ڈاکٹر عبدالقادر سومرو سعادت کی زندگی، شہادت کی موت

آپ کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے سندھ کے پہلے اور پاکستان کے دوسرے ڈاکٹر ہیں

محمد شاہد شیخ
دھیما لہجہ، چہرے پہ مسکراہٹ، منکسر المزاج، مقصد سے لگن رکھنے والے، انسان دوست، جو طبیب ہی نہیں حقیقی مسیحا تھے، اقامتِ دین و خدمتِ خلق جن کا شعار تھا، اس عظیم شخصیت کا نام ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ہے، جس نے جوانی سے تادمِ مرگ ایک پاکیزہ اور بامقصد زندگی گزاری۔ وہ نمود و نمائش سے بچتے ہوئے انسانیت کی اس طرح خدمت کررہے تھے کہ ان کے بچھڑنے پر ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمگین ہے۔ ان کی خدمات پر صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، اور صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو سمیت ڈاکٹروں کی تمام ایسوسی ایشنز، تمام ہی فلاحی و رفاہی تنظیموں، میڈیا اور سیاسی جماعتوں، غرض سبھی نے انہیں خراجِ عقیدت و سلام پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کورونا وائرس سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے سندھ کے پہلے اور پاکستان کے دوسرے ڈاکٹر ہیں۔ یہ فرنٹ لائن کے سپاہی تھے، انہیں معلوم تھا کہ دنیا بھر میں پھیلنے والی یہ وبا بلاتخصیص انسانوں کو نقصان پہنچائے گی، اسی لیے انہوں نے گلشن حدید میں الخدمت کے اسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے ایک آئیسولیشن وارڈ بنوایا، جہاں وینٹی لیٹر کا بھی اہتمام کررہے تھے۔ 24 مارچ کو انہوں نے اس سلسلے میں ایک اجلاس بھی فریدہ یعقوب اسپتال میں کیا، جس میں صدر الخدمت فائونڈیشن سندھ ڈاکٹرتبسم جعفری، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر اظہر چغتائی، ڈاکٹر ثمین خان راؤ، اعجاز اللہ خان اور دوسرے ساتھیوں سے تفصیلی مشاورت کی۔ ابھی اس محاذ پر سرگرم ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ مریضوں کو دیکھتے دیکھتے 28 مارچ کو خود کورونا وائرس سے دوچار ہوگئے۔ انڈس اسپتال لے جایا گیا، وینٹی لیٹر بھی انہیں لگایا گیا، لیکن جانبر نہ ہوسکے، اور 6 اپریل کی شام 6 بجے سب کو اداس چھوڑ کر اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ اسی رات انہیں حکومتِ سندھ کی جانب سے قائم کردہ گلشنِ حدید کے قریب ایک نئے قبرستان میں دفنا دیا گیا جو خاص طور پر کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ گویا کہ اس نئے قبرستان میں منوں مٹی تلے وہ پہلے مکین بنے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے، اور ہر منزل سے وہ کامیابی سے گزرتے ہوئے جنت الفردوس میں جگہ پائیں، اور اللہ کی رحمت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق دار بن جائیں۔ آمین ،ثم آمین
عبدالقادر بھائی سے راقم کی ملاقات 1977-78ء میں ہوئی تھی جب میں جمعیت کا رفیق اور نور محمد پٹھان جمعیت سندھ کے ناظم تھے۔ غالباً محترم علی احمد مہر اور ناظم جمعیت حیدرآباد زاہد عسکری بھائی نے اُن سے تعارف کرایا تھا۔ بعدازاں وہ سندھ کے ناظم منتخب ہوگئے۔ انہی کے دور میں، مَیں1980ء میں جمعیت کا رکن بنا۔ قادر بھائی کا اندازِ تکلم متاثر کن تھا، ان کی تقریروں کا بھی گہرا اثر ہوا۔ ٹنڈوآدم کے تربیتی کیمپ میں انہوں نے ’’جس نے کہا اللہ ہمارا رب ہے‘‘ کے عنوان پر بہت پُرجوش خطاب کیا، اور پہلی مرتبہ انہی کی زبان سے میں نے یہ شعر سنا کہ

