اس وقت مغرب نے ہزار محاذ پر عالمِ اسلام اور اسلامی فکر پر صلیبی حملہ کررکھا ہے۔ ان میں سے ایک محاذ مستشرقین نے کھول رکھا ہے۔ ان کی پیش قدمی پر اہلِ اسلام نے بھی اپنا ردعمل تحریری صورت میں ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔ اب ہزاروں کتب و مقالات اس دسیسہ کاری کی وضاحت کے لیے منصۂ شہود پر آنے شروع ہوگئے ہیں۔ انہی میں زیر نظر گراں قدر کتاب بھی ہے۔
حافظ محمود اختر تحریر فرماتے ہیں:
’’حفاظتِ قرآن مجید اور مستشرقین اہلِ علم کے لیے پیش خدمت ہے۔ یہ اللہ کے کلام کی ایک ادنیٰ سی خدمت کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کی یہ خدمت اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اسی کی توفیق سے یہ کام ممکن ہوسکا۔ میں اللہ کی بارگاہ میں اپنے نہایت ہی محسن اور ’’قرآن دوست‘‘ استاذ حافظ احمد یارؒ کے لیے دعاگو ہوں کہ آج سے چالیس برس قبل انہوں نے حفاظتِ قرآن اور مستشرقین کے موضوع پر کچھ پڑھنے اور لکھنے کو کہا۔ اُس وقت یہ موضوع بالکل اجنبی تھا، اب تو اس موضوع پر لکھنے والوں کی تعداد ہزاروں سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ استاذِ محترم کی زیر نگرانی جو کچھ اپنی صلاحیت کے مطابق سمجھ سکا، اسے ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مقالات میں پیش کیا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب نے کتاب پر مبسوط مقدمہ لکھا ہے، اس میں سے ہی کتاب کے محتویات کا تعارف پیش خدمت ہے۔ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’جواب تحریر کرتے وقت آغاز میں اسلامی نقطہ نگاہ سے قرآن مجید، حدیث شریف اور علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے تمام پہلو اس انداز سے اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بہت سے اعتراضات کی وضاحت اسی حصے میں ہوجاتی ہے۔
حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ براہِ راست بنیادی ماخذ کی روشنی میں حقائق پیش کیے جائیں۔ مستشرقین کے افکار ان کی کتابوں سے براہِ راست حاصل کیے گئے ہیں۔ ہر چند کہ ان کی لاتعداد کتب کا مطالعہ کیا گیا ہے، تاہم مستشرقین کی لکھی ہوئی ہر دوسری کتاب میں ہمارے موضوع کے بارے میں مواد موجود ہے۔ اس لیے ہم نے وہ اعتراضات پیش کیے ہیں جو تمام مستشرقین کے ہاں ’’مشترک اعتراضات‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پہلے باب میں مستشرقین کی تحقیقات کا فکری، سیاسی اور مذہبی پس منظر، اسلام کے بارے میں ان کی تحقیقات کی نوعیت، ان کے ماخذِ تحقیق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس میں مستشرقین کی اسلام کے بارے میں تحقیقات کا یہ پہلو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ ان کے زیر استعمال ماخذ کی علمی و تحقیقی حیثیت و مقام کیا ہے۔ واضح کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو ان کے ہاں معتبر اور غیر معتبر ماخذ کا کوئی تصور نہیں، دوسرے یہ بات کہ معتبر یا غیر معتبر ماخذ سے وہ وہی روایت لیتے ہیں جو ان کے مزعومہ پیشگی طے شدہ نقطہ نگاہ کی تائید کرتی ہو۔
دوسرے باب میں اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مستشرقین قرآن مجید کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کتاب میں حفاظتِ قرآن کو مندرجہ ذیل ترتیب سے دلائل پیش کرکے واضح کیا گیا ہے:
٭قرآن مجید کا اعلان کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ کے سپرد ہے۔
