نواب شاہ:امداد اور راشن کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ

کاشف رضا
اس وقت کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو لاک ڈائون کیا ہواہے۔ اس وبا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر غریب فرد دو وقت کی روٹی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ پاکستان میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر اعلانات در اعلانات ہورہے ہیں لیکن خوراک اور غذائی اجناس کی کمی کی صورتِ حال منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کے برخلاف وزیراعظم پاکستان نے اس غذائی قلت کا اظہار تو کیا ہے، لیکن وہ اس بات پر بھی مُصر ہیں کہ ملک میں وافر مقدار میں غذائی اجناس موجود ہیں اور کسی قسم کی کوئی قلت نہیں، حکومتی سطح پر امداد جلد شروع کریں گے۔
ان سطور کی تحریر تک روزانہ اجرت والے مزدور کو کسی قسم کا ریلیف نہیں مل سکا۔ اگر ریلیف کی خبریں آئی ہیں تو صرف الخدمت فائونڈیشن اور ایسے ہی دیگر کئی فلاحی اداروں کی جانب سے۔ سندھ حکومت نے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تو سندھ بھر کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان سے یہ خدمت لینے کی کوشش کی۔ سندھ میں اس وقت بلدیاتی نظام موجود ہے، اس بلدیاتی نظام سے سندھ بھر کے ڈپٹی کمشنر صاحبان نے کام لینے کی ٹھانی اور چیئرمین اور کونسلروں سے فہرستوں کی تیاری کا عمل شروع کروایا گیا۔ ان فہرستوں کی تکمیل کے بعد راشن اور امدادی رقوم کی فوری ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ کونسلروں، زکوٰۃ کمیٹی کے چیئرمین، معزز شہریوں اور فلاحی تنظیم کے نمائندوں پر مشتمل یہ کمیٹی بھی سیاست کی نذر ہوگئی ہے۔ نواب شاہ میں بھی ایسی ہی صورتِ حال سامنے آئی ہے۔ سندھ پر حکومت کرنے والی سرکار کے مقامی دفاتر سے بننے والی فہرست میں ایک ہی این جی او کے نام ڈال دئیے گئے، جبکہ اس این جی او کا کردار ایسے رفاہی و فلاحی کاموں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایسے میں راشن کی منصفانہ تقسیم کیوں کر ممکن ہے! سندھ حکومت کی جانب سے بے روزگار مزدور طبقے کو گھر گھر راشن پہنچانے کے لیے بنائی جانے والی ریلیف کمیٹی میں سرکاری ملازمین اور من پسند افراد سمیت سماجی تنظیم کے کارندے شامل ہیں۔ شہر کی سیاسی، سماجی تنظیموں اور دانشوروں نے ڈپٹی کمشنر کی بنائی گئی کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے مستحق افراد تک راشن کی منصفانہ تقسیم کے لیے وارڈ کونسلر کے ساتھ مقامی افراد پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ شہر کے سیاسی، سماجی رہنماؤں اور دانشوروں فیاض چنڈ کلیری، کامریڈ علی جان رند، پی ٹی آئی رہنما عنایت علی رند، فنکشنل لیگ کے رہنما سید باغ علی شاہ، سٹیزن ایکشن کمیٹی کے اسلم نوری، رائو راشد ماجد، عبدالباسط قریشی، ذکاء الدین مغل ودیگر کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ابرار احمد جعفر نے ضلع بھر میں سرکاری ملازمین اور من پسند افراد کے ساتھ غریب عوام کو مفادات کے تحت قرض فراہم کرنے والی سماجی تنظیم کے کارندوں کو شامل کرکے ریلیف کمیٹیاں بنائی ہیں جنہیں ہم مسترد کرتے ہیں۔ سیاسی و سماجی رہنماؤں نے کمشنر شہید بے نظیرآباد سے مطالبہ کیا کہ ریلیف کمیٹیوں میں صاف، شفاف اور انسانیت سے محبت کرنے والے مقامی افراد کو شامل کیا جائے تاکہ غریب بے روزگار مستحق مزدوروں کو ریلیف مل سکے۔ سیاسی و سماجی تنظیموں کے افراد نے شکوہ کیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد ڈپٹی کمشنر کا محدود ہونا اور شہری تنظیموں سے رابطے کا فقدان مسائل میں اضافے کے ساتھ عوام میں بے چینی کا باعث بن رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر شہید بے نظیر آباد ابرار احمد جعفر نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ ہم نے غیر جانب دار افراد پر مشتمل ریلیف کمیٹیاں بنائی ہیں، اگر کوئی غلط فرد کمیٹی میں شامل ہوگا تو اسے کمیٹی سے خارج کردیا جائے گا۔
معاشی ماہرین کے تجزیے، اقتصادیات کے ماہرین کے تجربات اپنی جگہ، لیکن سندھ حکومت کی ریلیف کمیٹیاں اگر حقیقی معنوں میں ریلیف پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئیں تو اس وبا کے باعث سندھ بھر کی آبادی جو پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے ہے، پاکستان بھر کے لیے کسی انسانی المیے سے کم نہ ہوگی۔ سندھ سرکار اگر شفافیت اور امداد کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا چاہتی ہے تو صوبے بھر کے اضلاع میں پیدا ہونے والے عوامی شکوک وشبہات کو دور کرے۔