یہ قدم قدم بلائیں، یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو کا مزاج رکھنے والے عبدالقادر بھائی کا دورِ جمعیت ایک تفصیل طلب تحریر چاہتا ہے، تاہم جمعیت میں اُن کا چانڈکا میڈیکل کالج میں جمعیت کا پینل کامیاب کرانے کے علاوہ، ایک بڑا کارنامہ1979ء میں عباس بھائی پارک رانی باغ حیدرآباد میں کامیاب صوبائی کانفرنس کا انعقاد تھا، جس سے اُس وقت کے ناظم اعلیٰ لیاقت بلوچ صاحب نے بھی پُرجوش خطاب کیا تھا۔ حاضری اور خطابات کے اعتبار سے یہ نہایت کامیاب پروگرام تھا۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو نے یکم فروری1956ء کو شکارپور سندھ کے ایک دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد غلام حیدر سومرو علاقے کے مقبول خطیب و مبلغ تھے، ان کا پیشہ سنار یعنی طلائی زیورات بنانے کا تھا، فارغ اوقات میں وہ تبلیغِ دین کرتے، جب سید مودودی ؒ کا لٹریچر پڑھا تو جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور اپنا نام بدل کر حیدر محمد سومرو رکھ لیا، اور خود کو اللہ کی غلامی میں دے دیا۔ ڈاکٹر سومرو کے نانا عندل فقیر شکارپور کے مشہور روحانی بزرگ تھے۔ نانا اور والد کی زندگی کے اثرات ڈاکٹر عبدالقادر سومرو پر آنا ایک فطری عمل تھا، لیکن انہیں مہمیز دینے کا کام جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر محترم پروفیسر نظام الدین میمن نے کیا جو اُس زمانے میں طالب علم تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ تھے۔ میمن صاحب بھی ڈاکٹر سومرو کے انتقال کا سن کر رو رہے تھے، کیونکہ ان سے نصف صدی کا ساتھی جس ادا سے بچھڑا اس پر اشک بار اور گلوگیر تو انہیں ہونا ہی تھا۔ نظام بھائی نے راقم کو بتایا کہ 1970ء میں نور محمد پٹھان اور عبدالقادر سومرو گورنمنٹ ہائی اسکول شکارپور میں نویں جماعت کے طالب علم تھے جب میں نے ان سے دوستی کی اور جمعیت میں شمولیت کی دعوت اور پڑھنے کو سید مودودی ؒ کا لٹریچر دیا۔ وہ جلد ہی جمعیت کے رفیق بن گئے، اور دونوں رکن بھی ساتھ بنے، اور یکے بعد دیگرے جمعیت کی نظامتِ صوبہ کے منصب پر بھی فائز رہے۔ انٹر پاس کرکے عبدالقادر سومرو کا لاڑکانہ میں قائم ہونے والے نئے کالج، چانڈکا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا، اور نور محمد پٹھان سندھ یونیورسٹی چلے گئے۔ سی ایم سی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی چاہت سے قائم کیا تھا۔ عبدالقادر سومرو وہاں کے ناظم ِ جمعیت تھے۔ انہوں نے اپنی ملنساری، دوستی اور باہمی رابطوں سے جمعیت کو اس کالج میں اتنا مضبوط و مقبول بنادیا کہ جب1974ء میں سی ایم سی میں پہلا طلبہ یونین انتخاب ہوا تو جمعیت کا پورا پینل وہاں کامیاب ہوگیا۔ یہ نوجوان جب ڈاکٹر بنا تو کسی قسم کا آرام کیے بغیر لاڑکانہ جماعت کے دفتر پہنچا اور جماعت اسلامی کی رکنیت کی درخواست دے دی۔ رکنیت منظور ہوئی اور ساتھ ضلع کا سیکرٹری (قیم) بنادیا گیا، اور وہ جلد ہی لاڑکانہ ضلع کے امیر بھی بنادیئے گئے۔ گویا کہ لاڑکانہ جماعت اُن کی قیادت کی منتظر تھی۔ اسی دوران ان کے اہلِ خانہ اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی سندھ اور نائب امیر پاکستان مولانا جان محمد عباسی مرحوم کے گھر ان کا رشتہ لے گئے، جو قبول کرلیا گیا۔ یوں ایک عظیم گھر کا چشم و چراغ ایک عظیم ہستی کا داماد بن گیا۔ مولانا کی صاحب زادی سے ان کا سادگی کے ساتھ نکاح ہوا۔ اس کے بعد انہیں پاکستان اسٹیل مل میں ملازمت مل گئی جہاں وہ چیف میڈیکل آفیسر رہے اور ساتھ میں فریضۂ اقامتِ دین اور خدمتِ خلق بھی جاری رکھی۔ اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کے صدر رہے، بعد میں الخدمت فاؤنڈیشن سندھ کے نائب صدر بنادیئے گئے۔ انہوں نے امراض جلد میں ڈپلومہ کیا تھا۔گلشنِ حدید میں انہوں نے اپنا نجی کلینک بھی بنالیا جہاں مریضوں سے شفقت و محبت نے لوگوں میں انہیں مقبول بنادیا، بعض لوگ تو انہیں گلشنِ حدید کا ایدھی کہتے تھے۔ ان کی کاوشوں سے ایک صاحب نے الخدمت کو اسپتال کے لیے ایک وسیع پلاٹ دے دیا۔ اس پہ الخدمت کا اسپتال قائم ہوا جس کانام ’فریدہ یعقوب اسپتال‘ رکھا گیا۔ الخدمت نے ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کو اس اسپتال کا ایم ایس بنادیا، اور ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں تھرپار کر میں قائم ہو نے والے الخدمت کے نئے اوربڑے اسپتال ’نعمت اللہ خان اسپتال‘ کے بھی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی ذمہ داری دے دی گئی۔ ابھی وہ پوری طرح وہاں منتقل نہیں ہوئے تھے اور فریدہ یعقوب اسپتال میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے آئیسولیشن وارڈ بنوا کر وہاں وینٹی لیٹر لگوانے کا کام کرہی رہے تھے کہ خود کورونا وائرس کا شکار ہو گئے۔