٭ نزولِ قرآن مجید کے ساتھ ہی اس کی کتابت اور حفظ کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ ثقہ روایات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے کہ آپؐ نازل شدہ وحی کو لکھوانے کو سب کاموں پر ترجیح دیتے تھے۔
نہ صرف وحی کو فوری طور پر لکھوانے کا اہتمام تھا بلکہ نزولِ وحی کے ساتھ ہی آیات کی ترتیب بھی متعین کردی گئی تھی، اور صحابہؓ روزانہ کی تلاوت اور نمازوں میں اسی ترتیب سے پڑھتے تھے۔ ترتیبِ قرآن سے سبھی لوگ مکمل طور پر آگاہ تھے اور اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ اس موضوع پر تفصیلات تیسرے باب میں موجود ہیں۔ یہاں بھی عقلی، نقلی اور واقعاتی شواہد پیش کیے گئے ہیں۔
٭عہدِ صدیقِ اکبرؓ میں ایک متفقہ نسخہ کس احتیاط اور اہتمام سے تیار کیا گیا اس کی تمام تفصیلات چوتھے باب میں بیان کی گئی ہیں۔ مستشرقین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب مسلمانوں نے عہدِ صدیقِ اکبرؓ میں قرآن کا نسخہ تیار کرنے کی کوشش کی تو وہ اس وقت بھی مکمل قرآن اکٹھا نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں اشکالات کا ازالہ کیا گیا ہے۔
٭ پانچویں باب میں عہدِ عثمانِ غنیؓ میں جمع قرآن کی کارروائی پورے سیاق و سباق کے ساتھ واضح کردی گئی ہے۔ تمام تفصیلات مستشرقین کے اشکالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بیان کی گئی ہیں اور جہاں ضروری ہوا ہے وہاں ان کی عبارات بھی پیش کی گئی ہیں۔ ہر باب میں مسلمانوں کے مستند ماخذ کی روشنی میں حقائق پیش کرنے کے ساتھ ساتھ واقعاتی اور عقلی دلائل سے بھی واضح کیا گیا ہے کہ مستشرقین کا نقطہ نگاہ ان میں سے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
٭قرآن مجید کے متن میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے مستشرقین نے ترتیبِ قرآن کو بھی بنیاد بنایا ہے۔ کتاب کے چھٹے باب میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ کتاب کی ترتیب و تشکیل میں اختیار کردہ اصول کے مطابق پہلے مستشرقین کا مؤقف اُن کی عبارات کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قرآن کی توقیفی ترتیب پر دلائل و شواہد بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب کے ساتویں باب میں نسخ فی القرآن کے موضوع پر بات کی گئی ہے۔ نسخ فی القرآن مستشرقین کا بنیادی ہدف ہے۔ ان لوگوں نے کچھ عبارات کے بارے میں بڑے شدومد سے تاثر پیدا کیا ہے کہ یہ قرآن مجید کی آیات تھیں جو اب موجودہ قرآن میں شامل نہیں ہیں۔ گویا موجودہ قرآن مکمل نہیں ہے۔ اس موضوع پر ان روایات اور ان کی اسناد کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے۔
آٹھویں باب میں سبعہ احرف اور اختلافِ قرأت کا موضوع زیربحث آیا ہے۔ اس پہلو سے بھی مستشرقین نے حقائق کو اپنے مقصد کے تحت توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہوئے قرآن مجید کے متن کے بارے میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ سبعہ احرف کی وجہ سے قرآن مجید کا متن عہدِ نبوی میں ہی مختلف فیہ تھا۔
نویں باب میں اختلافِ مصاحف کے عنوان کے تحت، مستشرقین کے پیدا کردہ ان اشکالات کا ازالہ کیا گیا ہے جو اس پہلو کو بنیاد بناکر پیش کیے گئے ہیں۔‘‘
کتاب نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔ بڑے سائز کی ہے، مجلّد ہے، رنگین سرورق سے آراستہ ہے۔ دفاعِ قرآن مجید کے سلسلے میں اہم کتاب ہے۔ ہر کتب خانے میں موجود ہونی چاہیے۔