانچ ستارہ ہوٹلوں میں رکھتی جو خالی پڑے ہوئے ہیں جن کو کوئی بزنس نہیں مل رہا۔ زائرین کو مناسب رہائشی سہولتیں اور کھانا ملتا تو وہ بھاگنے کی کوشش نہ کرتے۔ اور دوسرا سب سے اہم فائدہ یہ ہوتا کہ اچھا کھانا کھانے سے ان کی قوتِ مدافعت میں زبردست اضافہ ہوجاتا اور جو دوچار ان میں سے وائرس کا شکار ہوئے ہوتے وہ وہیں چیک ہوجاتے اور دوسروں سے گھل مل کر مزید پھیلانے کا باعث بنتے۔ یہ مانا کہ شاید اس سارے عمل میں حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے، مگر اب جو اربوں روپے خرچ ہوں گے وہ شاید اس کے مقابلے میں کچھ نہ ہوتے۔ اب یہ جاہلیت ’’مذہبی‘‘ ہے یا ’’حکومتی‘‘؟