میں نقوشِ پا سے رستوں کو جِلا دے جاؤں گا
میں جو گزروں گا تو منزل کا پتا دے جاؤں گا

گویا سندھ میں استقامت و للہیت کے ساتھ طلبہ و عوام اور ڈاکٹروں کو اسلام کے پرچم تلے منظم کرنے کی تگ ودو کرنے والا یہ دینِ حق کا سپاہی، ہر مجبور و بے کس کا بھائی سعادت کی زندگی گزار کر شہادت کی موت پاگیا۔ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ایک پُرعزم، پُرخلوص اور نظریاتی آدمی تھے، جنہوں نے ایک بامقصد زندگی گزاری۔ اگرچہ ان کی نمازِ جنازہ و تدفین میں لاک ڈاؤن اور حکومتی پابندیوں کی وجہ سے مجبوراً چند افراد ہی شریک ہوسکے، لیکن لاکھوں لوگوں نے ان کی مغفرت کی دل سے دعائیں کی ہیں۔ جب میری اُن کے برادرِ نسبتی بدرالدین عباسی سے لاڑکانہ فون پر بات ہوئی تو وہ رو رہے تھے، انہوں نے گلوگیر آواز میں بتایا کہ بڑے بھائی قربان عباسی، چھوٹے بھائیوں قمر عباسی، شمس عباسی اور دیگر اہلِ خانہ کی بھی یہی کیفیت ہے، ہم سب دل گرفتہ ہیں۔ اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی بیوہ سمیت تمام لواحقین کو صبرِ جم